بھٹو ہو یا بے نظیر، نواز شریف ہو یا یوسف رضا گیلانی سب کے ٹرائل اوپن عدالتوں میں ہوئے، عمران خان کا ٹرائل جیل میں کیوں؟نواز شریف کیخلاف فیصلہ سنانے والے باقی می لارڈز کی اندرونی کہانیاں بھی اس وقت انٹیلی جنس بیورو اور شریف خاندان کے پاس محفوظ ہیں۔ آج جو کچھ کھلاڑی خان کے ساتھ ہو رہا ہے اس پر بھی انصاف کے ایوانوں کے کردار کے حوالے سے نت نئے سوالات اُٹھ رہے ہیں ۔سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے اہم تفصیلات شیئر کر دیں ۔اپنے تازہ کالم میں سینئر صحافی سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ ۔۔جسٹس منیر کے بدنام زمانہ مولوی تمیز الدین کیس میں فیصلے کے بعد بھٹو پھانسی کیس نے تو اس بات پر مہر تصدیق ثابت کر دی کہ می لارڈز میں اگر غصہ، تعصب، حسد اور لالچ آ جائے تو وہ کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔سب کو علم ہے کہ جسٹس مولوی مشتاق کا بھٹو سے ذاتی عناد تھا کہ اسلم ریاض حسین کو کیوں چیف جسٹس بنایا اور ہم نے قدرت کا انتقام بھی دیکھا کہ مولوی مشتاق کے جنازے پر شہد کی مکھیوں نے حملہ کر دیا۔ اہل جنازہ میت کو چھوڑ کر بھاگ گئے، مولوی صاحب کی میت بیچاری اکیلی پڑی رہ گئی۔ہماری روایت میں ہے کہ اسی دنیا میں بھی اعمال کا حساب دینا پڑ جاتا ہے۔ مولوی مشتاق کے ساتھ بھی شاید ایسا ہی ہوا۔جسٹس انوارالحق اور انکے ساتھی ججوں کی اکثریت بھی بھٹو صاحب سے اختلاف رکھتی تھی، کچھ خوف اور دباؤ کا شکار تھے، اسی لئے بھٹو کے خلاف فیصلہ دیا۔ سہیل وڑائچ نے مزید لکھا کہ آج کل ذوالفقار علی بھٹو کیس دوبارہ ری اوپن ہوا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ آج کی عدالت ماضی کے اس جوڈیشل مرڈر کی سیاہ تاریخ کیسے درست کرتی ہے۔صرف بھٹو کیس ہی نہیں یہ بھی ثابت ہو چکا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف فیصلہ بھی سیف الرحمٰن اور نواز شریف کے دباؤ پر سنایا گیا تھا، یہی وجہ ہے کہ جسٹس قیوم اور جسٹس راشد عزیز کو مستعفی ہونا پڑا تھا، قدرت کا عجیب دستور دیکھیں کہ جسٹس قیوم نے ہی بینظیر کے خلاف فیصلہ سنایا اور بعد میں جب وہ مشرف دور میں اٹارنی جنرل بنے تو انہوں نےہی سوئس حکام کو خط لکھ کر بے نظیر بھٹو اور زرداری کے خلاف مقدمات ختم کرنے کو کہا۔ سہیل وڑائچ نے لکھا کہ آج کل عدلیہ کی ایک اور ناانصافی یعنی نواز شریف کے خلاف فیصلے بھی زیر بحث ہیں۔حال ہی میں نواز شریف نے جے آئی ٹی کے مجوزہ نام، وٹس ایپ کروانے والے جج شیخ عظمت سعید کا نام لیا ہے اور کہا ہے کہ انہوں نے گریڈ 19 کی ایک خاتون کی پروموشن کی سفارش کی جب ان کا کام نہ ہو سکا تو انہوں نے ایک مقدمے میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ اڈیالہ جیل کی ایک کوٹھڑی وزیر اعظم کیلئے خالی ہے۔میرے پاس ایک معتبر ذریعہ کا دیا گیا وہ ڈاکومینٹ بھی موجود ہے جس میں انہی جج صاحب کے حمزہ شہباز کے خلاف ریمارکس درج ہیں، یہ اس دور کی بات ہے جب جنرل مشرف کے دور میں یہ جج صاحب نیب کیلئے کام کرتے تھے۔اس ڈاکومینٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ می لارڈز پہلے ہی سے شریف خاندان کے نہ صرف خلاف تھے بلکہ ان کے اس اختلاف کے باقاعدہ ثبوت موجود ہیں۔۔اایک اور می لارڈ جو سپریم کورٹ کے بینچ میں شامل تھے انکے بڑے بھائی اتفاق گروپ میں ملازم تھے مگر وہاں سے نکال دیئے گئے اس وجہ سے یہ جج صاحب اور انکا خاندان شریف فیملی کے مخالف ہوگئے تھے، اسی می لارڈ کے بھائی ایک بار جدہ میں حسین نواز کی اسٹیل ملز کا خفیہ دورہ کرتے ہوئے پکڑے گئے اور وہاں موقع پر ہی حسین نواز شریف نے انہیں پہچان کر انکی کلاس لی۔نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنانے والے باقی می لارڈز کی اندرونی کہانیاں بھی اس وقت انٹیلی جنس بیورو اور شریف خاندان کے پاس محفوظ ہیں، ان کا ذکر پھر کبھی سہی۔ انہوں نے کالم کے آخر میں لکھا ہے کہ آئندہ الیکشن میں پی ٹی آئی کا کیا کردار ہوگا، اس حوالے سے مکمل ابہام پایا جاتا ہے اسے واضح کیوں نہیں کیا جا رہا؟ملک کی سب سے بڑی پارٹی جس کی پچھلی حکومت میں اکثریت تھی اور 2018ء میں وہ جیتی تھی اگر اسے الیکشن میں موقع نہیں دیا جاتا تو وہ الیکشن معتبر کیسے ہونگے۔ اس حوالے سے انصاف کے ایوانوں سے کوئی بڑا فیصلہ کیوں نہیں آ رہا کہیں ایسا تو نہیں کہ آج کی عدلیہ ماضی کے غلط فیصلوں کو تو ٹھیک کر رہی ہے مگر آج پھر غلط فیصلے کر رہی ہے، جنہیں مستقبل میں ٹھیک کرنے کے لئے پھر کسی نئے مسیحا کا آنا ضروری ہو گا۔ تاریخ کے کٹہرے میں ماضی کے می لارڈز غلط ٹھہرے اور بھٹو، بے نظیر اور نواز شریف ٹھیک ثابت ہوئے۔ یہ نہ ہو کہ آنیوالے دنوں میں آج کے می لارڈز غلط ثابت ہوں اور عمران خان درست۔۔
می لارڈز کی اندرونی کہانیاں شریف خاندان کے پاس محفوظ۔۔
Facebook Comments