خصوصی رپورٹ۔۔
پاکستان میں اتوار کے روز محسن نقوی کو پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کے عہدے پر تعینات کیا گیا ہے جو پاکستان میں متعدد میڈیا چینلز کے مالک ہیں۔اس تعیناتی کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ کیا صحافی اپنی سیاسی وابستگیوں اور اثر و رسوخ کے باعث حکومتی عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔یہ پاکستان میں پہلی بار نہیں کہ جب کسی صحافی یا صحافت کے شعبے سے تعلق رکھنے والے فرد کو کسی سرکاری عہدے پر تعینات کیا گیا ہو بلکہ اس کی کئی مثالیں ماضی میں بھی ملتی ہیں۔پاکستان کرکٹ بورڈ کے موجودہ چیئرمین نجم سیٹھی ایک سینیئر صحافی کے طور پر دہائیوں سے اپنی پیشہ ورانہ زمہ داریاں ادا کرتے رہے ہیں۔ اپنے صحافتی کریئر کے دوران وہ پنجاب میں بطور نگران وزیر اعلیٰ اور اس سے قبل احتساب کے مشیر کے طور پر بھی مقرر کیے گئے تھے۔
صحافی ابصار عالم کی چیئرمین پیمرا تقرری بھی کافی تنقید کی زد میں رہی ہے۔حالیہ عرصے میں صحافی فہد حسین کا بطور معاون خصوصی تعینات ہونے پر بھی بحث چھڑی اور اب محسن نقوی کی نگران وزیر اعلی پنجاب کے لیے تعیناتی نے ایک بار پھر سوشل میڈیا پر اس دبی چنگاری کو ہوا دے دی ہے۔یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر صحافیوں کی تعیناتیاں ان کو کتنا غیر جانبدار رہنے دیتی ہیں۔صحافی ابصار عالم کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں صحافی سرکاری عہدوں پر کام بھی کرتے ہیں اور واپس آ کر دوبارہ صحافت سے وابستہ بھی ہو جاتے ہیں۔امریکہ اور یورپ میں ہزاروں صحافی سیاست میں جاتے ہیں اور پھر بعد میں صحافت شروع کر دیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’محسن نقوی بنیادی طور پر ایک صحافی نہیں بلکہ ٹی وی چینلز کے مالک ہیں۔ اگر اے آر وائی کے سلمان اقبال اور جیو کے میر شکیل سرکاری میٹنگ میں بیٹھیں تو کوئی اعتراض نہیں کرتا۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں صحافی پیسے لے کر ایک سیاسی جماعت کے خلاف پروپیگنڈا تو چلاتے ہیں لیکن ڈکلیئر نہیں کرتے، یہ منافقت اور دوہرا معیار ہے۔ان کے مطابق ’میرے اوپر بطور چیئرمین پیمرا شدید تنقید کی گئی حالانکہ اس عہدے کی پہلی شرط یہی تھی کہ میڈیا کا تجربہ ہو تو میڈیا کا تجربہ ایک صحافی کو ہی ہوتا ہے تاہم میرے اوپر تنقید کی گئی کیونکہ میں اسٹیبلشمنٹ پر سوال اٹھاتا تھا۔مجھ سے پہلے اور میرے بعد میں سرکاری عہدوں پر آنے والوں کو تنقید کا نشانہ نہیں بنایا گیا کیونکہ میں ورکنگ جرنسلٹ تھا۔ان کا کہنا تھا کہ صحافی کی غیر جانبداری جاننے کا آسان طریقہ ہے کہ ان کے پروگرامز یا کالم دیکھ لیے جائیں کہ اس کے تجزیے کا جھکاؤ پہلے کیا تھی اور بعد میں کیا رہا۔انھوں نے کہا کہ ’میں اتنے عرصے میڈیا میں واپس نہیں آیا تاکہ جانبداری قائم رہے۔‘
محسن نقوی کی بطور نگران وزیر اعلی پنجاب تعیناتی پر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کی ٹویٹ کو بھی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔صحافی مظہر عباس نے اپنی ٹوئیٹ میں لکھا تھا کہ ان کی خواہش تھی کہ محسن نقوی کو اپنی نامزدگی پر انکار کر دیتے تاہم نہ وہ پہلے نہ آخری صحافی ہیں جو یہاں (سیاست میں) آئے۔مظہر عباس کی اس ٹویٹ پر کئی سوشل میڈیا صارفین نے اس پر ان کی سنہ 2018 میں کالم نگار حسن عسکری کی بطور نگران وزیرِ اعلی پنجاب کی تعیناتی پر مبارکباد کی ٹویٹ پر سوال اٹھائے کہ اس وقت آپ نےانتہائی خوشی کا اظہار کیا تھا جب حسن عسکری تعینات ہوئے۔صارفین کے سوال پر جب ہم نے مظہر عباس سے رابطہ کیا تو ان کا موقف تھا کہ حسن عسکری کالم نگار رہے تاہم پروفیشنل جرنلسٹ نہیں رہے اور ان کا صحافت میں کردار نہیں رہا تاہم ان کے مقابلے میں نجم سیٹھی کا صحافت میں متحرک کردار رہا ہے۔محسن نقوی کا صحافت میں سفر سی این این سےشروع ہوا اور اب وہ میڈیا چینلز کے مالک ہیں۔مظہر عباس کہتے ہیں کہ ’ایک صحافی کبھی بھی جانبدار نہیں ہو سکتا کیونکہ صحافیوں کا کام حکومتِ وقت پر تنقید کرنا ہے اور ان کو بے نقاب کرنا ہے، یہی صحافی کا بنیادی کام ہے تاہم اپنے آپ کو اس نظام کا حصہ نہ بنائیں اور سیاست کے تمام ایجنڈوں سے دور رہیں تاکہ اپنا کام دیانت داری سے کر سکیں۔مظہر عباس کے مطابق ’بہت سے ہمارے صحافی، مدیران اور مالکان حکومتوں کا حصہ رہے ہیں اسی وجہ سے ان پر تنقید ہوتی ہے کیونکہ اس میں ان کا اپنے پیشے اور حکومت کے ساتھ مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔
’اب کئی سالوں سے نہ صرف میڈیا مالکان کا سیاست میں حصہ اور مداخلت نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ان کے اداروں کی سیاست دانوں سے مفاہمت نظر آتی ہے۔پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ کی تعیناتی کے حوالے سے ٹوئٹر پر چلنے والے ٹرینڈز میں یاسمین ناز نامی صحافی نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’نجم سیٹھی، ابصار عالم، فہد حسین اور اب محسن نقوی۔ گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا۔ٹوئٹر صارفین نگران وزیر اعلی پنجاب کی تعیناتی کے اگلے ہی رو پاکستان میں بجلی کے بریک ڈاون کا تعلق جوڑ دیا اور کہا کہ محسن نقوی نے پنجاب سمیت پورے پاکستان کو پہلے ہی روز بجلی کا جھٹکا دے کر خبردار کر دیا ہے کہ تنقید کرنے والے سنبھل جائیں۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔
محسن نقوی کی تعیناتی، نئی بحث چھڑ گئی۔۔
Facebook Comments