shartiya meetha | Imran Junior

مشن امپوسیبل

علی عمران جونیئر

دوستو،ہمارے ملک یا معاشرے میں زیادہ تر جوائنٹ فیملی سسٹم کا رواج ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں کیوں کہ یہ مشرق کی کچھ اپنی مخصوص ریت اور روایات ہیں جو صرف برصغیر پاک وہند میں پائی جاتی ہیں ۔اس لیے انہیں مشرقی روایات سے منسوب کیا گیا ہے مگر پچھلے چند برسوں میں ان کے خلاف کچھ مخصوص عناصر اپنے پروپیگنڈے میں لگے ہوئے ہیں، خصوصاً مغربی کلچر سے متاثرہ چند لوگ ہیں، ان روایات میں سب سے مضبوط مشرقی روایت مشترکہ خاندانی نظام ہے جسے جوائنٹ فیملی سسٹم بھی کہا جاتا ہے۔ جوائنٹ فیملی سسٹم اللہ تعالی کی طرف سے کسی نعمت سے کم نہیں، یہ قدرت کا ایک خوبصورت تحفہ ہے، یہی تو وہ نعمت ہے جس کے لیے یورپ ترستا رہتا ہے اور وہ خواہش اور ارمان کرتے ہیں کہ کاش! ہمارے ہاں بھی ایسا مضبوط خاندانی نظام ہوتا، وہاں کا خاندانی نظام تو کب کا ٹوٹ چکا ہے اور اب یورپی معاشرہ تنکوں کی مانند دریا

کی لہروں پر تیرتا رہتا ہے، اس نظام میں احساس ذمہ داری ہے، گھر کا ہر فرد گھر کی خاطر اپنے حصے کا کام کرتا ہے، اس طرح گھر قائم رہتا ہے اور گھر قائم رکھنے کے لئے فرد کو قربانی بھی دینی پڑتی ہے، ایک ایک فرد کی چھوٹی چھوٹی قربانیوں سے گھر اور خاندان قائم رہتا ہے، مشترکہ خاندان میں ساری ذمہ داری بڑوں پر عائد ہوتی ہیں، اگر بڑے سمجھدار ہوں تو گھر قائم بھی رہتا ہے اور گھر میں سکون بھی برقرار رہتا ہے۔

آپ کبھی نوٹ کیجیے گا، ان جوڑوں کی طلاق زیادہ جلدی ہوجاتی ہے جو ”جوائنٹ فیملی ”میں نہیں رہتے ہیں، کیوں کہ ان کے گھروں میں کوئی سمجھانے والا بزرگ یا بڑا نہیں ہوتا۔۔خواتین کی نہ ختم ہونے والی خواہشات نے بھی معاشرے کو جہنم میں تبدیل کیا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا، ڈرامہ سیریلز،فلموں نے گھر گاؤں اور کچی بستیوں میں رہنے والی لڑکیوں تک کے دل میں ”شاہ رخ خان”جیسا آئیڈیل پیدا کر دیا ہے۔گھریلو زندگی کی تباہی میں سب سے بڑا عنصر ناشکری بھی ہے۔ کم ہو یا زیادہ، ملے یا نہ ملے یا کبھی کم ملے پھر بھی ہر حال میں اپنے شوہر کی شکر گزار رہیں۔سب سے بڑی تباہی اس واٹس ایپ اور فیس بک سوشل میڈیا نے مچائی ہے۔پہلے لڑکیاں غصے میں ہوتی تھیں یا ناراض ہوتی تھیں تو ان کے پاس اماں ابا اور دیگر لوگوں تک رسائی کا کوئی ذریعہ نہیں ہوتا تھا۔شوہر شام میں گھر آتا، بیوی کا ہاتھ تھام کر محبت کے چار جملے بولتا، کبھی آئسکریم کھلانے لے جاتا اور کبھی ٹہلنے کے بہانے کچھ دیر کا ساتھ مل جاتا اور اس طرح دن بھر کا غصہ اور شکایات رفع ہوجایا کرتی تھیں۔لیکن ابھی ادھر غصہ آیا نہیں اور ادھر واٹس ایپ پر سارے گھر والوں تک پہنچا نہیں۔ یہاں میڈم صاحبہ کا ”موڈ آف ”ہوا اور ادھر فیس بک پر اسٹیٹس اپ لوڈ ہو گیا۔ اور اس کے بعد یہ سوشل میڈیا کا جادو وہ وہ گل کھلاتا ہے کہ پورے کا پورا خاندان تباہ و برباد ہوجاتا ہے یا نتیجہ خود کشیوں کی صورت میں نکلتا ہے۔

احمد میاں کی شادی کو تین برس بیت گئے، جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہیں،شاید اسی لیے اپنی بیگم صاحبہ کی آج تک کوئی فرمائش پوری نہ کرپائے۔شادی کے دو ہفتے بعد ان کی بیوی نے گلاب جامن کھانے کی فرمائش کی تواحمد میاں آفس سے گھر آتے ہوئے آدھا کلو گلاب جامن لے کر خوشی خوشی جیسے ہی گھر داخل ہوئے،نیچے اماں نے دیکھ لیا،آواز لگادی، یہ شاپر میں کیا ہے؟پھر اماں نے جب شاپر چیک کیاتو ایک پاؤ گلاب جامن وہیں ”خلاص”۔۔خیرباقی کی ایک پاؤ جیسے ہی فرسٹ فلور پر چڑھے بڑے بھائی کی بیٹی نے روک لیا،چاچو مجھے بھی دو نا گلاب جامن۔۔یہ کہہ کر اس نے تھیلی کھول کر دو گلاب جامن اپنے معدے میں اتارلیں،سکینڈ فلور پر چھوٹی بھابھی کو خوشبو آگئی اور تھیلی خالی ہوگئی،تھرڈ فلور پر جب اپنے کمرے میںخالی ہاتھ داخل ہوئے تو ان کی نئی نویلی دلہن نے خفا ہوکر منہ پھیر لیا۔احمد میاں کو اپنی بیگم کو منانے میں پورے دو دن لگے،وہ بھی اس شرط پر کہ فریسکو کے دہی بڑے لائیں گے۔احمد میاں کھلے عام گلاب جامن لانے کا انجام دیکھ چکے تھے تو اگلے دن ،دہی بڑے ہینڈ بیگ میں چھپا کر گھر لائے۔نیچے اماں سے تو بچ گئے لیکن فرسٹ فلور پر بڑی بھابھی جو اپنے شوہر سے ہر دوسرے روزفریسکو کے دہی بڑے منگواکر کھایا کرتی تھیں انہیں خوشبو آگئی،دیورجی کے بیگ سے دہی بڑے کا شاپر برآمد کرالیا۔مرتے کیا نہ کرتے، احمد میاں سرجھکائے بوجھل قدموں سے اپنے روم میں داخل ہوئے،کارگزاری سن کر بیوی ناراض ہوکر سوگئی۔احمد میاں کو بھی بھوکا سونا پڑا۔اسی طرح سارے مشن۔۔ مشن امپوسیبل بنتے گئے۔ایک سال تک تجربات کی مسلسل ناکامی کے بعد پھر وہ جو چیز لاتے، چار جگہ لاتے، ایک ماں کیلئے، دوسری بڑی بھابھی، تیسری منجھلی بھابھی اور چوتھا اپنی بیگم کے لئے۔اب بیگم تو خوشی سے بھاری ہوجاتی لیکن جیب ہلکی ہوجاتی۔مہینے کے آخری دنوں میں جب بجٹ آؤٹ ہوا تو ان کی بیوی نے حساب مانگ لیا اور جب سچائی سے حساب دیا تو ان کی بیگم کا پارہ چڑھ گیا،جس کے نتیجے میں احمد میاں کو بخار چڑھ گیا، اسی طرح دو سال گزر گئے، ایک بچے کے باپ بھی بن گئے لیکن مشن کامیاب نہ ہوسکا۔تین روز پہلے کی بات ہے، احمد میاں سے بیگم نے فرمائش کی کہ مزیدارحلیم لائیں،ساتھ ہی الٹی میٹم دیا کہ اگر ایک کلو حلیم مجھ تک نہ پہنچا تو پھر اپنا بوریا بستر الگ کرلینا۔یہ دھمکی سن کر احمد میاں اندر سے کانپ اتھے، مشن امپوسیبل کو پوسیبل بنانے کی ترکیب سوچنے لگے۔دماغ کی چولیں جب ہل گئیں تو مجبور ہوکر اپنے ابا کی خدمت میںحاضری دی اور سارا ماجرا بتاکر ہاتھ جوڑ کرکسی ترکیب کا پوچھا۔ابا نے انہیں ترکیب بتادی۔احمد میاں نے مزیدار حلیم خریدا، اپنے ٹفن میں رکھااسے کپڑے سے لپیٹا ، اس کی پوٹلی بنائی اور ابا کی بتائی ترکیب کے مطابق گھر میں داخل ہونے سے پہلے اس کی پوٹلی بناکر پوری طاقت سے تھرڈ فلور کی بالکونی کا نشانہ لیا۔اور پوٹلی اچھال دی۔پھر خوشی خوشی اندر داخل ہوئے، اماں کے پاس حاضری دی، پہلی منزل پر بڑی بھابھی کو بیگ کھول کر دکھایا، دوسری منزل پر چھوٹی بھابھی کو تلاشی دی۔تھرڈ فلور پر ابا دھلے ہوئے کپڑوں کا ڈھیر اٹھائے چھت سے اترتے مل گئے، انہوں نے اشارے سے پوچھا، احمد میاں نے وکٹری کا نشان بنایا۔اور جلدی سے بالکونی پہنچے لیکن وہاں کوئی پوٹلی نہیں تھی، بیگم سے پوچھا تو اس نے بتایا، ابا چند منٹ پہلے ہی کپڑے کی پوٹلی لے کر گئے ہیں۔احمد میاں دوڑتے ہوئے نیچے گئے اور یہ دیکھ کر انہیں غش آگیا کہ۔۔ابا میاں بڑے پیار سے مزیدار حلیم چسکے لے لے کر کھارہے تھے۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگر آپ کا بیٹا کال آنے پر ہیلو،ہیلو کرتا ہوا باہر نکل جائے تو سمجھ لیں یہ کال آپ کی ہونے والی بہو کی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں