تحریر: جاوید صدیقی۔۔
گزشتہ دو ماہ قبل جون سنہ دو ہزار بائیس سے شروع ھونے والے مون سون کی بارشوں نے پاکستان بھر میں تباھی و بربادی کی نئی تاریخی رقم قائم کردی اسی اثناء میں سیاسی چپکلش اور اکھاڑے کھل گئے نہ حکمرانوں کو عوام کی پرواہ رھی اور نہ ہی میڈیا نے اس طرف توجہ دی۔ روزانہ اپنے پروگرامز میں سیاست سیاست اور سیاست کا حسبِ عادت مینا بازار لگائے رکھا ایک طرف طوفانِ بدتمیزی کا بازار گرم رکھا تو دوسری جانب پس پردہ میڈیا مالکان سے لیکر اینکرز رپورٹرز اور ڈائریکٹر نیوز اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے رھے۔ اےآروائی نیوز کا وائس پریزیڈینٹ جوکہ نا اہلی اور ان پروفیشنل میں میڈیا انڈسٹری میں مشہور ھے اس نے چینل کو ہی بند کروادیا اور آج تک ملازمین ذہنی پریشانی کا شکار ھیں بات یہاں ختم نہیں ھوتی بلکہ جب دو ماہ سے زائد گزر گئے تو کامران خان صاحب کو احساس ھوا کہ پاکستانی قیامتِ صغریٰ سے دوچار ھوچکے ہیں اور انھوں نے حکومت اور ذمہداروں کا سخت انٹرویوز کئے یہ بے شرم بے حیا بے حس کیا جانیں عوام کے مسائل اور دکھ الٹا حکومت نے تباھی سے دوچار عوام پر ٹیکسوں کے انبار کھڑے کردیئے ھونا تو یہ چاہئے تھا کہ ملک کو آفت زدہ قرار دیکر ٹیکس کی چھوٹ اور یوٹیلیٹی بلز میں ستر فیصد رعایت کا اعلان کرتے لیکن یہ ان ظالمانہ عوامل کو جمہوریت سمجھتے ہیں اور جمہوری عمل کرکے دکھا دیا۔ میڈیا انڈسٹری کا اس تمام حالات میں مایوس کن کردار رھا ھے ھونا تو یہ چاہئے تھا کہ میڈیا ان حکمرانوں کا مکمل بائیکاٹ کرتے اور متاثرین کیساتھ کھڑے ھوتے ھوئے اپنی اپنی خصوصی نشریات کا آغاز کرتے جس میں کئی پینل بناتے ھوئے ماضی کے واقعات اور حال کی کیفیت اور مستقبل کا لائحہ عمل تجویز و مشاورت کیساتھ پیش کی جاتی اور مختلف ماہرین کو مدعو کرکے پاکستان کے تباہ شدہ اسٹریکچرل کے نئے انداز سے بہتر زاوئیوں کیساتھ گفتگو کی جاتی اس کے علاوہ اپنی نشریات میں ہر مقام کو شامل کرتے جہاں جہاں عوام راشن و ادویات کی منتظر ھیں۔ میں مسلسل اس بابت دیکھ رھا ھوں لیکن چند ایک ہیڈ لائن چند ایک خبروں بیپرز کے علاوہ تا حال خصوصی ٹرانسمیشن کسی نے شروع نہیں کی۔ میڈیا مالکان دولت کمانے کیلئے الیکشن ٹرانسمیشن ہفتے بھر کرسکتے ہیں اور ماہِ رمضان میں خصوصی نشریات کرسکتے ہیں تو اس قومی سانحہ پر اس قدر بے حسی اور بے شرمی کیوں یہ قوم جہاں ان حکمرانوں سیاسی سربراہوں کو معاف نہیں کریگی وہیں میڈیا مالکان کے اس بےحسی بے شرمی بیغیرتی کو کبھی بھی فراموش نہیں کریگی۔ تاریخ لکھی جائیگی کہ جب اقتدار کے کتے آپس میں لڑ بھڑ رھے تھے تو میڈیا ان کا فوکس کیئے بیٹھی تھی دوسری جانب قیامتِ صغریٰ میں عوام جانور مررھے تھے املاک تباہ ھورھی تھیں میڈیا کی توجہ خاص نہیں تھی۔ ھمارا پیمرا ھو یا عدالت ان مالکان سے کیوں نہیں پوچھتا کہ یہ عوام کیا پاکستانی نہیں کیا تم انہیں اشتہار دیکھا دیکھا کر دولت نہیں سمیٹتے رھے ھو اور اشتہاری کمپنیاں بھی ان کے جرم میں شریک ھیں انہیں بھی اپنی پروڈکٹ کے مافع میں تین فیصد مختص کریں ابتک کسی بھی کاروباری دنیا نے یہ اعلان نہیں کیا نظام تو یہاں کا کچھ اس طرح نظر آتا ھے کہ عوام کے مرنے جینے پر عوام ہی امداد کرتے رھیں یہ حکمران اور میڈیا مالکان بے حس بے شرم اور بیغیرتی اپناتے ھوئے اپنی زندگی کے عیوش و تعائش میں کمی نہ ھونے دیں۔ یہ سب کچھ اس لئے ھے کہ اس ملک میں کوئی نظام ہی نہیں اور یہ سب کے سب اس ملک میں رھنے کا حق ہی نہیں رکھتے جو عوام کو مرتا دیکھیں اور ان میں انسانیت ہی بیدار نہ ھو۔۔(جاوید صدیقی)۔۔