تحریر: علی حسن۔۔
دو روز کے وقفہ سے پیش آنے والے دو واقعات نے دہلا کر رکھ دیا ہے۔ پہلا واقعہ یہ تھا کہ روز گار کی تلاش میں اپنی رقم لگا کر غیر قانونی طریقے سے جانے والے افراد کی کشتی کھلے سمندر میں الٹ گئی جس کی وجہ سے درجنوں افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ دوسرا واقعہ یہ پیش آیا کہ مسافر جہاز ٹائی ٹینک کے ملبے کو دیکھنے کی خواہش اور شوق میں زیر سمندر سفر کرنے والے افراد کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی۔ ایک سو گیارہ برس قبل مسافروں سے بھرے ہوئے پانی کے جہاز کی اپنے پہلے سفر کے دوران ہی سمندر میں غرق ہو گیا تھا۔ حالانکہ ٹائی ٹینک کے مالکان نے دعوی کیا تھا کہ ٹائی ٹینک کبھی بھی غرق نہیں ہوگا۔ لیکن انسانی دعوی کی اہمیت ہی کیا ہوتی ہے۔ ٹائی ٹینک میں دو ہزار دو سو آٹھ مسافر سفر کر رہے تھے جن میں ایک ہزار پانچ سو آٹھ غرق ہو گئے تھے ۔
پہلے واقعہ میں یورپی یونین کے کمشنر برائے داخلی امور یلوا جوہانسن نے ایک انٹرویو کے دوران کہا کہ یونان میں کشتی ڈوبنے کا حادثہ تاریخ کا بدترین سانحہ ہوسکتا ہے اسمگلرز لوگوں کو یورپ نہیں موت کے منہ میں بھیج رہے ہیں۔ تارکین وطن کی آمد میں 600فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ لیبیا کے ساحلی شہر طبرق سے اٹلی جانے والی کشتی میں اطلاعات کے مطابق 750 سے زائد افراد سوار تھے جن میں 100سے زائد معصوم بچے اور متعدد خواتین بھی شامل تھیں۔ مبینہ طور پر کشتی پر 310پاکستانی سوار تھے ، اطلاعات کے مطابق کشتی حادثے میں لاپتہ 500 سے زائد افراد میں 298 پاکستانی بھی شامل ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یونانی بحریہ نے رسوں کے ذریعے سے کشتی کو ساحل پر لانے کی غلط کوشش کی اسی دوران کشتی غرق آب ہوگئی۔ بدقسمتی سے مچھلی کے شکار میں استعمال ہونے والی کشتیوں کو استعمال کرنا شروع کردیا گیا تھا۔
جیسا ہر بڑے واقعہ کے بعد حکومتیں قوم کی اشک سوئی کرنے کے لئے وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلرز کیخلاف کریک ڈاﺅن کی کارروائی کا حکم دیا ہے۔ پاکستان سے انسانوں کی خصوصا یورپی ممالک اسمگلنگ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انسانوں کی اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے کبھی بھی بامقصد کارروائی نہیں کی جاتی ہے اسی لئے اسمگلر نیا راستہ تلاش کر لیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ زندہ بچ جانے والے افراد کے بیانات کے ذریعے14پاکستانی انسانی اسمگلروں کے نام سامنے آئے ہیں ۔ دعوی کیا جا رہا ہے کہ ان کی گرفتاری کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ جاں بحق ہونے والے افراد کو بیرون ملک بھجوانے والے مرکزی کردار طلحہ شاہ زیب کو شیخوپورہ سے گرفتار کرلیاگیا۔ ایف آئی اے کے ذرائع کے مطابق انسانی اسمگلرز میں سے 5کا تعلق گجرات سے ہے جبکہ منڈی بہاﺅالدین، ڈسکہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ لوگوں سے بھاری بھاری رقمیں وصول کر کے نہیں بھیڑ بکری کی طرح بھیج دیا گیا تھا۔ لوگ بہرون ملک جانے میں اس لئے دلچسپی رکھتے ہیں کہ پاکستان میں تو لوگوں کے لئے ملازمت کے حصول کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا ہے۔ بیرون ملک بھی پاکستانی سفارت خانے لوگوں کو روز گار پر بلانے کا کوئی انتظام کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کرتے ہیں۔
پاکستان کے بڑے اور معروف تاجر اور داﺅد گرو پ کے چیئرمین حسین داﺅ د کا صاحبزادہ اور ان کا پوتا ٹائی ٹینک سیاحتی آبدوز میں لاپتہ ہونے والوں میں شامل ہیں۔ لاپتہ ہونے والی آبدوز میں پانچ افراد سوار تھے جن میں حسین داﺅد کا بیٹا شہزادہ داﺅد ان کا پوتا سلیمان ، برطانوی ارب پتی ہمیش ہارڈنگ اور فرانسیسی بحریہ کے غوطہ غور پی ایچ نارجیولٹ اور آبدوز کمپنی کے اوشین گیٹ سی او اسٹاکٹین رش 18 جون کی سہ پہر سے لاپتہ ہیں اور ممکن ہے کہ وہ ٹائی ٹینک کے ملبے میں پھنسے ہو ئے ہوں۔ اوشین گیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق آبدوز کا اس کی مدرشپ سے رابطہ ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد ہی ختم ہوگیا تھا، آبدوز 96گھنٹے تک زیرآب رہ سکتی تھی اور اس دوران 5افراد کے استعمال کےلیے اس میں وافرآکسیجن موجود تھا ۔ آبدوز کو بچانے کے لیے کوششیں کی گئیں تھیں اس کا کوئی سراغ نہیں مل پایا تھا اور یہ کمپنی نے آبدوز میں موجود افراد کی ہلاکت کا با ضابطہ اعلان کر دیا تھا۔ 22 فٹ لمبی آبدوز اوشین گیٹ (جو ٹائی ٹینک کا ملبہ دیکھنے کے شوقین افراد کو 195000 برطانوی پاﺅنڈ کی ادائیگی پر 12500 فٹ زیر سمندر گہرائی میں لے جاتی ہے )لاپتہ ہوگئی تھی۔
برطانوی نیوی کے کمانڈر ریان ریمزے کا کہنا ہے کہ اگر تو یہ آبدوز ابھی بھی زیرسمندر ہے تو انہیں بچانے کا کو ئی طریقہ نہیں ہے کیونکہ اس کےلیے درکار ٹیکنالوجی موجود ہی نہیں ہے لیکن اگر یہ آبدوز سطح پر آکر تیرنے لگتی ہے تو ایسی صورت میں عملے کو آکسیجن یا ہوا ختم ہونے سے پہلے نکالنا آسان ہوگا۔ ریمزے نے مزید بتایا کہ یہ جس گہرائی میں گئی ہے وہاں بلاکا دباو ہوتا ہے اور اگریہ زیرسمندر ہی ہے تو یہ اب تک پچک گئی ہوگی اور اگر آبدوز میں کوئی خرابی پیدا ہوجاتی ہے تو آبدوز پر چاروں طرف سے پڑنے والا دباﺅ اسے پچکا کر رکھ دیتا ہے اس لیے نیچے جا کربچانا ممکن نہیں اس کےلیے درکار ٹیکنالوجی موجود ہی نہیں۔
داؤد خاندان پاکستان کا ایک امیر ترین خاندان ہے اور درجنوں قسم کے کاروبار کرتا ہے۔ شہزادہ نے طویل عرصہ قبل برطانیہ میں ہی شہریت اختیار کر لی تھی۔برطانوی اخبا ر کے مطابق شہزاد ہ کی بیوی غیر ملک بیوی کرسٹائین اور ان کی بیٹی علینہ بڑی بے چینی سے اپنے پیاروں کا انتظار کررہی تھیں ۔ آر ایم ایس ٹائی ٹینک ( وہ کمپنی جو ٹائی ٹینک کے ملبے کے حقوق رکھتی ہے) کے سینئر ایڈوائزر ڈیوڈ گالو نے کہا ہے کہ اگر یہ آبدوز ابھی تک ٹھیک بھی ہے تو بھی اس پر موجود پانچ افراد آکسیجن کی گرتی ہوئی سطح کا شکار ہورہے ہوں گے اور شدید سردی و ہائپوتھرمیا کا سامنا کررہے ہوں گے۔ ایک برطانوی تاجر کا ٹائٹن میں پ ±رانا مواد استعمال کئے جانے کا انکشاف کیا ہے۔ آبدوز ٹائٹن میں 61 سالہ برطانوِی تاجر کرس براو ¿ن (Chris Brown) بھی سوار ہونے کا ارادہ رکھتے تھے تاہم انہوں نے عین آخری لمحات میں اپنا ارادہ بدل لیا تھا اور اس طرح موت سے محفوظ رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ آبدوز میں پرانا مواد استعمال کیا جا رہا ہے اور اسے کمپیوٹر گیم کھیلنے والے کنٹرولرز سے چلایا جائے گا تو انہوں نے کمپنی سے معذرت کرلی تھی۔ ٹائٹن آبدوز میں 4 مرتبہ سوار ہو کر سمندر کی گہرائیوں میں جانے والے ایک شخص مائیک ریس نے آبدوز سے متعلق اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ چاروں مرتبہ رابطے کے حوالے سے مسائل ہوئے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس کمپنی کے ساتھ 4 مرتبہ سفر کیا، ایک ٹائی ٹینک کے لیے اور 3 نیو یارک سٹی سے دور اور ہر مرتبہ ہمارا رابطہ منقطع ہوا۔انہوں نے کہا کہ وہ آبدوز کو اتنا قصور وار نہیں ٹھہراتے ہیں جتنا کہ گہرے پانی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بحر اوقیانوس کی گہرائیوں میں لاپتا ہو جانے والی سب میرین ٹائٹن میں سطح پر واپس آنے کے لیے 7 بیک اپ سسٹم ہیں جن میں سے ایک کو اس طرح بنایا گیا ہے کہ اگر آبدوز میں سوار ہر شخص بے ہوش بھی ہو جائے تو یہ انہیں سمندر کی سطح پر واپس لے آئے۔گزشتہ سال ٹائٹن پر سوار ہونے والے امریکی ٹی وی کے صحافی نے بتایا ہے کہ آبدوز میں رابطے کے لیے 2 نظام استعمال کیے گئے ہیں جس کے تحت ٹیکسٹ پیغامات سطح پر موجود کشتی یا بحری جہاز کو موصول ہوتے ہیں اور دوسرا حفاظتی آواز یا سگنل ہیں جو ہر 15 منٹ بعد خارج ہوتے ہیں اور اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ آبدوز صحیح کام کر رہی ہے۔غیرملکی میڈیا کے مطابق یہ دونوں سسٹم ٹائٹن کے سمندری سطح میں جانے کے تقریباً ایک گھنٹہ 45 منٹ بعد رک گئے تھے۔امریکی صحافی کا کہنا ہے کہ دو چیزیں ہوسکتی ہیں یا تو آبدوز کی سمندر میں جاتے ہی تمام بجلی منقطع ہوگئی ہو یا پھر کسی خرابی یا دباو ¿ کے باعث یہ پھٹ گئی ہو اور یہ تمام چیزیں ہی بہت خطرناک اور افسوس ناک تھیں۔ بہر حال وسائل سے مالا مال لوگوں کا شوق میں زیر سمندر سفر اور وسائل سے محروم افراد کی ضرورت کے لئے سفر دونوں ہی انسانی موت کا سبب بن جاتے ہیں۔ (علی حسن)