تحریر: خرم علی عمران ۔۔
بڑے، بزرگ،ذمہ دار، سربراہ ایسے ہی نہیں بنا جاتا خاص طور سے مہذب معاشروں میں تو کئی امتحانات ،اور کئی چھلنیوں سے گزر کر ایسے مناصب ملتے ہیں، دیکھیں نا! اکثرخاندانوں میں ایسے بڑے اور بزرگ حضرات ہوتے ہیں جن کا سب خاندان والے ادب کرتے ہیں ،انکی بات مانی جاتی ہے اور تنازعات میں انکا فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے ۔اس بات کا تعلق انکی عمر سے نہیں ہوتا کیونکہ اسی خاندان میں ان سے زیادہ عمر والے لوگ بھی موجود ہوا کرتے ہیں لیکن یہ بات یہ ہمہ گیر ادب اور وقعت کسی کسی بڑے یا بزرگ کو ہی نصیب ہوا کرتی ہے کہ ان کی بات کو سب ہی وزن دیتے ہیں ،باقی بزرگوں کا بس رسمی ادب و احترام ضرور کیا جاتا ہے لیکن ان کا وہ اثر خاندانی معاملات پر نہیں ہوا کرتا۔ ایسے بزرگ اور بڑے حضرات اپنی فیملی اور خاندان کے لئے ایک رول ماڈل ایک لیڈر کی مثال ہوا کرتے ہیں اور اس مرتبے تک پہنچنے کے لئے انہیں پہلے بے شمار مواقع پر بہت سے معاملات میں اپنی اہلیت ثابت کرنا پڑتی ہے،اپنی ذات کو متعدد مواقع پر پیچھے رکھ کر دوسروں کے حقوق ادا کرکے دکھانے پڑتے ہیں اور قربانیاں دینی پڑتی ہیں یعنی نفیء ذات کا مرحلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ پھر کہیں جاکر یہ مرتبہ حاصل ہوپاتا ہے۔اسی طرح بیشتر ماں باپ کوبھی دیکھا ہوگا کہ کس طرح اپنی اولاد کی بھلائی کے لئے،بہتری کے لئے انہیں تکلیف سے بچانے کے لئے اپنی جان پر ہر قسم کے دکھ سہتے ہیں لیکن جیتے جی اپنی اولاد پر اپنے پیاروں پر آنچ نہیں آنے دیتے اور اپنی ذات کو بھلا کر ،خود ہر تکلیف برداشت کرکے اولاد کو ہر قسم کا سکھ فراہم کرنے کی اپنی سی سعی کرتے ہیں اور یہ بھی اپنے گھر اور اپنی اولاد کے لئے ایک طرح سے رول ماڈل،قائد اور لیڈر ہوتے ہیں۔ تو بات اور پرکھنے کی ایک کسوٹی کچھ یوں بھی بنتی ہے کہ رہبر، لیڈر یا قئد وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات کو بھلا کر اپنے متعقلین کی بھلائی کے لئے کام ،کوشش اور جد و جہد کرتا ہے اور سب سے پہلے نفی ء ذات کا سبق پڑھتا ہے۔
قوموں اور ملکوں کے لیڈروں یا قائدین پر بھی یہی اصول اور کسوٹی منطبق ہوتی ہے۔ جب کسی ملک یاقوم کے ساتھ کچھ اچھا ہونا ہوتا ہے تو پھر اسے ایسے افراد قدرت کی جانب سے عطا ہوجاتے ہیں جو اپنی ذات کو بھلا کر،اپنی ہستی کو مٹا کر اور نفیء ذات کا عملی مظاہرہ کرکے اپنے لوگوں کی بھلائی اور بہتری کے لئے دن رات ایک کردیتے ہیں اور پھر کچھ ایسا کرجاتے ہیں کہ جیسے کوئی انہونی، کرامت یا معجزہ رونما ہوجائےاور پھر طوفانوں کے رخ بدل جایا کرتے ہیں ،صحرا نخلستان کا روپ دھار لیتے ہیں تاریکیاں چھٹ کر روشنیوں میں بدل جاتی ہیں۔ پھر جیسے کسی قوم کو مائوزے تنگ جیسے قائدین ملتے ہیں جو اپنی ذات کو بھلا کر برسوں تک لانگ مارچ کرتے ہیں اور اپنی بے مثل سعی و کاوش سے اپنی قوم کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ پھر قوموں کو جارج واشنگٹن اور ابراہام لنکن ملتے ہیں جو نفی ذات کے راز سے آشنا ہوتے ہیں اور پھر انکی درجہ بہ درجہ کاوشوں کے نتائج سے امریکا جیسی سپر پاور وجود میں آتی ہے، پھر قوموں کو نیلسن منڈیلا جیسے راہ نما ملا کرتے ہیں جو اپنی ذات کے لئے نہیں جیتے بلکہ قید و بند کی طویل صعوبتیں برداشت کرکے اپنے ملک کو خوشیاں،ترقیاں اور شادمانیاں فراہم کرتے ہیں۔ میں ماضی بعید کی روشن مثالوں میں نہیں جاتا کہ پھر تو معیار بہت ہی اونچا ہوجائے گا اور اس لئے بھی کہ ماضی قریب میں ہی ایسی بے شمار مثالیں برائے عمل موجود ہیں۔ پھر اسی طرح قوموں کو محمد علی جناح جیسے نایاب افراد ملتے ہیں جو نفی ء ذات کے گر سے آشنا ہوتے ہیں اور ایک فائیو اسٹار لائف اسٹائل، بے شمار مال و زر کے حصول کے مواقعوں اور بڑے سے بڑے دنیاوی مرتبوں کو اپنی قوم کے لئے بے نیازی سے ٹھوکر مار دیتے ہیں ایک اپنی جان پر غیروں اور دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کے بھی دیئے ہوئے بے شمار غم اور زخم سہتے ہیں لیکن اپنی قوم کے لئے ایک معجزہ بپا کرکے ہمیشہ کے لئے زندہء جاوید ہوجانے کی سعادتِ عظمی اور قائد اعظم کا مرتبہ پالیتے ہیں اور جاتے جاتے اپنی قابلیت اور محںت سے حاصل شدہ اپنی بے شمار دولت بھی اپنے بنائے ہوئے غریب وطن کے اداروں کو عطیہ کر جاتے ہیں۔ یہ ہوتے ہیں لیڈر اور قائد کہلانے کے حقدار لوگ۔ جن کا سب سے پہلا قدم اور سبق نفیء ذات کا ہوا کرتا ہے کہ اپنی ذات کو بھلا کر ہی تو سچائی اور اخلاص و کردار کی خوشبو عطا ہوتی ہے جو زندگی کے ہر ہر میدان میں کامیابی کے حصول کی مستند ضمانت ہوا کرتی ہےاور پھر انکے ماننے والے جب یہ دیکھتے ہیں کہ ہمارا قائد اپنی جان کو مشکل میں ڈال کر ،ہر قسم کی آسائش سے دور ہماری بہتری و بہبود کے لئے کوشش میں لگا ہوا ہے تو ان کا یقین بن جاتا ہے اور پھر وہ قیادت کے ایک اشارے پر ہنسی خوشی اپنی زندگیاں تک داؤ پر لگانے میں ذرا نہیں جھجھکتے۔
دور حاضر کے موجود قائدین میں بھی اگر ہم قرب و جوار کی بات کریں تو دو روشن مثالیں ہمیں نظر آتی ہیں ایک ترکی کے صدر جناب طیب اردگان اور دوسرے ملائیشیا کے جناب مہاتیر محمد، جب جند سال قبل ترکی میں فوجی بغاوت ہوئی تو ساری دنیا نے اپنے قائد سے ترکی کی عوام کی محبت کا ںطارہ کیا کہ جناب اردگان کےایک واٹس ایپ پیغام پر عوام مستانہ وار نکلے اور فوجی بغاوت ناکام ہوگئ۔ اسی طرح جناب مہاتیر محمد شاید ان چند نایاب ہستیوں میں سے ہیں جو بہ رضا و رغبت اپنی مرضی سے اپنے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کی طویل جد و جہد کے بعد مسند اقتدار سے خود ہی رخصت ہوئے لیکن چند سال بعد ہی قوم نے پکارا تو اس ضعیف العمری کے عالم میں بھی قوم اور ملک کی خدمت کے لئے اپنے آرام و آسائش کی پروا کئے بغیر واپس چلے آئے کیونکہ وہ بھی نفیء ذات کے رمز سے آشنا ہیں۔
اب اگر وطن عزیز کی بات کریں کہ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح اور شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان میرا نہیں خیال کہ کوئی لیڈر،صدر وزیر اعظم یا کوئی قئد ایسا آیا جس نے نفیء ذات کا سبق پڑھ رکھا ہو یا اس کا عملی مظاہرہ کرکے دکھایا ہو۔ یہ ایک طالبعلمانہ رائے ہے اور آپ کو اس سے اختلاف کرنے کا پورا حق ہے۔ ہاں مختلف خطابات رکھنے والے خود ساختہ رہنماء قوم ضرور سامنے آتے رہے اور اب بھی ہیں لیکن انہوں نے نفیء ذات کی بجائے سعیء ذات کا عملی مظاہرہ کیا اور قوم کا جو حال ہوا وہ آج آپ کے سامنے ہے۔(خرم علی عمران)۔۔