تحریر: خرم علی عمران
وطن عزیز کے مختلف علاقوں میں موٹر وے پر سفر کا جنہیں اتفاق ہوا ہے وہ بھی اور جنہیں نہیں ہوا ہے وہ بھی ایک بات تو مانتے اور اس کا یقین رکھتے ہیں اگر موٹر وے پر کوئی بھی غلطی کرے گا تو چاہے وہ کتنا بھی بڑا اور بااثر آدمی ہو اسکا چالان تو پکا پکا ہوگا۔ وہاں کسی کا اثر و رسوخ،عہدہ یا حیثیت کام نہیں آتی۔ حر قوم پیر صاحب پگارا کی مرید ہے اور کہنے والے کہتے ہیں کہ پیر پگارا سے حروں کی عقیدت کا یہ عالم ہے کہ ان کے علاقے میں اگر پیر پگارا صاحب کی گاڑی بھی گزرے تو یہ عقیدت سے ٹائروں کے نیچے آنے والی مٹی کو بھی چومتے ہیں یعنی اس درجے کی عقیدت اور محبت کرتے ہیں لیکن ایک دوست نے آنکھوں دیکھا حال بتایا تھا کہ چند سال پہلے کی بات ہے جب موجودہ پیر صاحب پگارا کے والد محترم حیات تھے اور پیر پگارا کہلاتے تھے تب اوور اسپیڈنگ پر ایک عالیشان سی گاڑی کو روکا گیا تو ڈرائیور نے کچھ تکرار کے بعد روکنے والے موٹر وے پولیس آفیسر سے کہا کہ پیر پگارا صاحب کی گاڑی ہے اور پیر صاحب بہ نفسِ نفیس بیٹھے ہوئے ہیں اور اتفاق دیکھئے کہ روکنے والا موٹر وے پولیس کا آفیسر حر قوم سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ آفیسرکانپ گیا لیکن اس نے کہا کہ سائیں چالان تو ضرور ہوگا کہ یہ فرض کا معاملہ ہے چاہے بعد میں نوکری میں خود ہی چھوڑدوں اور چالان کردیا تو یہ تکرار جناب پیر پگاڑا بھی سن رہے تھے ان کی اعلی ظرفی دیکھئے کہ آپ نے اس اپنے مرید آفیسر کو پاس بلایا اور اسے خوب شاباش دی اور جرمانہ بھی ادا کیا اور اس آفیسر سے یہ بھی فرمایا کہ نوکری بلکل نہیں چھوڑنا بلکہ ایسے ہی اپنا فرض دلیری سے انجام دینا۔ تو یہ واقعہ اس لئے پیش کیا گیا تاکہ یہ مقدمہ اور مضبوط ہوجائے کہ موٹر وے پولیس اپنے معاملات میں کسی کا بھی لحاظ نہیں کرتی۔ یعنی باالفاظِ دِگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موٹر وے پر قانون کی حکمرانی قائم ہے اور سب پر قانون کا چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر بے لاگ نفاذ ہوا کرتا ہے۔
بس یہی ماسٹر کی یا شاہ کلید ہے کہ سارے ملک کو اگر واقعی ایک مثالی فلاحی مملکت بننا یا بنانا ہے تو پھر ہر جگہ ہر ادارے ہر شعبے میں موٹر وے جیسا ماحول اور تاثر تخلیق کرنا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی اور بے لاگ احتساب کا نظام، چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر ہر کسی کو اس کی غلطی کی سزا ملنے کا نظام۔ جب ایسا نظام بنے گا اورچھوٹی بڑی اشرافیہ و عوامیہ سب کو یہ پیغام پہنچے کا کہ اپنے کئے کو لازمی طور پر بھگتنا ہوگا اور کوئی اثر و رسوخ، سفارش اور حربہ کام نہیں آئے گا تو پھر معاملات میں ایک سدھار نہ صرف آنا شروع ہوگا بلکہ اس سدھار اور بہتری میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا جائے گا اور صحیح معنوں میں صرف تبدیلی نہیں بلکہ مثبت تبدیلی آنا شروع ہوجائے گی۔ فی الحال تو یہ تاثر جڑ پکڑ چکا ہے کہ ارے اگر رشوت لیتے پکڑے جاؤ تو زیادہ رشوت دے کر چھوٹ جاؤ کوئی مسئلہ نہیں، اور اسی طرح کسی بھی شعبہ ء زندگی میں بد عنوانی کے پیروکار اور پرستار بلکل بے خوف ہوگئے ہیں کہ یار کرپشن کرتے ہوئے یا کرنے کے بعد کتنی بھی بڑی فٹیگ آجائے ہم یہاں کہ انصاف اور قانون میں موجود چور راستوں اور لوپ ہولز سے بچ کے جلد یا بدیر نکل ہی جائیں گے اور یہی وہ خطرناک ترین سوچ ہے جو پچھلی چند دہائیوں میں بہت فروغ پا چکی ہے اور یہ کرپشن اور بدعنوانی کو چاہے وہ مالی ہو یا اخلاقی، معاشرتی ہو یا معاشی، علمی ہو یا ادبی ،صحافیانہ ہو یا عدالتی یا کسی اور دیگر اقسام کی، کینسر کی طرح ملک کے رگ و پے میں اتر چکی ہے اور اسکا علاج قانون اور انصاف کی بے لاگ حکمرانی کا یقین پیدا کرنا ہے اور پھر باقی اسکی مزید ضمنی چیزیں ہیں۔
جب قانون کی حکمرانی بے لاگ احتساب اوراپنے کئے کو ہر حال میں بھگتنے کا تاثر بنے گا یقین پیدا ہوگا تو پھر ہر کرپٹ شخص چاہے وہ سرکاری ملازم ہو یا پرائیوٹ، چاہے ادارہ جاتی افراد ہوں یا سیاسی کھلاڑی سب ٹھٹک جائیں اور رک جائیں گے،کرپشن کو سو فیصد ختم کرنا تو ناممکن ہے لیکن بے لاگ احتساب کا یقین پیدا ہوجانے کے اس کی شرح میں حیرت انگیز کمی لازما آجائے گی۔ اب یہ تاثر صرف بیانات اور لفاظی چاہے تحریری ہو یا زبانی سے پیدا نہیں ہوگا بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات کرکے دکھانے ہونگے اور ایک عام آدمی کی سطح تک اس تاثر کو مضبوط کرنا ہوگا کہ کسی بڑے سے بڑے فرد نے ،کسی بھی حیثیت کے بندے نے یعنی جس نے جو کیا ہے وہ اپنے کئے کو بھگت رہا ہے اور اسے قرار واقعی سزا مل رہی ہے۔ دراصل ملک کے اصل اسٹیک ہولڈز یعنی عوام میں گزشتہ کئی دہائیوں سے احتساب اور انصاف کے نام پر اتنے ڈرامے دیکھ،سن اور پڑھ لئے ہیں کہ ان کا یقین ہی ٹوٹ چکا ہے اور وہ اب صرف باتوں اور نعروں سے بہلائے نہیں جاسکتے۔ پھر سوشل میڈیا کی بے پناہ رسائی نے انٹر نیٹ اور موبائل نے ایک عام آدمی کی نظروں سے خوش گمانی اور خوش فہمیوں کے ۔ والہانہ عقیدتوں کے بہت سے بت توڑ دیئے اور بہت سے پردے ہٹا دیئے ہیں اور وہ اب کچھ کچھ سمجھنا شروع ہوگئے ہیں کہ انہیں دہائیوں سے کیسے کیسے لایعنی معاملات میں الجھا کر سیانوں اور ہوشیاروں نے اپنی اپنی ارضی جتیں تعمیر کرلی ہیں اور انہیں بدلے میں مہنگائی،بے روزگاری،بد امنی، غلاظت، کچرے،جہالت، خوف اور نفرت کے جہنم دے دیئے ہیں کہ تم ان میں پھنسے رہو اور ہم اشرافیہ اپنے لئے سارے مزے،ساری لذات ساری آسائشیں عوامی خرچے پر یعنی تمھارے اور تمھارے بچوں کے مستقبل کی قیمت پر حاصل کرتے اور ان سے لطف اندوز ہوتے رہیں۔ اس ملک کی اشرافیہ اور امراء طبقے میں میرا ماننا ہے کہ بہت سے لوگ ہیں جو کرپٹ نہیں ہیں،بااختیار اور درد مند بھی ہیں اور ملک و قوم کے لئے کچھ بہتر بھی کرنے کے خواہشمند ہیں تو پھر وہ اپنی کاوشوں ،کوششوں اور عمل کی رفتار ذرا تیز کریں کہ اب حالت بد سے بدترین کی جانب گامزن ہے۔(خرم علی عمران)