تحریر: امجد عثمانی۔۔
درویش مزاج مولانا حامد الحق حقانی بھی جام شہادت نوش کرکے اپنے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق شہید کے پہلو میں “محو خواب”ہو گئے۔۔۔۔۔شومئی قسمت کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں علمائے کرام کا لہو پانی سے بھی ارزاں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید ہوں یا مولانا ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید ۔۔مولانا سمیع الحق شہید ہوں یا مولانا حامد الحق حقانی شہید۔۔۔۔۔اتنی قد آور دینی قیادت محض اسلام اور پاکستان سے محبت کے جرم میں خون میں نہلا دی گئی۔۔۔مولانا حامد الحق حقانی کی پروفائل کے مطابق وہ امیر جے یو آئی(س)،نائب مہتمم جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے ساتھ ساتھ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔۔گویا انہوں دفاع وطن پر پہرہ دیتے جان دے دی۔۔مولانا سمیع الحق کے برعکس مولانا حامد الحق حقانی سے کوئی ملاقات نہیں تھی۔۔گاہے “برقی رابطہ” ہو جاتا اور وہ بھی دو سال پہلے رابطے میں آئے۔۔حامد الحق سے نجی ٹی وی “ایک نیوز”پر سید علی حیدر کے شو کے لیے فقیر مدینہ جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کے توسط سے رابطہ ہوا۔۔۔یہ پروگرام بھی دہشت گردی کیخلاف تھا۔۔۔انہوں نے بڑے تحمل سے بات سنی۔۔۔بخوشی بذریعہ سکائپ پروگرام میں شریک ہوئے اور سخت سوالوں کا بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیا۔۔حسن اتفاق کہ مجھے جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کی جانب سے حامد الحق حقانی کا شہادت سے دو روز پہلے66 سیکنڈ مشتمل ایک وائس میسج موصول ہوا جس میں ان کے دل میں اکابر علمائے کرام کی جھلک ملتی ہے۔۔۔اس “صوتی پیغام” میں رمضان المبارک میں مدینہ منورہ حاضری کی تڑپ اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام پیش کرنے کی التجا بھی ملتی ہے۔۔۔حامد الحق حقانی نے اپنے”سندیسے”میں کہا:السلام علیکم ڈاکٹر صاحب۔۔۔!!میں حامد الحق حقانی آپ کا خادم بول رہا ہوں۔۔ہم گنہ گاروں کو بھی مدینہ طیبہ میں اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ ہمیں بھی رمضان المبارک میں مدینہ منورہ کی زیارت نصیب فرمائے۔۔۔روضہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ سلم پر ہمارا بھی سلام کہیے گا۔۔۔میرا بھائی راشدالحق اور بیٹا عبد الحق ثانی بھی آپ کو سلام کہہ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔دعائوں کی التماس ہے۔۔۔۔۔۔۔حامد الحق نے آخر میں درود ابراہیمی پڑھا اور السلام علیکم کہہ کر اجازت لے لی۔۔۔مولانا سمیع الحق کا تذکرہ آیا تو گواہی بنتی ہے کہ وہ واقعی بڑے آدمی تھے اور “میڈیا فرینڈلی”بھی…..بطور صحافی خاکسار کی ان سے تینوں ملاقاتیں بڑی یادگار ہیں۔۔۔دو ہزار آٹھ میں پہلی بار شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوری کے مرکز شیرانوالہ مسجد لاہور میں ملے جہاں میں نے ان کا ایک قومی اخبار کے لیے انٹرویو کیا۔۔۔۔انہوں نے پاکستان میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا۔۔۔پھر کچھ سال بعد ان کی انگریزی کتاب کی تقریب رونمائی پر ملاقات کا موقع ملا۔۔۔۔باوقار اخبار نویس راجہ اورنگزیب بھی میرے ساتھ تھے۔۔۔۔انہوں نے مجھے اور راجہ صاحب کو بڑی محبت کے ساتھ اپنی کتاب پیش کی ۔۔۔۔پھر ایک این جی او کے نمائندوں کے ساتھ پولیو مہم کی حمایت کے لیے ان سے نشست ہوئی۔۔انہوں نے دو ٹوک انداز میں پولیو ویکسین کے حق میں بیان دیا۔۔۔۔۔مولانا سمیع الحق سے جب کبھی فون پر بات ہوتی تو وہ اکوڑہ خٹک کی دعوت ضرور دیتے۔۔۔۔حسن اتفاق دیکھیے کہ دو ہزار پندرہ کی بات ہے کہ جناب ڈاکٹر احمد علی سراج کے ساتھ نشتر ہال پشاور کی ختم نبوت کانفرنس میں حاضری ہوئی۔۔۔۔لاہور کے سنئیر صحافی جناب محمد عبداللہ بھی ساتھ تھے ۔۔۔۔نشتر ہال کانفرنس میں مولانا عبدالحفیظ مکی صدر مجلس تھے اور مولانا سمیع الحق ان کے ساتھ بطور مہمان خصوصی جلوہ افروز تھے۔۔۔۔واپسی پر کھڑے کھڑے جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک بھی رکے اور پاکستان کا سب سے بڑا دارالحدیث دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔۔۔۔یادش بخیر!مجھے 2006میں عمرے پر جانا تھا۔۔۔۔میری عمر چالیس سال سے کم تھی۔۔۔۔ان دنوں میری ان سے اتنی “ہیلو ہائے “نہیں تھی۔۔۔۔۔کراچی میں ہمارے صحافی دوست جناب امین شاہ کی سفارش پر مولانا نے اپنے سینیٹر شپ والے لیٹر پیڈ پر میرے لیے سعودی سفیر کے نام خط بھی لکھا۔۔۔۔مولانا سے ہماری پہلی سے آخری ملاقات کے “سہولت کار” جناب عاصم مخدوم تھے ،جو بعد میں “ادھر ادھر” ہو گئے۔۔۔مولانا سمیع الحق اتنے میڈیا فرینڈلی تھے کہ انہوں نے نائن الیون کے بعد مدارس پر یلغار کے ہنگام مغربی صحافیوں کو بھی کھلے دل سے اپنے مدرسے خوش آمدید کہا۔۔۔مولانا اور “دی نیویارک ٹائمز “کے صحافی تھامس ایل فرائیڈمین کے درمیان سوال و جواب کی ایک نشست بڑی دل چسپ تھی۔۔۔۔مولانا نے مہمان اخبار نویس کو دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک مرتبہ بی بی سی کی ایک ٹیم ہمارے ہاں طلبا کو دیکھنے آئی کہ بھلا یہ کس قسم کی “مخلوق” ہے….وہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ یہ ان کی طرح کے انسان ہیں اور ان لوگوں کے بھی نام ہیں۔۔۔۔مولانا نے ایک اور نشست میں میڈیا کو بتایا کہ برطانوی صحافی رابرٹ فسک نے تو اپنے اخبار انڈیپنڈنٹ میں دارالعلوم کو باقاعدہ نقشوں کی مدد سے وار سکول” ظاہرکردیا تھا۔۔۔۔نائن الیون کے بعد دنیا کا شاید ہی کوئی ۔۔ وار کارسپانڈنٹ ہو جس نے اکوڑہ خٹک کا رخ نہ کیا ہو لیکن مولانا نے دلائل سے “گورے صحافیوں “کو پچھاڑتے ہوئے پاکستان پر حرف نہ آنے دیا۔۔۔انہوں نے واضح کیا کہ دارالعلوم حقانیہ اتنی ہی معتبر دینی درسگاہ ہے جتنی آکسفورڈ،ہارورڈ اور کیمبرج۔۔۔۔انہوں نے انگریز صحافیوں کو قائل کیا کہ انگریزی میں “سٹوڈنٹس” کہلانے والے نوجوانوں کو پشتو میں” طالبان” کہتے ہیں جبکہ جامعہ حقانیہ کے ڈگری ہولڈر حقانی کہلاتے ہیں۔۔مولانا حامد الحق کا بھی یہی بیانیہ تھا۔۔۔۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق مولانا حامدالحق نے خواتین کو تعلیم سے روکنے کو خلاف اسلام قرار دیا تھا جس پر انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں۔۔۔بہر حال اسلام کا مقدمہ ہو یا پاکستان کا دفاع مولانا حامد الحق حقانی بھی مولانا سمیع الحق کے نقش قدم پر چلے اور خوب چلے۔۔۔باپ دادا کے”دینی باغیچے” کو اپنے خون سے سینچ دیا۔۔!!!(امجد عثمانی)۔۔