تحریر: سید بدرسعید
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم صراط مستقیم کے نام پر شروع کرنے والا سفر غلط ٹریک اور غلط سمت میں کرتے ہیں ۔ میڈیا جس بحران کا شکار ہے اس کا ملبہ حکومت پر ڈالا جا رہا ہے ۔ کہا جا رہا ہے کہ حکومت اشتہارات نہیں دے رہی یا کم اشتہار دے رہی ہے لہذا میڈیا مالکان مجبورا ورکرز کو نکال رہے ہیں ، تنخواہوں میں کٹوتیاں کر رہے ہیں اور سٹاف میں کمی کر رہے ہیں ۔ میرے خیال میں سو فیصد ایسا قطعا نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسا کبھی نہیں ہوا میڈیا کو سرکاری اشتہارات کی پیمنٹ اگلے ہی روز ہو جائے ۔ عموما اشتہارات چھپنے کے دو تین ماہ بعد پیمنٹ ملتی ہے ، بعض اوقات زیادہ رقم ہونے کی وجہ سے بجٹ ملنے کا بھی انتظار کیا جاتا ہے چونکہ اشتہارات مسلسل ہوتے ہیں اس لئے ایک سرکل چلتا رہتا ہے ۔ نئی حکومت کو ابھی بمشکل تین ماہ ہو رہے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ ابھی تو میڈیا مالکان پچھلے دور حکومت کے اشتہارات کی قیمت ہی وصول کر رہے ہیں۔ دوسری جانب حکومتیں تو ماضی میں بھی اشتہارات پر پابندی لگاتی رہی ہیں لیکن میڈیا زندہ رہا ہے ۔ الیکشن کمپین کے علاوہ ٹی وی چینلز پر کتنے سرکاری اشتہارات چلا کرتے تھے ؟ ملٹی نیشنل کمپنیز اور برانڈز کے زمانے میں میڈیا سرکاری اشتہارات کی بلیک میلنگ سے نکلتا جا رہا ہے ۔ سرکاری اشتہارات میں تو بجٹ کی کمی، منظوری اور دیگر معاملات کی وجہ سے پیمنٹ ملنے میں تاخیر ہو جاتی ہے لیکن برانڈز کا چیک وقت پر کیش ہوتا ہے ۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ میڈیا انڈسٹری کے اس مصنوعی بحران سے قبل میڈیا مالکان کی تنظیم کی میٹنگ ہوئی تھی جس میں تنخواہوں کی کٹوتی سمیت بہت سے معاملات طے کیے گئے تھے ۔
مجھے لگتا ہے یہ خود ساختہ بحران ہے ۔ اس میں حکومت اور مالکان برابر کے شریک ہیں ۔ اب جب یہ طے پا گیا کہ۔بحران خود ساختہ ہے اور لوگ نکالنے ہیں تو پھر جو برا لگے گا اسے تو سب سے پہلے نکالا جائے گا ، جس پر غصہ آئے گا اسے پہلے آف ائیر کر دیا جائے گا ۔ مفادات اب کہیں اور مل رہے ہیں ۔ وزیراطلاعات نے باقاعدہ بتایا تھا کہ۔اب اشتہارات انٹرٹینمنٹ کو ملیں گے ۔ نیوز کو نیچے لا کر فلم ، ڈرامہ وغیرہ کو اوپر لایا جائے گا ۔ اس کے بعد یہ ضروری تھا کہ نیوز چینل بند کر کے انٹرٹینمنٹ چینلز شروع کیے جائیں ۔ یہ بھی واضح تھا کہ کاپی رائیٹر ، رن ڈاؤن ، ایڈیٹر سمیت شعبہ نیوز کے زیادہ تر لوگ انٹرٹینمنٹ میں نہیں چل سکتے ۔ اگر چل بھی سکتے ہیں تو مالکان ایسا رسک نہیں لے سکتے ۔ چھوٹے نیوز چینلز کا تو طے ہے کہ وہ پروڈکشن کے بھاری اخراجات نہیں اٹھا سکتے لہذا وقت نیوز اچانک بند ہو گیا ۔ کہا جاتا ہے یہ بیچ دیا گیا ہے اور نئے مالکان کو ”نیٹ اینڈ کلین “‘ چینل چاہیے تھا تاکہ کچھ عرصہ بعد کسی ”رولے”‘ کے بنا نئی ٹیم کے ساتھ کام شروع ہو سکے ۔ کے این نے ایک ماہ ایڈوانس میں بتا دیا کہ صاحب اگلے مہینے سے ادارہ بند کر رہے ہیں ۔ کسی نے پرنٹنگ پریس بند کر دیا ، کسی نے بیورو آفسز بند کرنے شروع کر دیے ۔ خسارے کے نام پر ورکرز کی تنخواہیں کم کرنے والے ایک مالک نے ائیر لائن کا لائسنس حاصل کر لیا ہے ۔ نیوز کو اب سمیٹا جا رہا ہے کیونکہ یہی سرمایہ اب انٹرٹینمنٹ میں منتقل کیا جائے گا ۔ سکرینز پر اب گلیمر کی ریٹنگ کا مقابلہ چلے گا ۔ میڈیا کے مصنوعی بحران کی اس پلاننگ میں سبھی اسٹک ہولڈر ملوث ہیں ۔ ورنہ سوال اٹھانے کی۔اجازت ہو تو پوچھ لیا جائے کہ سرکاری اشتہارات کی بندش کو تسلیم کر لیتے ہیں لیکن اخبارات کے پہلے آدھے آدھے صفحے پر جاز کی لڑکی اور یوفون کا لڑکا لٹانے کے کری ایٹیو مقابلے اب کہاں گئے ؟ یہ تو نجی کمپنیاں تھیں ۔ ہاؤسنگ سوسایٹیز کے مہنگے ایڈیشنز میں کمی کیسے آ گئی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری جامعات سے آنے والے طلبا کو بھی عموما پروڈکشن سکھائی جاتی ہے ، نیوز روم کا تجربہ انہیں فیلڈ میں آنے کے بعد ہی ہوتا ہے ۔ ان ایک کروڑ بےروزگاروں کو اب آسانی سے ملازمت مل جائے گی لیکن اس سے پہلے ہمیں چار کروڑ لوگ بےروزگار کرنا ہوں گے ۔
مجھے نہیں لگتا کہ میڈیا حقیقی بحران کا شکار ہوا ہے بلکہ مجھے لگتا ہے میڈیا میں اب انٹرسٹ اور رقم کی ”منی لانڈرنگ” شروع کی گئی ہے ۔ سرمایہ اور دلچسپی شفٹ ہو رہی ہے جس کے لیے مصنوعی بحران ضروری تھا- کتنے خاندانوں کے گھر کا چولہا بجھتا ہے اس سے نہ۔مالکان کو فرق پڑتا ہے اور نہ حکومت کو۔ اشتہاری اداروں کی تو خیر سنی گئی ہے کیونکہ انٹرٹینمنٹ کے اشتہارات میں ان کی ماڈل اور ان کی مصنوعات ڈرامے کے اندر بھی دکھائی جاتی ہیں ، نیوز میں بس بنا بنایا روایتی اشتہار ہی چل سکتا تھا ۔ (سید بدر سعید )
(بدرسعید لاہور کے باخبرصحافی ہیں، ان کی تحریر یقینی طور پر ان کی سوفیصد پکی اطلاعات پر مبنی ہیں، لیکن ہماری ویب سائیٹ کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)۔۔۔