aik tabah saath | Imran Junior

مولویات۔۔

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو، آج جمعہ مبارک ہے، روزانہ نماز نہ پڑھنے والے بھی آج تیارشیار ہوکر شلوارقمیض پہنتے ہیں اور نمازجمعہ کے لیے لازمی مساجد کا رخ کرتے ہیں، ہر کوئی اپنی ڈیوٹی ٹائمنگ یا آسانی کے حساب سے نماز جمعہ کا اہتمام کرتا ہے۔۔کوئی ایک والی میں جمعہ پڑھتا ہے تو کوئی سوا ایک، کوئی ڈیڑھ تو کوئی پونے دو۔۔ غرض پورے ہفتے نمازوں سے دور رہنے والے کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ’’جمعہ‘‘ کسی طور نہ چھوڑے، اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ۔۔ تین جمعہ چھوڑنے والا کافر ہوجاتا ہے۔۔ والی بات ان کے دماغوں میں بے چینی مچاتی ہو، بہرحال جمعہ بغیر مولوی کے ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی تقریب میں کسی خاتون کو بغیر میک اپ کے دیکھ لیں۔۔ جمعہ اور مولوی لازم و ملزوم ہوتے ہیں۔۔ کیوں کہ جمعہ مولوی کے بغیر ہوہی نہیں سکتا۔۔ چنانچہ آج کچھ باتیں مولویوں کے بارے میں ہوجائیں۔۔ آج چونکہ جمعہ ہے اس لیے موقع بھی ہے اور دستور بھی ہے۔۔

جیب کترے کے ہاتھ میں تسبیح دیکھ کراس کے پرانے دوست نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔۔کیا اپنے پیشے سے تائب ہو گئے؟۔۔جیب کترا منہ بسورتے ہوئے کہنے لگا۔۔نہیں یار، ابھی ابھی غلطی سے ایک مولوی کی جیب میں ہاتھ پڑ گیا تھا۔۔۔امام صاحب نے جیسے ہی نماز ختم کرنے کے بعد دعا شروع کی تو پیچھے سے کسی دردمندمحب وطن پاکستانی کی آواز گونجی۔۔ مولوی صاحب ملکی معیشت کی بہتری کے لیے بھی دعا کردیجئے۔۔امام صاحب نے مسکراکر اپنی جیب سے پانچ ہزار کا نوٹ نکالا، اور کہا کہ معیشت سے یاد آیا کہ یہ پانچ ہزار کا نوٹ مسجد سے ملا ہے۔ جن صاحب کا ہو وہ نشانی بتاکر لے جائیں۔ ۔ چند لوگ کھڑے ہوئے تو امام صاحب نے انھیں واپس بیٹھ جانے کا اشارہ کیا۔ دعا کروائی۔ اور پھر کہا کہ یہ پانچ ہزار کا نوٹ میں گھر سے لے کر آیا ہوں سودا سلف لانے کے لیے۔اس نوٹ کے دعویدار خود کو سدھاریں، معیشت خودبخود ٹھیک ہوجائے گی۔۔وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ مولوی صاحبان بھی ’’باعلم‘‘ ہوتے جارہے ہیں، انہیں پتہ چل چکا ہے کہ زمانے کے ساتھ کیسے چلنا ہے۔۔ اب کمپیوٹرز اور موبائل فون کا دور ہے۔۔ چالیس،پچاس سال بعد اس دورمیں مزید ترقی ہوجائے گی، اس وقت نکاح کچھ اس طرح سے ہوا کریں گے۔۔مولوی پوچھے گا۔۔ کیا آپ اس بات پر تیار ہیں کہ اپنا فیس بک کا ا سٹیٹس سنگل سے میریڈ کر دیں۔۔دلہا کہے گا۔۔جی ہاں۔۔ مولوی پرجوش انداز میں بولے گا۔۔ مبارک ہو،مبارک ہو، مبارک ہو۔۔ایک مولوی صاحب عید پر سسرال گئے۔۔ساس نے مرغی پکا کر سامنے رکھ دی۔۔داماد صاحب نے ازراہ تکلف کہا کہ اس کی کیا ضرورت تھی۔ساس نے کہا، کوئی بات نہیں بیٹا ہم نے دس مرغیاں پالی ہوئی ہیں۔ہم یوں سمجھیں گے کہ ایک مرغی کو کُتا کھا گیا۔

مولوی صاحب کا دن بہت روکھا سوکھا گزرا تھا۔ مغرب کے بعد گھر آئے تو بیوی نے کھانا لا کر رکھا، مرغی کا سالن۔ ۔جلدی سے پوچھ بیٹھے، یہ کہاں سے آئی؟؟جواب ملا، کہیں سے چگتی چگتی ہمارے گھر آ گئی تھی۔ کمبخت نے میرے بہت سے پودے خراب کر دیے۔ میں نے بھی غصے میں چھری پھیر دی۔مولوی بولے ،نیک بخت یہ تو حرام ہے۔ پھینکو اسے۔۔بیوی بولی ،اے ہئے مصالحہ اور گھی تو ہمارا ہے۔ ایسے کیسے پھینک دوں۔۔مولوی بولے ،اچھا شوربہ شوربہ دے دو۔۔شوربہ نکالنے میں ایک ٹانگ پھسل کر مولوی صاحب کی پلیٹ میں آ گئی۔ بیوی نے واپس نکالنی چاہی تو مولوی صاحب بولے ،اوہو اب ایسی بھی کیا بات ہے۔ جو بوٹی خود آتی ہے اسے آنے دو۔ نکالو مت۔۔بیوی بولی، مرغی بھی تو خود آئی تھی۔۔مولوی صاحب کچھ دیر سوچ کر بولے، خود آئی تھی تو ٹھیک ہے۔ چوری تو نہیں کی تھی نا۔ آؤ تم بھی کھاؤ۔۔ایک مولوی صاحب(یہ مرغی والے نہیں تھے) کی بیوی بہت اچھے موڈ میں بولی۔آج میرے کان میں کچھ اچھا سا کچھ نرم سا کچھ میٹھا سا کہو۔۔مولوی صاحب اس کے کان کے قریب منہ لے جا کر آہستہ سے بولے۔۔ حلوہ۔۔۔ایک مولوی صاحب گاؤں کی مسجد میں درس دے رہے تھے۔ روزوں کے بدلے جنت میں آپ کو اپنی ہی بیوی ملے گی۔ یہ سن کر پاس بیٹھے دیہاتی نے اپنے ساتھ والے کو کہنی ماری اور سرگوشی کی پتر ہور رکھ روزے۔

پرانے وقتوں کی بات ہے، جب گھرگھر پانی کی موٹریں اور ڈنکی پمپ نہیں ہوا کرتے تھے۔۔ ایک مولوی صاحب نے کسی یہودی سے کنواں خرید لیا۔۔ دوسرے دن بازار میں جا رہے تھے کہ یہودی نے آواز دے کر بلا لیا اور کہا۔۔ شیخ صاحب، میں نے آپ کو کنواں بیچا ہے، اس کا پانی نہیں۔ اگر آپ نے اس کنویں کا پانی استعمال کیا تو پھر مُجھے اس کے پیسے دینا ہوں گے۔۔۔مولوی صاحب چونکہ واقعی عالم فاضل تھے ،اس لیے ان کا دماغ بھی خوب چلتا تھا، برجستہ بولے۔۔یار، میں تو کل سے خود پریشان ہوں اور آج تمہارے پاس آنا ہی چاہتا تھا۔ یہ تم نے کیا مُجھے کنواں بیچ کر پھنسا دیا ہے؟ اب یا تو جلدی سے میرے کنویں سے اپنا پانی نکال کر مُجھے کنواں خالی کر دو، ورنہ مُجھے میرے کنویں میں پانی رکھنے کا کرایہ دیا کرو۔۔

جگتوں کا شہر فیصل آباد ہے، یہ سب جانتے ہیں، فیصل آبادمیں بازار سے لے کر مسجد تک جہاں جائیں، لوگ جگت سے باز نہیں آتے۔۔ نماز کے بعد ایک نمازی نے امام صاحب سے کہا،تہاڈی گھڑی اگے اے (آپ کی مسجد کی گھڑی آگے ہے یعنی ٹائم دو چار منٹ آگے ہے)امام صاحب نے مصلے پر بیٹھے بیٹھے ہی جواب دیا۔۔لا کے پچھے ٹنگ دے (تم اگلی دیوار سے اتار کر پچھلی پر لگا دو)۔۔ایک شخص نے سر کو تیزی سے گھما کر سلام پھیرا تو ساتھ والے نے کہا۔۔او، ہولی بھائی جان، فرشتے ڈیگنے آں (آہستہ بھائی جان، کندھوں سے فرشتوں کو گرانا ہے کیا)۔۔ایک شخص نے تھوڑا سا سر آگے کر کے سلام پھیرا، تو ساتھ والے نے کہا۔۔تہاڈے فرشتے او سامنے آلے درخت تے بیٹھے نے؟(آپ کے فرشتے وہ سامنے والے درخت پر بیٹھے ہیں کیا؟ )۔۔جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے بعد ایک شخص نے سلام پھیرتے ہی موبائل نکالا تو ساتھ والا بولا۔۔اے ویکھنا میری نماز دی قبولیت دا میسیج وی آیا اے صرف تہاڈی ہی قبول ہوئی اے؟ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔خود کو اتنا سمجھدار نا سمجھیں کہ دوسرے آپ کو بیوقوف لگنے لگیں،اور خود کو کبھی اتنا نیک بھی ناجانیں کہ باقی سب گہنگار نظر آنے لگیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

hubbul patni | Imran Junior
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں