mosamiyati tabdeeli par mulk mein emergency ka mutalba

موسمیاتی تبدیلی پر ملک میں ایمرجنسی  کا مطالبہ۔۔

کراچی پریس کلب کی اسکلز ڈویلپمنٹ کمیٹی اور گلوبل اویرنس اینڈ امپاورمنٹ نیٹ ورک کے اشتراک سے ” بڑھتی ہوئی آبادی کے موسمیاتی تبدیلی پر اثرات کے عنوان پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔سیمینار سے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز ، سیکریٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد ، محکمہ سماجی بہبود کی ڈائریکٹر سعیدہ شیخ، سماجی رہنما مہناز رحمان، کلائمنٹ ایکشن سینٹر کے سربراہ یاسر حسین،ماہر ماحولیات نعیم قریشی اور سیکریٹری اسکلز ڈویلپمنٹ کمیٹی ثاقب صغیر نے اظہار خیال کیا۔سیمینار کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آبادی کی شرح زیادہ ہونے کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کی صورتحال مزید خراب تر ہو رہی ہے ۔ ملک میں موسمیاتی تبدیلی پر ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔اس حوالے سے حکومت، نجی اداروں کے ساتھ ساتھ علما کرام کو بھی اپنا ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔پروگرام کے مہمان خصوصی چیف میٹرولوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفرازنے کہا کہ ملک میں گرمی کی شدت میں اضافے کی وجہ درختوں کی کٹائی اور بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ 1850 سے موسمیاتی اعداد و شمار ریکارڈ ہور ہے ہیں اور 150 سال میں 1.5ڈگری اضافہ ہوا ہے اور اس میں مزید اضافے کا خدشہ ہے، جس کی وجہ سے جہاں زیادہ برف پڑتی تھی وہ کم ہوئی ہے بارش کا نظام ڈسٹرب ہوا ہے۔ زمین کو موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی موسمی تغیرات کی سے بڑی وجہ ہے۔ پاکستان 2000 سے 2019 میں رسک کے حامل ممالک میں 8ویں نمبر پر تھا اور پچھلے 4سال کا ڈیٹا لیا جائے توپاکستان پوزیشن تیسری یا چوتھی پر پہنچ جائے گا۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے ملک میں گرمی کی شد ت میں اضافہ ،ہیٹ ویوز ،شدید بارشیں اور سیلاب سے تباہ کاریاں ہورہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ساری دنیا کے مقابلے میں کراچی کو ایئر کوالٹی کا سنگین مسئلہ درپیش ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ فوسل فیول کا استعمال ہے ۔ فوسل فیول کے استعمال سے گوبل وارمنگ میں اضافہ ہوتا ہے ۔ان فوسل فیولز کو جلانے سے گرین ہاوس گیسیں خارج ہوتی ہیں ۔گرمی کی شت میں کمی کیلئے درخت لگانے ہونگے۔ گھروں کی تعمیر ات ایسے کرنی ہوگی جہاں سے ہوا کا گزر ہو۔سیکریٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی طاقتیں اور جدید ترقی یافتہ ممالک موسمیاتی تغیرات کے ذمہ دار ہیں، لیکن عالمی قوتیں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کے بجائے تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی کا ذمہ دار قرار دینے میں مصروف ہیں۔ بڑھتا ہوا صنعتی اور تعمیراتی انقلاب موسمیاتی و ماحولیاتی تبدیلی کا باعث بن رہا ہے، عالمی طاقتوں کے دوہرے رویے پر تیسری دنیا کے ممالک کو اپنی بقا کے لئے مشترکہ جدوجہد کرنا ہوفی، انہوں نے کہا کہ حکومتی سطح پر انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اس اہم مسئلے پر کام کرنے کی ضرورت ہے، آلودگی کو کم سے کم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر شجر کاری کے ذریعے قدرتی ماحول میں اضافہ کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں آنے والے گزشتہ سالوں آنے والا سیلاب بھی اسی موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ تھا ۔دنیا کو اس سنگین چیلنج سے نمٹنے کے لیے مشترکہ حکمت عملی اپنانا ہوگی بصورت دیگر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے اس دنیا کے لیے انتہائی بھیانک ثابت ہوسکتے ہی ۔ شعیب احمد نے کہا کہ کراچی پریس کلب میں صحافیوں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے اور آگاہی کے لئے ٹریننگ ورکشاپس اور سیمینارز کا تسلسل سے انعقاد خوش آئند ہے، سیکریٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد نے جی اے ای این کی رباب ابراہیم، کلثوم جہاں، میمونہ صدیقی اور اسکلز ڈویلپمنٹ کمیٹی کے سربراہ ثاقب صغیر کی کاوشوں کا سراہا۔محکمہ سماجی بہبود کی ڈائریکٹر سعیدہ شیخ نے ملک کی آبادی کے حوالے اعداد و شمار پیش کیے اور بتایا کہ پاکستان شرح پیدائش، شرح اموات اور ہجرت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ آبادی کے بڑھنے سے موسمیاتی تبدیلی پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں جس سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہورہی ہیں اور خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے حالات ناساز گار ہیں۔کلائمیٹ ایکشن سینٹر کے سربراہ یاسر حسین نے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے اثرات پر تفصیلی بات کی اور خبردار کیا کہ کراچی میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچنے کے امکانات ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے درجہ حرارت یا دیگر مسائل کی پیش گوئی بھی بروقت نہیں ہوسکتی اور یہ ایک خطرناک پہلو ہے۔انہوں نے عالمی ماہرین موسمیات کے کارکنوں کی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ چیزیں جلانا بند کریں۔ ہمیں کوئلے کا استعمال کم کردیا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ پلانٹیشن مہم پر کام کرنیکی ضرورت ہے۔ماہر ماحولیات محمد نعیم قریشی نے کراچی کے ایئرکوالٹی انڈیکس پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ کراچی میں پرانا زرعی علاقہ ختم ہوگیا ہے اور ملیر میں سبزیوں اور دیگر پیداوار ناپید ہوگئی ہے۔ پنجاب کے 26 فیصد زرعی رقبے پر تعمیرات ہوئی ہیں اور یہ صورت حال رہی تو فوڈ سیکیورٹی کا مسئلہ ہوگا اور زرعی رقبہ ختم ہوجائے گا لہذا گراس روٹ لیول پر کام کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ آبادی میں بے ربط اضافہ ہورہا ہے، جس کے لیے ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی، اس حوالے سے اساتذہ، علمائے کرام، مدارس اور دیگر لوگوں کو کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پر ایمرجینسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے، کراچی کے حالات زیادہ گھمبیر ہیں یہاں مسائل کے مطابق وسائل نہیں ہیں ان مسائل سے نمٹنے کے لیے ہمیں حل کی طرف جانا پڑے گا۔مہناز رحمن نے کہا کہ استحصالی نظام کی حوصلہ شکنی کرکے عوام دوست پالیسیاں بنانا ہوں گی اور عوامی مسائل حل کرنے کے لیے آواز اٹھائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ استحصالی طبقے کو جھنجھوڑنا ہوگا، ورنہ مسائل میں مزید اضافہ ہوگا۔سیمینار کے اختتام پر سیکریٹری کراچی پریس کلب شعیب احمد ، سیکریٹری اسکلز ڈویلپمنٹ کمیٹی ثاقب صغیر اور ممبر گورننگ باڈی مونا صدیقی نے محکمہ سماجی بہبود کی ڈائریکٹر سعیدہ شیخ، کلائمنٹ ایکشن سینٹر کے سربراہ یاسر حسین ،چیف میٹرو لوجسٹ ڈاکٹر سردار سرفراز،ماہرماحولیات نعیم قریشی اورسماجی کارکن مہناز رحمن کو شیلڈز پیش کی اور اجرک پہنائی۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں