tamaam asasay declare kar rakhe hen

محسن نقوی، کامیاب منتظم

تحریر: اطہرقادرحسن۔۔

جیسے جیسے انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے ، پنجاب میں ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل میں بھی اتنی ہی تیزی آتی جارہی ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی زیر تعمیر منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔

نگران حکومتیں عموماً ایک مخصوص اور محدود مدت کے لیے اقتدار سنبھالتی ہیں اور اس محدود مدت میں وہ روز مرہ کے امور سر انجام دینے پر ہی توجہ دیتی ہیں لیکن ہمارے دوست محسن نقوی کی یہ خوش قسمتی رہی ہے کہ ان کی نگران حکومت کی مدت طوالت اختیار کر گئی۔انھوں نے اس مدت کو روز مرہ کے کاموں میں ضایع کرنے کے بجائے پنجاب میں بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام کا آغاز کرادیا ، پھر ان پر پہرہ بھی دیا اور عوام کو یہ دکھا دیا کہ حکمران چاہے نگران ہی کیوں نہ ہو، اگر اس میں کام کرنے کی لگن اور جذبہ ہے تو ایک سالہ ترقیاتی منصوبے تین ماہ میں بھی مکمل کیے جا سکتے ہیں ۔پنجاب میں دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی کا عمل تیزی سے جاری ہے جس کی بنیادی وجہ شہروں میں تعلیمی ادارے ،صحت کے مراکز اور روزی روزگار کا میسر ہونا ہے۔ اس وجہ سے شہروں پر آبادی کا دباؤ بہت زیادہ بڑھتا جارہا ہے۔

پنجاب کی اگر بات کی جائے تو سب سے زیادہ دباؤ لاہور پر ہے جہاں پر پنجاب ہی نہیں بلکہ خیبر سے کراچی تک کے طول وعرض سے لوگ رہائش پذیر ہونے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ میرے مرحوم والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے کہ میں صحافت سے ریٹائرمنٹ کے بعد واپس گاؤں منتقل ہو جاؤں گا۔اپنے بچن کے دوستوں کے ساتھ وقت گزاروں گا اور پرسکون ماحول میں کتابیں پڑھوں گا لیکن جب عمر ڈھلنے لگی تو کہنے لگے کہ لاہور سے واپسی ناممکن ہو گئی ہے کیونکہ ڈھلتی عمر میں سب سے زیادہ ضرورت علاج معالجے کی ہوتی ہے اور وہ گاؤں میں دستیاب نہیں ہے ۔ شاید انھی بزرگوں کی ضرورتوں کاا دراک کرتے ہوئے ہمارے نگران وزیر اعلیٰ نے نہ صرف لاہور بلکہ مختلف اضلاع میں سب سے زیادہ توجہ علاج معالجے کی سہولتوں پر دی ہے۔

انھوں نے مختلف اضلاع کے پے در پے دورے کر کے اسپتالوں کی حالت درست کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے البتہ مجھے ان سے ایک شکوہ یہ ہے کہ ہمارا ضلع خوشاب ان کے دورے سے محروم رہا ہے، حالانکہ خوشاب پاکستان کا وہ واحداور منفرد ضلع ہے جس میں ریگستان بھی ہے، دریا بھی ہے، میدان بھی ہیں اور وادی سون کے سر سبز پہاڑ اور چشمے بھی ہیں۔

وادی سون پنجاب کے وسط میں سوئٹزرلینڈ ہے، بشرطیکہ انفرااسٹرکچر جدید بنایا جائے ، تو وادی سون سیاحت کا مرکز بن سکتی ہے۔ بہر حال اس ذاتی شکوے کے علاوہ پنجاب کے عوام کو بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے محسن نقوی نے جس طرح دن رات ایک کیا ہے وہ قابل ستائش ہے کیونکہ وہ نہ تو کوئی سیاستدان ہیں اور نہ ہی ان کا کوئی حلقہ انتخاب ہے جس کے لیے انھیں لالچ ہو کہ عوام ان کی کارکردگی کو دیکھ کر انھیں ووٹ دیں گے۔

وہ ایک اخبار نویس ہیں جنھوں نے امریکا سے صحافت کی تعلیم حاصل کی اور پھر واپس پاکستان آکر اس کا عملی استعمال بھی کیا۔ انھوں نے پاکستان میں میڈیا کے میدان میں نئے اور کامیاب تجربات کیے ہیں اور میڈیا کے میدان کو ایک نئی طرح دی ہے۔کسی بھی نگران حکمران کی جانب سے عوامی امنگوں کے مطابق تندہی سے کام کرنے کی محسن نقوی نے نئی روایت ڈال دی ہے ، جسے محسن اسپیڈ کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ لاہور میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز اور محدود مدت میںان کی تکمیل کا سہرا بلاشبہ ان کے سر ہے۔اس سے پہلے میاں شہباز شریف اپنے تجربے اور سخت حکمرانی کی وجہ سے انتہائی مقبول رہے ہیں۔

انھوں نے پنجاب میں ترقی کی بنیادڈالی جس کے چرچے بیرون ملک بھی ہوتے رہے اور غیر ملکی حکمران ان کے طرز حکمرانی کی تعریف کرتے رہے ہیں ، معلوم یہ ہوتا ہے کہ محسن نقوی نے شہباز شریف ماڈل کو اپنایا ہے اور اس میں مزید تیزی پیدا کی ہے حالانکہ ان کو حکمرانی کا کوئی تجربہ نہیں تھا اور پنجاب جیسے بڑے صوبے کی حکمرانی دراصل پاکستان کی حکمرانی کے برابر ہے لیکن اپنی خداداد صلاحیتوں کے بدولت محسن نقوی ایک کامیاب حکمران کا سہرا اپنے سر سجانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

اگر وہ لاہور کے کسی حلقے سے الیکشن میں حصہ لیں تو مجھے قوی امید ہے کہ وہ بہت زیادہ ووٹوں سے جیت جائیں گے ۔

محسن نقوی کے بارے میں بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ نگران حکومتوں کے لیے مثبت اور تعمیری کام کرنے کی ایک ایسی مثال قائم کر کے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو نے جارہے ہیں جس کو آنے والی وقتوں میں بھی یاد رکھا جائے گا ۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں