تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،ایک امریکی سائنسدان اور مصنف ڈاکٹر رابرٹ جے ڈیوس نے کہا ہے کہ وزن کم کرنے کی امید پر روزانہ ورزش یا جسمانی مشقت کرنے والے لوگ جھوٹی امید کا شکار ہیں۔اپنی حالیہ کتاب ’’سرپرائزڈ لائیز: ہاؤ متھس اباؤٹ ویٹ لاس آر کیپنگ اس فیٹ‘‘ (حیرت انگیز جھوٹ: وزن میں کمی کی من گھڑت کہانیاں کیسے ہمیں موٹا کررہی ہیں؟) میں انہوں نے اس موضوع پر کئی پہلوؤں سے روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ وزن اور موٹاپا کم کرنے کے لئے ہمیں درست طور پر کیا کرنا چاہیے؟۔اس کتاب میں انہوں نے وزن اور موٹاپے میں کمی سے متعلق درجنوں سائنسی تحقیقات کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر 150 پونڈ (68 کلوگرام) وزنی کوئی شخص ہفتے میں 5 دن، روزانہ 30 منٹ تک تیز قدموں سے پیدل چلے تو اس کی صرف 140 کیلوریز جلیں گی۔اتنی کیلوریز سافٹ ڈرنک کی ایک چھوٹی بوتل میں ہوتی ہیں لہٰذا اتنی کم مقدار میں کیلوریز جلنے سے اس کے وزن پر معمولی سا فرق بھی نہیں پڑتا۔اس کے علاوہ، آرام کے دو دنوں میں وہ خوب کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا وزن کم ہونے کے بجائے بڑھ جاتا ہے۔ورزش سے موٹاپے میں کمی سے متعلق کی گئی تفصیلی تحقیقات کے نتائج بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر رابرٹ نے لکھا ہے کہ صرف معمولی ورزش کی بنیاد پر وزن میں کمی نہیں آتی جبکہ ڈائٹنگ بھی خاطر خواہ نتائج نہیں دیتی۔البتہ روزانہ 90 منٹ تک تیز قدموں سے پیدل چل کر یا 30 منٹ تک تیز دوڑ کر یومیہ بنیادوں پر 400 سے 500 کیلوریز جلائی جاسکتی ہیں جو وزن میں معمولی کمی کا باعث بنتی ہیں۔اگر اس کے ساتھ درست انداز میں ڈائٹنگ کا معمول بھی بنا لیا جائے تو چھ مہینے سے سال بھر میں وزن خاصا کم کیا جاسکتا ہے۔اپنی کتاب میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ زیادہ وزن والے اکثر لوگ کھانے پینے اور آرام کے شوقین ہوتے ہیں لہٰذا وہ ڈائٹنگ اور ورزش/ جسمانی مشقت کو اپنے لیے سزا سمجھتے ہیں۔۔ اور جب انہیں اپنی کوششوں کے جلدی اور بہتر نتائج نہیں ملتے تو وہ مایوسی کا شکار ہو کر انہیں ترک کردیتے ہیں۔ڈاکٹر رابرٹ نے خبردار کیا ہے کہ اگر آپ ورزش کررہے ہیں لیکن کم کیلوریز والی صحت بخش غذا استعمال نہیں کررہے تو وزن میں کمی کی امید رکھنا فضول ہے۔تاہم اگر آپ روزانہ اچھی ورزش اور صحت بخش غذا کی صحیح مقدار بھی استعمال کررہے ہیں تو چھ ماہ یا ایک سال بعد آپ اپنے وزن میں چند کلوگرام کمی کی توقع رکھ سکتے ہیں۔
ایک طرف تو آپ نے یہ نئی تحقیق پڑھ لی کہ ڈائٹنگ اور ایکسرسائز کا کوئی فائدہ نہیں ، موٹا انسان موٹا ہی رہتا ہے۔۔ فرق آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں پڑتا۔۔ ہمیں کبھی ڈائٹنگ کی ضرورت ہی نہیں پڑی، گزشتہ ہفتے تیز بخار تھا، بخار کی حالت میں عام طور پر انسان کا کھانا پینا بند ہوجاتا ہے کیوں کہ کسی چیز کا دل نہیں چاہتا لیکن ہماری بھوک میں کوئی کمی نہیں آئی، ہم نے روٹین سے زیادہ خوراک کھائی جس کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس جانے بناہی بخار ایسے ہوا ہوگیا جیسے غریب پاکستانیوں کا سکون اور چین ان دنوں ہوا ہوچکا ہے۔امریکا سے ہی ایک اور تحقیق پڑھ لیں۔۔امریکی سائنسدانوں نے چار ہزار سے زائد نوزائیدہ بچوں پر سات سالہ تحقیق کے بعد دریافت کیا ہے کہ اپنی زندگی کے پہلے 12 مہینوں میں باقاعدگی سے پھلوں کا رس پینے والے بچے، بعد کی عمر میں موٹاپے کا شکار ہوجاتے ہیں۔اس تحقیق میں امریکا کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اور دوسرے طبّی اداروں کے ماہرین نے بچوں کی ماؤں سے سوال جواب کیے اور سروے فارمز بھرائے، جن کا تعلق ان کے بچوں کی روزمرہ غذاؤں سے تھا۔اگرچہ بچوں کی غذا اور صحت کے حوالے سے ’امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس‘ کی واضح ہدایات ہیں کہ جب تک کسی بچے کی عمر ایک سال نہ ہوجائے، تب تک اسے پھلوں کا رس (فروٹ جوس) نہ پلایا جائے کیونکہ اس میں صرف مٹھاس ہوتی ہے جبکہ دوسرے اہم غذائی اجزا موجود نہیں ہوتے۔ ان ہدایات کے باوجود، اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ تقریباً 25 فیصد خواتین نے اپنے بچوں کو پیدائش کے پہلے 6 ماہ میں ہی پھلوں کا رس پلانا شروع کردیا تھا، 49 فیصد نے یہ استعمال 7 سے 12 ماہ کی عمر میں شروع کیا جبکہ صرف 26 فیصد خواتین نے بچوں کی عمر ایک سال (12 ماہ) ہوجانے کے بعد انہیں پھلوں کا رس پلانا شروع کیا تھا۔سات سالہ تحقیق کے بعد معلوم ہوا کہ جن بچوں نے ایک سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی پھلوں کے رس کا استعمال شروع کردیا تھا، وہ اپنی عمر کے آئندہ برسوں میں نہ صرف زیادہ شکر کے عادی ہوگئے تھے بلکہ ان میں موٹاپے کے آثار بھی نمودار ہونے لگے تھے۔بہت چھوٹی عمر میں پھلوں کے رس اور دوسرے میٹھے مشروبات کے عادی ہوجانے والے بچوں میں پانی کا استعمال بھی خاصا کم دیکھا گیا، جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ پانی کو ’بے ذائقہ‘ ہونے کی وجہ سے زیادہ پینا پسند نہیں کرتے اور اس کی جگہ فروٹ جوس، میٹھے مشروبات اور دیگر سافٹ ڈرنکس کو ترجیح دینے لگتے ہیں جن میں بہت زیادہ مٹھاس ہوتی ہے۔ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ ایک سال سے کم عمر بچوں کو پھلوں کے رس اور میٹھے مشروبات کا عادی بنانا ان کی آئندہ صحت کیلیے خطرناک ہے کیونکہ زیادہ میٹھا استعمال کرنے کی یہی عادت انہیں بہت جلد موٹاپے میں مبتلا کرسکتی ہے جبکہ موٹاپا بذاتِ خود کئی خطرناک اور جان لیوا بیماریوں کی جڑ ہے۔
مردوں کا شریک حیات سے بے وفائی کرنا بہت قبیح عمل ہے مگر اب سائنسدانوں نے نئی تحقیق میں حیران کن طور پر کچھ مردوں کو بے وفائی میں بے قصور قرار دیتے ہوئے ایسا انکشاف کر دیا ہے کہ سن کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔ تحقیقاتی نتائج میں بتایا گیاہے کہ کچھ مردوں میں بے وفائی کی’’ خو‘‘ جینیاتی طور پر ہوتی ہے، جس پر ان کا بس نہیں چلتا۔ یہ وہ مرد ہوتے ہیں جن میں مردانہ جنسی ہارمون ٹیسٹاسٹرون کا لیول زیادہ ہوتا ہے۔ جن مردوں میں یہ لیول زیادہ ہو، ان کے بے وفائی کرنے کے امکانات دوسرے مردوں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن، یونیورسٹی آف مانچسٹر اور نیشنل سنٹر فار سوشل ریسرچ کے تحقیق کاروں نے اس تحقیق میں 4ہزار سے زائد مردوں میں ٹیسٹاسٹرون لیول کا جائزہ لیا، اور ان سے بے وفائی کے متعلق سوالات پوچھے۔ نتائج میں سائنسدانوں نے بتایا کہ جن مردوں نے ایک سے زائد جنسی پارٹنر رکھنے کا اعتراف کیا تھا ان میں ٹیسٹاسٹرون کا لیول دیگر کی نسبت پایا گیا۔ ایسے مردوں کے چہرے پر کیل مہاسے زیادہ نکلتے ہیں، بلڈپریشر قدرے زیادہ رہتا ہے، جسم پر بال زیادہ ہوتے ہیں، ان کا مزاج بدلتا رہتا ہے، ان میں ذہنی پریشانی، ڈپریشن اور چڑچڑے پن کی علامات ہو سکتی ہیں،ایسے مرد نیند سے متعلق عارضے Sleep Apneaکا شکار بھی ہو سکتے ہیں، ایسے مردوں میں سانس، دل اور بلڈپریشر کی بیماریاں بھی زیادہ ہوتی ہیں۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔دنیا کے امیر ترین انسان بل گیٹس کا کہنا ہے۔۔ان لوگوں کیلئے کامیاب بنو ،جو تمہیں ناکام دیکھنا چاہتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔