تحریر: جاوید چودھری۔۔
جنرل مرزا اسلم بیگ آرمی چیف بھی رہے اور 1949 سے 2021 تک پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین گواہ بھی‘ ان کی بائیو گرافی ’’اقتدار کی مجبوریاں‘‘ پچھلے دنوں مارکیٹ میں آئی اور اس نے تہلکہ مچا دیا۔کرنل اشفاق حسین نے یہ کتاب طویل انٹرویوز کے بعد تحریر کی‘ یہ کتاب انکشافات بھی ہے اور یہ مختلف اوقات میں ’’اقتدار کی مجبوریوں‘‘ کا اعترافی بیان بھی‘ میں ہر اعتراف کے بعد سکتے کا شکار ہو گیا اور میں اب آپ کو بھی اپنے سکتے میں شریک کرنا چاہتا ہوں۔
جنرل اسلم بیگ کے آباؤ اجداد چیچنیا سے ازبکستان آئے‘ وادی فرغانہ میں آباد ہوئے‘ ظہیر الدین بابر کی فوج کے ساتھ ہندوستان آئے اور جہانگیر نے خاندان کے بزرگ مرزا مسلم بیگ کو اعظم گڑھ کی جاگیر دے دی‘ خاندان 1857تک مغل دربار سے وابستہ رہا‘ اسلم بیگ کے والد وکیل تھے‘ یہ دن بھر پریکٹس کرتے تھے اور شام کوٹینس کھیلتے تھے‘ جنرل صاحب کے دوبھائی 1947 میں کراچی شفٹ ہوئے اور سرکاری ملازم ہو گئے تاہم جنرل صاحب 1949 میں پاکستان آئے۔
آپ حیران کن واقعہ ملاحظہ کیجیے‘ وہ شخص جو آگے چل کر پاک آرمی کا چیف بنا فوج نے اسے بھرتی کے وقت میڈیکلی ان فٹ قرار دے دیا تھا‘نوجوان اسلم بیگ کے دل کی دھڑکن آٹھ دس دھڑکنوں کے بعد مس ہوتی تھی‘ میڈیکل لینگویج میں اسے (Systolic Heart) کہا جاتا ہے‘ اسلم بیگ کے بھائی نے اپیل کی‘ بورڈ بیٹھا اور ان سے پوچھا گیا ’’آپ کو یہ بیماری کب سے ہے‘‘ نوجوان اسلم بیگ نے جواب دیا ’’ میںپانچ چھ ماہ پہلے جب اپنے ہزاروں ساتھیوں اور فیملی ممبرز کو بھارت چھوڑ کر آ رہا تھا تو میرے دل کی چند دھڑکنیں ان کے ساتھ وہیں رہ گئیں۔وہ دھڑکنیں اب مس ہو رہی ہیں‘‘ اس جواب نے بورڈ کے ارکان کی دھڑکنیں بھی منتشر کر دیں اور یوں اسلم بیگ کو اوکے فار آرمی کر دیا گیا‘ یہ پی ایم اے اکیڈمی پہنچے اور پھر بالآخر دنیا کی بہترین فوج کے کمانڈر انچیف بنے‘ یہ واقعہ ثابت کرتا ہے قدرت آپ کو جہاں تک لے جانا چاہتی ہے یہ فیصلہ کسی انسان کے ہاتھ میں نہیں ہوتا‘ اللہ اسباب پیدا کرتا رہتا ہے‘ ہمیں بس رکنا نہیں چاہیے‘ گیواپ نہیں کرناچاہیے‘ جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا۔
پی ایم اے اکیڈمی میں اس دور میں ریکنگ ہوتی تھی لیکن کیڈٹس کی بے عزتی نہیں کی جاتی تھی‘ یہ روایت بعد میں پڑی‘ اس دور میں کسی ایک کیڈٹ کو ڈبیٹنگ سوسائٹی کا صدر چنا جاتا تھا‘وہ صدر ہال میں آخر میں داخل ہوتا تھا اور تمام کیڈٹس‘ افسر‘ پلاٹون کمانڈر اور بٹالین کمانڈر تک اٹھ کر اس کا استقبال کرتے تھے‘ یہ روایت بھی ختم ہو چکی ہے‘ اسلم بیگ جب ایس ایس جی میں آئے تو کرنل مٹھا نے ان کا انٹرویو کیا اور ان سے پہلا سوال یہ کیا ’’آپ نے پچھلے چھ ماہ میں کون کون سی کتابیں پڑھی ہیں‘‘ آپ آج سے ستر سال پہلے ملک کا انٹلیکچول لیول دیکھیں‘ ایس ایس جی کے انٹرویو میں بھی کتابوں کے بارے میں پوچھا جاتا تھا جب کہ آج پروفیسروں سے بھی یہ سوال نہیں کیا جاتا‘ جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا۔
ایس ایس جی (اسپیشل سروسز گروپ) امریکا نے سوویت یونین کی وجہ سے بنایا تھا‘ امریکی کرنل ڈان نبٹے آیا‘ پورے پاکستان کا دورہ کیا اور افغانستان کے نزدیک چراٹ اور اٹک قلعہ کا انتخاب کیا‘ ایوب خان کے دور میں انٹیلی جینس کی رپورٹ آئی‘ نواب آف دیر نے افغانستان کے ساتھ مل کر 25 ہزار جوانوں کا لشکر تیار کیا ہے۔
ہمیں ریاست دیر پر آپریشن کا حکم ہوا‘ فوج گئی تو پتا چلا تمام اطلاعات غلط تھیں‘ نواب آف دیر اپنی فیملی کے ساتھ اکیلا تھا اور اس نے مزاحمت کے بغیر گرفتاری دے دی‘ جنرل صاحب نے انکشاف کیا‘ پشتون روایات ہیں یہ لوگ جب ناراض ہوتے ہیں تو یہ رائفل لے کر پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں‘ ہم اسے بغاوت سمجھتے ہیں اور ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر دیتے ہیں‘ ہم نے یہ غلطی قبائلی علاقوں میں بھی کی اور بلوچستان میں بھی‘ امریکیوں نے 2005میں جنرل پرویز مشرف کو بتایا تھا تم پر حملہ بیت اللہ محسود نے کیا اور وہ وزیرستان میں ہے۔
یہ انفارمیشن دھوکا تھی‘ جنرل مشرف نے قبائلی علاقوں میں آپریشن شروع کر دیا‘ آخر میں جامعہ حفصہ کی بچیوں کو بھی شہید کر دیا اور یوں پورے ملک میں دہشت گردی شروع ہو گئی‘ جنرل اسلم بیگ نے لکھا‘ پاکستان کی کل آبادی کا 53 فیصد مشرقی پاکستان میں رہتا تھا‘ 1970 کے الیکشنز کے بعد حکومت شیخ مجیب الرحمن کا حق تھا لیکن ہم نے یہ حق نہ دے کر ملک توڑ دیا‘ ہم نے مشرقی پاکستان میں شروع سے نفرت کے جذبات پیدا کر دیے تھے‘ وہ تین اطراف سے بھارت میں گھرا ہوا تھا‘ ساڑھے چار ہزار کلومیٹر سرحد تھی لیکن پورے مشرقی پاکستان کی حفاظت کے لیے صرف ایک ڈویژن فوج تھی‘ 1964 کے الیکشنز میں بنگالیوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ دیا‘ وہ مشرقی پاکستان میں بہت مقبول تھیں‘ انھیں دھاندلی کے ذریعے ہرایا گیا جس سے مشرقی پاکستان میں بددلی پھیل گئی۔
جنرل اسلم بیگ نے مشرقی پاکستان کے آپریشن کے بارے میں بڑی تفصیل سے لکھا‘ ان کا کہنا تھا‘ میں کومیلا میں گیا‘ مجھے پتا چلا وہاں کالج کی بلڈنگ میں 27بنگالی افسر قید ہیں‘ میں نے دیکھا کرنل ڈاکٹر حسین بھی ان میں شامل ہیں‘ یہ چراٹ میں ہمارے ساتھ آر ایم او تھے‘ یہ مجھ سے مل کر رو پڑے‘ میں بھی رو پڑا‘ میں نے ان افسروں کو اگلے دن رہا کرایا‘کرنل ظہیر عالم خان شیخ مجیب الرحمن کو ان کے گھر سے گرفتار کرنے گئے‘ کسی نے فوج کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کی‘ شیخ مجیب الرحمن باہر آئے اور اطمینان سے کہا‘ کیا میں اپنی فیملی کو خدا حافظ کہہ سکتا ہوں۔
کرنل ظہیر عالم نے انھیں اجازت دے دی‘ فوج انھیں لے کر نکلی تو انھوں نے کہا‘ میرا سگار پائپ گھر پر رہ گیا ہے‘ آپ اگر اجازت دیں تو میں یہ بھی لے لوں‘ فوج انھیں واپس لے کر گئی اور انھوں نے اپنا پائپ بھی لے لیا‘ الیکشنز میں مشرقی پاکستان سے عوامی لیگ نے 153 نشستوں میں سے 151 سیٹیں حاصل کیں‘ ایک سیٹ مسلم لیگ کے نورالامین اور دوسری چکمہ قبیلے کے راجہ تری دیورائے نے لی‘ باقی سب عوامی لیگ کے پاس تھیں جب کہ ذوالفقار علی بھٹو نے صرف 88 سیٹیں لی تھیں۔
یہ قومی اسمبلی کا 28 فیصد بنتا تھا چناں چہ حکومت عوامی لیگ کا حق تھا‘ جنرل اسلم بیگ نے انکشاف کیا‘ فوج نے اپریل مئی 1971 میں پورے مشرقی پاکستان کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا‘ ہمارے جنرل آفیسر کمانڈنگ (جی او سی) جنرل نیازی کے پاس گئے اور ان سے کہا‘ ہمیں اب اقتدار سول انتظامیہ کے حوالے کر دینا چاہیے‘ جنرل نیازی طاقت کے نشے میں مدہوش تھا‘ اس نے غلط ریمارکس دیے‘ دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی اور جی او سی اٹھ کر آگئے‘ تین دن بعد اس کو ہٹا دیا گیا۔
اگلے جی او سی نے پرانے کمانڈنگ آفیسر سے سبق سیکھا اور یہ جی ایچ کیواور ایسٹرن کمانڈ کو سب اچھا کی رپورٹ دینے لگا‘ رپورٹ میں تیار کرتا تھا لیکن میری رپورٹ کو تبدیل کرکے آگے بھجوادیا جاتا تھا‘ میں نے ایک دن رپورٹس میں ردوبدل پر اعتراض کیا تو جی او سی نے مجھے گیٹ آؤٹ کہہ کر باہر نکال دیا اور پھر میرا تبادلہ ٹرانزٹ کیمپ راولپنڈی میں کر دیا‘ یہ کھڈے لائین پوسٹنگ تھی‘ 1971 کی جنگ شروع ہوئی تو مجھے بدھوملی بھجوادیا گیا‘ میں وہاں پہنچا تو سرحد کے قریب ریسٹ ہاؤس میں کھاد کی بوریاں اور کھیتی باڑی کا سامان پڑا تھا۔باہر درجن بھر ٹریکٹر اور بلڈوزر بھی کھڑے تھے‘ پتا چلا فوجی جرنیلوں نے 20 مربع زمین پر گندم بوئی ہوئی ہے اور ایک آنریری کیپٹن اس کا انچارج ہے‘ میں نے اسے ریسٹ ہاؤس خالی کرنے کا حکم دے دیا‘ مجھے دو گھنٹوں میں جی او سی کا فون آ گیا‘ اس نے کہا ’’بیگ انھیں کیوں تنگ کر رہے ہو‘ رہنے دو‘‘ میں نے جواب دیا ’’سر یہ سرحدی علاقہ ہے‘ ہم نے یہاں دفاعی اقدامات کرنے ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گیا‘ جنرل اسلم بیگ نے دعویٰ کیا ’’ہم 1965 کی جنگ جیت سکتے تھے لیکن ناکام رہے جب کہ 1971 کی جنگ عسکری منصوبہ بندی کی بدترین مثال تھی۔
ہم نے اس میں آدھا ملک گنوا دیا‘ جنگ کی تیاریاں عبرت ناک حد تک ناقص تھیں‘‘ جنرل اسلم بیگ نے دعویٰ کیا ’’1975 میں جنرل ضیاء الحق کور کمانڈر ملتان تھے‘ ذوالفقار علی بھٹو نواب صادق حسین قریشی کے گھر ٹھہرے ہوئے تھے‘ اسٹاف نے بتایا‘ جنرل ضیاء الحق ملنا چاہتے ہیں‘ بھٹو صاحب نے جواب دیا‘ وہ ابھی توملے ہیں‘ یہ دوبارہ کیوں ملنا چاہتے ہیں‘ بہرحال جنرل ضیاء الحق دوبارہ آئے اور وزیراعظم کے سامنے کھڑے ہو کر کہا ’’ سر میں وعدہ کرتا ہوں میں ہر قسم کے حالات میں آپ کا وفادار رہوں گا اور آپ جو ذمے داری بھی مجھے دیں گے میں اس پر عمل کروں گا‘‘ بھٹو صاحب گہری سوچ میں چلے گئے اور انھوں نے اس دن جنرل ضیاء کو اگلا آرمی چیف بنانے کافیصلہ کر لیا اور پھر اسی جنرل ضیاء نے آگے چل کر بھٹو صاحب کو پھانسی دے دی۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔