دوستو، رمضان المبارک کے اختتام پر اکثر لوگوں سے سنا ہوگا کہ یار رمضان میں تو اسمارٹ ہوگیا، وزن کم ہوگیا۔۔ کچھ لوگوں کو شکایات ہوتی ہے کہ رمضان میں زیادہ کھانے پینے سے وہ موٹاپے کا شکار ہوگئے ہیں ۔ ۔ لیکن ہمارا ماننا ہے کہ رمضان المبارک میں جو پورے ماہ کے روزے رکھتا ہے وہ نہ صرف سلم و اسمارٹ ہوجاتا ہے بلکہ وہ کئی بیماریوں سے بچ بھی جاتا ہے۔۔
قدیم اطباء ا ور جدید میڈیکل سائنس کے ماہرین کے نزدیک دنیا کے تمام موذی اور خطرناک امراض سے بچاؤ کا بہترین ذریعہ روزہ ہے۔جب ہم روزے کے روحانی اور طبی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے رکھتے ہیں تو لازمی بات ہے۔ ہمیں اس کے جسمانی ثمرات بھی میسر آتے ہیں۔روزہ بدن انسانی میں پیدا شدہ زہریلے مادوں کا خاتمہ کردیتا ہے اور روزہ دار کا جسم اضافی چربی اور فاسد مادوں سے پاک ہو جاتا ہے۔موٹاپے کا شکار خواتین و حضرات کے وزن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوتی ہے۔کولیسٹرول اور کولیسٹرول کے نقصانات سے نجات ملتی ہے۔خون کا گاڑھا پن ختم ہو کر کئی دیگر امراضِ خون سے جڑے عوارض سے چھٹکارا مل جاتا ہے۔بلڈ پریشر جیسے خاموش قاتل پر قابو پانے کی ہمت اور سبیل پیدا ہوتی ہے۔
ذیابیطس جیسے موذی مرض سے بھی نجات حاصل ہوجاتی ہے۔یورک ایسڈ کے عوارض سے جان چھو ٹ جاتی ہے۔سگر یٹ ،چائے اور شراب نوشی کی صحت دشمن عادات سے بہ آسانی پیچھا چھڑوایا جا سکتا ہے۔ روزہ رکھنے سے جسم کو فرحت وتازگی ملتی ہے۔ روزہ رکھنے سے ذہنی امراض ڈپریشن،سٹریس اور اینگزائیٹی سے بھی نجات ملتی ہے، ضبطِ نفس، برداشت اور جنسی جذبات پر قابو پانے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہے۔روزے سے بے خوابی دور ہو کر پر سکون نیند میسر آتی ہے اور خواب آور ادویات سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے۔ روزہ رکھنے سے انتڑیاں اور معدہ فاسد رطوبات سے پاک ہو جاتے ہیں۔ یوں ان کی کارکردگی اور افعال میں بہتری پیدا ہوجاتی ہے۔ روزے سے ا نسانی خد وخال اور ڈیل ڈول میں خوبصورتی اور دل کشی پیدا ہوتی ہے۔ چہرے کے کیل، مہاسوں اور گرمی دانوں سے نجات ملتی ہے۔روزہ رکھنے سے اعصابی اور جسمانی قوت حاصل ہوتی ہے۔
ایک دن ہم بیٹھے سوچ رہے تھے کہ افطار کا وقت ہوتا ہے، قریبی مسجد سے سائرن کی یا اذان کی آواز آجاتی ہے۔جہاں مسجد کافی دور ہے وہاں لوگ ٹی وی یا ریڈیو سے اپنے مقامی وقت کے مطابق روزہ افطار کرلیتے ہیں۔۔لیکن جو فضائی مسافر ہوتے ہیں ،زمین سے ہزاروں فٹ اوپر ہوتے ہیں، وہ افطار کے وقت کا تعین کیسے کریں؟؟ نیوز سائٹ ایمریٹس 247 نے یہی سوال دبئی کے گرینڈ مفتی ڈاکٹر علی احمد مشائل کے سامنے رکھا تو ان کا کہنا تھا کہ افطار کے لیے اس جگہ کے وقت پر انحصار کیا جائے گا جہاں آپ جسمانی طور پر موجود ہیں، یعنی دوران پرواز افطار کے لیے آپ اس جگہ کے وقت کے مطابق افطار نہیں کریں گے جہاں آپ نے روزہ رکھا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ہوائی جہاز میں سفر کررہے ہیں تو فضائی عملے سے معلوم کریں کہ سورج غروب ہو چکا یا نہیں، اور غروب آفتاب کا اطمینان کر لینے کے بعد ہی افطار کریں۔ اگر آپ کو بتایا جاتا ہے کہ سورج غروب ہوچکا ہے تو آپ روزہ افطار کرسکتے ہیں۔اگر آپ کا ہوائی سفر اس نوعیت کا ہے کہ آپ مختلف ٹائم زونز میں 24 گھنٹوں کے دوران بھی سورج کو غروب ہوتا نہیں دیکھ سکتے تو اس صورت میں روزے کے اوسط دورانیے کا حساب لگائیں اور اس کے مطابق افطار کریں، یا مکہ کے وقت افطار ، اور یا اپنی قریب ترین جگہ پر غروب آفتاب کے وقت کے مطابق افطارکریں۔
روزے کے دوران ہمارے جسم پر کیا گزرتی ہے اس حوالے سے کچھ دلچسپ معلومات ہمیں پیارے دوست نے واٹس ایپ کی تھیں، موضوع کے لحاظ سے سوچا کہ آپ لوگوں کو بھی بتادی جائے۔۔پہلے دو روزوں کے دوران پہلے ہی دن بلڈ شگر لیول گرتا ہے یعنی خون سے چینی کے مضر اثرات کا درجہ کم ہو جاتا ہے۔ دل کی دھڑکن سست ہو جاتی ہے اور خون کا دباؤ کم ہو جاتا یعنی بی پی گر جاتا ہے۔اعصاب جمع شدہ
گلا کوجن کو آزاد کر دیتے ہیں جس کی وجہ جسمانی کمزوری کا احساس اجاگر ہو جاتا ہے۔ زہریلے مادوں کی صفائی کے پہلے مرحلہ میں سر درد۔ چکر آنا۔ منہ کا بد بودار ہونا اور زبان پر موادجمع ہونے کی شکایات رہتی ہیں۔۔تیسرے سے ساتویں روزے کے دوران۔۔جسم کی چربی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے اور پہلے مرحلہ میں گلوکوز میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کی جلد ملائم اور چکنی ہو جاتی ہے۔ جسم بھوک کا عادی ہونا شروع کرتا ہے اور اس طرح سال بھر مصروف رہنے والا نظام ہاضمہ رخصت مناتا ہے جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔ خون کے سفید جرثومے اور قوت مدافعت میں اضافہ شروع ہو جا تا ہے۔ ہو سکتا ہے روزے دار کے پھیپڑوں میں معمولی تکلیف ہو اس لیے کہ زہریلے مادوں کی صفائی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ انتڑیوں اور کولون کی مرمت کا کام شروع ہو جاتا ہے۔ انتڑیوں کی دیواروں پر جمع مواد ڈھیلا ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔
آٹھویں سے پندرھویں روزے میں آپ پہلے سے توانا محسوس کرتے ہیں۔ دماغی طور پر چست اور ہلکا محسوس کرتے ہیں۔ہو سکتا ہے پرانی چوٹ اور زخم محسوس ہو نا شروع ہوں۔ اس لیے کہ اب آپ کا جسم اپنے دفاع کے لیے پہلے سے زیادہ فعال اور مضبوط ہو چکا ہے۔ جسم اپنے مردہ یا کینسر شدہ سیل کو کھانا شروع کر دیتا ہے جسے عمومی حالات میں کیموتھراپی کے ساتھ مارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے خلیات سے پرانی تکالیف اور درد کا احساس نسبتا بڑھ جاتا ہے۔اعصاب اور ٹانگوں میں تناؤ اس عمل کا قدرتی نتیجہ ہوتا ہے۔ یہ قوت مدافعت کے جاری عمل کی نشانی ہے۔روزانہ نمک کے غرارے اعصابی اکڑاؤکا بہترین علاج ہے۔سولھویں سے تیسویں روزے تک جسم پوری طرح بھوک اور پیاس کو برداشت کا عادی ہو چکا ہے۔ آپ اپنے آپ کو چست۔ چاک و چو بند محسوس کرتے ہیں۔ان دنوں آپ کی زبان بالکل صاف اور سرخی مائل ہو جاتی ہے۔ سانس میں بھی تازگی آجاتی ہے۔ جسم کے سارے زہریلے مادوں کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ نظام ہاضمہ کی مرمت ہو چکی ہے۔ جسم سے فالتو چربی اور فاسد مادوں کا اخراج ہو چکا ہے۔بدن اپنی پوری طاقت کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ بیس روزوں کے بعد دماغ اور یاد داشت تیز ہو جاتے ہے۔ توجہ اور سوچ کو مرکوز کرنے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔ بدن اور روح تیسرے عشرے کی برکات کو بھر پور انداز سے ادا کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔بازار یا کاروبار کھولنے کا مطلب بالکل یہ نہیں ہے کہ کرونا وباء سے نجات مل گئی ۔ان کا کھلنا ضروری ہے معیشت کے معمولات چلانے کے لیے اور اب ہمیں پہلے سے زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے، برائے مہربانی تمام احتیاطی تدابیرجاری رکھیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔