تحریر: خرم علی عمران
ابے یار میں تیرا پرانا بچپن کا دوست عینکو گجراتی،ابے بھولا تو نہیں نا، یار دیکھ نا ، بچوں کو دلی گھمانے لایا تھا، تو بچے بولے کہ مودی چاچا سے بھی ملیں گے، یار انہیں میں نے وہ سارے واقعات بتائے ہوئے ہیں نا کہ کیسے میں اور تو بچپن میں سیٹھ کے گلے میں سے پیسے مار کر پکچر دیکھنے جاتے تھے، کیسے تو لوگوں سے ملنے والی ٹپ بچا کر پہلی دھار کی لاتا تھا جو اپن نالے میں بیٹھ کر پیتے تھے،،اور بھی کئی باتیں ،مگر میرے متر ،یہ سالے بچے فلمیں دیکھ دیکھ کر بہت ہوشیار ہوگئے ، بولتے تھے کہ یہ تو آپ شاہ رخ خان اور عرفان خان کی فلم بلو باربر کی کہانی سناتے ہو،، اگر موذی ،” ابے یاد نہیں تجھے ہم سارے،میں بالو لنگڑا اور پتاوا چرسی سب تجھے چڑانے کے لئے موذی موذی کہتے تھے،پر کیا پتہ تھا کہ یہ سچ ہو جائے گا ” چاچا تمھارے دوست ہیں تو فون کر کے بات کرو، یار تیرا نمبر تو جب ہی بدل گیا تھا جب تو مکھ منتری بنا تھا، اور اب تو پردھان منتری ہے،تو مجھے تو نمبر ملا ہی نہیں ،میں مکھ منتری ہاؤس گجرات بھی ایک دفعہ تیری بھابی اور بچوں کو ملانے لایا تھا مگر سالے وہ گیٹ والے میری بات سن کر ہنسنے لگے کہ میں تیرا متر ہوں،،اور بھگا دیا،، بچے تو خیر تب چھوٹے تھے،پر اب بڑے ہوگئے ہیں نا،تو کہتے تھے کہ چاچا سے ملا کر لا باپو! خیر دلی آیا تھا پر مجھے تو گیٹ سے ہی پھر بھگا دیا،،میں نے کہا بھی کہ ارے تم لوگ ایک دفعہ جاکر بتا تو دو کہ عینکو گجراتی چائے والا آیا ہے تو پردھان منتری خود دوڑا آئے گا،پر کہاں بھیا
! ایک پھوجی تو میرا منہ سونگھنے لگا کہ میں پی کے تو نہیں ہوں۔ کیا کرتے پھر آگئے بھیا ٹاپو ٹاپ واپس۔
پھر چاچا شانے نے کہا کہ ابے تو خط لکھ مودی کو مل جائے گا،، ابے،چاچا یاد ہے،ارے وہی جس نے کئی بار اپن دونوں کی پٹائی لگائی تھی جب ہم اسے ٹن ملا کرتے تھے،اب تو بہت بڈھا ہوگیا بے چارہ،، ہاں تو یہ خط میں اسی کے کہنے پر لکھ ریا بلکہ لکھواریا ہوں۔اب یار دیکھ جواب دے دیو ورنہ بے عجتی کھراب ہوجاوے گی۔ اور سنا ہے کہ بڑا فنٹر ہو گیا ہے تو،ہیں! مسلوں کا جینا کھوب حرام کیئے دے ریا ہے، ہاں ہاں بے،ٹھیک کر ریا ہے ، بہت تنگ کرے ہیں یہ مسلے،ابے جب پاکستان بنا لیا تو جاؤ وہاں،ہیاں کیا کر رہے ہو، اب یہ کشمیریوں کو دیکھوپرانی سرکار نے کتنی ساری سہولتیں اور فائدے دیئے ہیں پر مانتے ہی نہیں آجادی آجادی کی رٹ لگاوے ہیں، ٹھیک کر ریا ہے متر میرے اور مار، اتنا مار کہ کشمیر میں مسلے کم سے کم ہوجائیں، پھر اپن اقوام متحدہ کے مطابق ریفرینڈم کروا دیں گے اور جیت جائیں گے ،ہا ہا ہا، منے معلوم ہے کہ تو یہی سوچے بیٹھا ہے نا ،ابے آخر لنگوٹیا یار ہوں تیرا! لگا رہے مودی بھائی۔۔
اچھا سن،یار وہ ایک کام بھی ہے تجھ سے،دیکھ کر دیو،منع نہ سنو گا میں، ابے وہ تیرا بھتیجا ہے نا انند لال،ابے میرا منجھلا بیٹا، وہ اتاؤلا ہوریا ہے بڑے دن سے،کہتا ہے امریکا جاؤں گا ،ڈالر کماؤں گا،ابے بڑا سمجھایا کہ اب ڈالر کا زمانہ ختم ہورہا ہے،چائنا چلا جا،پر وہ مانتا ہی نہیں،ٹھرکی ہے سالا بہت،لگتا ہے چاچا پر چلا گیا،،ہا ہا! اچھا سن یار اسکا ویزہ تو لگوادے امریکا کے صدر کو بول کر،تیری نہیں ٹالے گا وہ،آخر جگری ہے تیرا میں نے سنا ہے، تو نے خوب بھنگ والی چائے پلائی ہے بنا بنا کر اپنے ہاتھوں ،ہیں نا۔دیکھ جھوٹ مت بولیو، پلائی ہے نا! چل پھر یہ خط پتر ملتے میرا کام کردیو،اور ہاں بلا بھی لے ایک بار دلی ہم بھی تو دیکھیں سالے کیسے ٹھاٹھ باٹ سے رہتا ہے تو! ابے یار ہیں تیرے خوش ہی ہونگے نا تیری ترقی پر۔۔ چل ابھی وہ نارائن کا لونڈا کہہ رہا ہے کہ تاؤ! تھک گیا ہوں،ابے اسے سے یہ پتر لکھواریا ہوں نا، ابھی کھتم کرتا ہوں، اپنا خیال رکھیو،ابھی بڑے ڈنک مارنے ہیں تجھے مسلوں کو، جے ہند۔۔تیرا متر عینک لال گجراتی۔۔( خرم علی عمران)