تحریر: امجد عثمانی۔۔
کوئی جی ٹی روڈ کے “مولوی نما یوٹیوبر”اور اس کے “آلہ کار” پیرا شوٹر کو جا بتائے کہ صرف اللہ والوں کی نشست گاہیں ہی “باد نسیم” کو نہیں شرماتیں، ان کی تو آخری آرام گاہیں بھی “بادشمیم ” سے جھوم اٹھتی ہیں۔۔۔انعمت علیہم کے مصداق یہ خوشبودار لوگ۔۔۔کہیں مل جائیں تو زہے نصیب۔۔۔۔۔!!!جناب سید سلمان گیلانی شاعر ابن شاعر ہیں اور وہ بھی شاعر ختم نبوت۔۔۔اپنے والد گرامی جناب سید امین گیلانی کی طرح آقا کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور گل ہائے عقیدت پیش کرتے ہیں تو دل و دماغ مہک جاتے۔۔روح سرشار ہو جاتی ہے۔۔۔۔گیلانی صاحب دربار رسالت مآب سے فیض یاب نعت گو شاعر ہیں۔۔۔شاید اسی لیے معتبر اور اتنے با اعتبار کہ ان کی نعت سے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے موتی بکھرتے۔۔ اصحاب رسول اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کی زندگیوں کے دریچے وا ہوتے ہیں۔۔۔گیلانی صاحب کے پاس دربار رسالت مآب کے فیوض و برکات کی اتنی ایمان افروز داستانیں ہیں کہ رشک آتا ہے۔۔۔دست بوسی کو جی چاہتا ہے۔۔۔۔کسی تحریری نشست میں ان پر کرم نوازیوں کا احوال کہیں گے۔۔۔۔اس نشست میں اللہ والوں کی مہکتی قبروں کے واقعات پڑھیں جو آج کا موضوع بھی ہے اور اتفاق سے گیلانی صاحب اس کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔۔۔۔۔شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ سے کون واقف نہیں؟اور لاہور کے میانی صاحب قبرستان کو بھی بچہ بچہ جانتا ہے۔۔۔۔مولانا لاہوری نے زندگی قرآن کے نام کر دی اور اللہ کی کتاب پڑھتے پڑھاتے ہی اللہ کے حضور پیش ہوگئے۔۔۔۔فرمایا کرتے کہ میرا ایک پائوں ٹرین کے پائیدان اور دوسرا پلیٹ فارم پر ہو اور مجھے کوئی کہے کہ قرآن کا خلاصہ بتاتے جائیے تو میں کہہ دوں گا کہ اللہ کریم کو عبادت۔۔۔۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطاعت۔۔۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو محبت اور لوگوں کو خدمت سے راضی کرو۔۔۔۔۔یہی قرآن کا خلاصہ ہے۔۔۔۔۔قرآن کی خدمت کا ثمر دیکھیے کہ مولانا لاہوری دنیا سے گئے تو قبر جنت کی خوشبو سےمہک اٹھی۔۔سید سلمان گیلانی لکھتے ہیں:امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ کے مرقد مبارک سے خوشبو کا واقعہ بہت مشہور ہے۔۔۔۔۔پاکستان میں اللہ والوں کی قبور سے خوشبو اٹھنے کا سب سے مشہور معاملہ مولانا احمد علی لاہوری کا ہوا، جس کا میں چشم دید گواہ ہوں۔۔۔۔کہتے ہیں حضرت لاہوری کے وصال پر میں گیارہ سال کا اچھابھلا ہوشمند بچہ تھا۔۔۔۔اسوقت ہماری گلی کے بابا حبیب اللہ مرحوم ،جو اس وقت اسی نوےسال کے سِن رسیدہ بزرگ تھے، وہ یہ شہرت سن کر کہ حضرت کی قبرسےخوشبو پُھوٹ پڑی ہے، حق الیقین حاصل کرنے کے لیے شیخوپورہ سے لاہور میانی صاحب پہنچے۔۔۔۔مٹی سے خوشبو سونگھی اورتھوڑی سی خاک لحد ایک کاغذ میں لپیٹ کر جیب میں ڈال کرشیخوپورہ بس سے اتر کرسیدھا ہماری دکان مکتبہ احباب پر پہنچے۔۔۔۔جب دکان سے ابھی دورہی تھے کہ ایک عجیب سی خوشبو ،جو قبل ازیں کبھی نہیں سونگھی تھی،محسوس ہوئی….بابا حبیب اللہ جوں جوں قریب آتے گئے خوشبو تیز ہوتی گئی…. جب دکان میں ہانپتے کانپتے داخل ہوئے تو سبحان اللہ سبحان اللہ کہتے زبان نہیں تھکتی تھی۔۔۔۔والد صاحب نے پانی کا گلاس پیش کیا۔۔۔۔بابا جی نے سنت کے مطابق بسم اللہ پڑھ کر تین سانسوں میں پی کرالحمد للہ کہا اوربولے شاہ صاحب آپ کو علم ہے میں ذرا “وہابی” خیال کا ہوں۔۔۔۔ سنی سنائی کرامات کاقائل نہیں ہوں ،اس لیے آج میں خود میانی صاحب گیا اور وہاں سےحضرت لاہوری کی قبر کی مٹی لایا ہوں ،جس سے واقعی جنت کی خوشبو آرہی ہے اورساتھ ہی یہ اخبار کا صفحہ ہے جس پر یہ خبر درج ہے کہ حضرت احمد علی لاہوری کے مرقد کی خاک کا اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور کی میڈیکل لیبارٹری میں کیمیکل ایگزامن کیاگیا مگر اس میں کسی دنیاوی خوشبوکی آمیزش نہیں پائی گئی۔۔۔۔بابا جی نے اس خاک میں سے ابا جی کو بھی حصہ عطا کیا۔۔۔والد صاحب خود حضرت لاہوری کے مرید تھے۔۔۔۔کافی دن تک میری امی جی کے صندوق میں وہ پُڑیا رکھی رہی اور اس جنت کی خوشبو سے سارا گھر مہکتا رہا۔۔۔۔ پھر لوگوں نے خاکِ لحد اٹھا کے لے جانا مشغلہ بنا لیا۔۔۔۔ آخر حضرت کے خلفاء نے مل کر دعا کی یا اللہ تیری شان کا،تیری قدرت کا مشاہدہ ہو چکا اب اس امر کا مظاہرہ ختم فرما دے۔۔۔۔آہستہ آہستہ وہ خوشبوجاتی رہی۔۔۔۔جب قبر سے چلی گئی توگھر ٹرنک میں رکھی پُڑیا سے بھی غائب ہو گئی۔۔۔۔سید سلمان گیلانی گواہی دیتے ہیں کہ شیخ الحدیث مولانا موسی خان روحانی بازی جب حضرت لاہوری والے احاطہ میں دفن ہوئے تو ان کی قبر سے بھی خوشبو کے جھونکے چل پڑے۔۔۔۔لوگ جوق در جوق میانی صاحب جانے لگے اور خاکِ لحد لفافوں ، شاپروں، بوتلوں میں بھر بھرکے لے جانے لگے۔۔۔۔ہمارے والد صاحب مرحوم نے مٹی سُونگھی تو فرمایا یہ تو ہُو بہُو وہی خوشبو ہے جو مولانا لاہوری کی قبر سے پُھوٹی تھی۔۔۔۔۔سید سلمان گیلانی نے ماضی قریب میں ایک بزرگ عالم دین مولانا عزیز الرحمان ہزاروی کی قبر سے بھی خوشبو پھوٹنے کا واقعہ لکھا۔۔۔۔یہ کورونا وبا کے دنوں کی بات ہے ۔۔۔سید سلمان گیلانی نے لکھا کہ نعت خواں فیصل بلال حسان کا فون آیا کہ میں اِس وقت پیر عزیز الرحمن ہزاروی کے صاحبزادوں کے پاس پیر صاحب کی تعزیت کے لیئے حاضر ہوا ہوں۔۔۔۔میں نے بھی فون پر حضرت اقدس کے بیٹوں سے اظہار فسوس کیا اورفیصل بلال سے گزارش کی کہ پیر صاحب کی تھوڑی سی خاکِ لحد تو لیتے آنا۔۔۔ویسے تو مجھے یقین ہے کہ ان کی قبر سے خوشبو پھوٹنے کی خبر درست ہے مگر عین الیقین تک پہنچنا چاہتا ہوں۔۔۔۔فیصل بلال نے واپسی پر میرے گھر دستک دی۔۔۔۔میں باہر نکلا اور ابھی گیراج میں ہی تھا کہ ایک مسحور کُن خوشبو کے جھونکے نے میری صفتِ شامہ کو اپنی طرف متوجّہ کِیا حالانکہ میں کووڈ باعث ناک مُنہ پہ ماسک لگا چُکا تھا۔۔۔ دروازہ کھولا تو سامنے متبسّم چہرے لیے”یک نہ شُد دو شد” فیصل بلال کےساتھ مفتی عمر یونس صاحب بھی کھڑے تھے۔۔۔۔۔فیصل نے پِیر جی کے مرقد کی مٹی مجھے شاپر در شاپر تھمائی اور میں نے دروازے سے ہی بصد شکریہ اُن کو رُخصت کیا۔۔۔ اتنے میں اندر سے خواتین خانہ نے پوچھا یہ عجیب سی خوشبو کہاں سے آ رہی؟؟ میں اندر آچکا تھا اور کمرہ مہک رہا تھا۔۔۔ میں نے کہا یہ خوشبو اس مٹی سے آرہی ہےجو فیصل بلال لے کر آیا ہے۔۔۔ جب شاپروں کی قید سے اس مٹی کو آزاد کیا تو یقین کیجئے پورا گھر خوشبو خوشبو ہو گیا۔۔۔یہ خوشبو تقریباََ تقریباََ اُسی خوشبو سے ملتی جلتی تھی جو مولانا موسٰی خان روحانی بازی کی قبر سے پُھوٹی تھی یا جو مَیں نے اور میرے برادر صغیر حسّان گیلانی نے جنت البقیع یا مشہدِ حمزہ رضی اللہ عنہ پہ محسوس کی تھی۔۔۔جی ہاں اللہ والوں کی مجلسیں بھی مہکتی ہیں اور قبریں بھی مگر کسی کور چشم زبان دراز پر دلوں کی دنیا کہاں کھلتی ہے۔۔۔۔سلمان گیلانی ایسا کوئی صاحب دل ہی یہ راز پاسکتا۔۔۔۔ایسی”خوشبو کہانی” کہہ سکتا ہے۔۔(امجد عثمانی)۔۔