alu timatar lelo sahafi lelo

میرشکیل کی گرفتاری، کارکنوں کیلئے بھاری؟؟

تحریر: محمد نواز طاہر۔۔

قومی احتساب بیورو ( نیب )نے جنگ اور جیو میڈیا گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو اراضی کیس میں گرفتار کرلیا ہے ۔ اس گرفتاری پر ملک کو دو بڑی سیاسی جماعتوں ے اظہارِ مذمت کے سرکاری طور پر بیان جاری کیے ہیں اور صحافتی برادری اس گرفتاری پر واضح تقسیم دکھائی دیتی ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی دو بڑی جماعتیں ہیں اور نیب زدہ بھی ہیں ، ان میں سے مسلم لیگ ن وہ جماعت ہے جو نیب پر فخر کیا کرتی تھی اور پیپلز پارٹی اس پر تنقید کیا کرتی تھی ، پھر جب ن لیگ خود نیب زدہ ہوئی تو اس نے بھی کڑی تنقید شروع کردی۔ ملک کی دو بڑی جماعتوں کے موقف کو رد کرنا آسان نہیں لیکن ان عوامی جماعتوں سے عوام صرف ایک سوال ہی پوچھتے ہیں کہ جب نیب بہت بُرا ادارہ تھا تو ن لیگ کے سیاسی انتقام کا نشانہ بننے والی پیپلز پارٹی نے اپنے دورِ اقتدار میں اسے ختم کیوں نہ کیا ، یہی سوال ن لیگ سے ہے کہ اگر یہ ادارہ بُرا ہے تو بنایا کس نے تھا؟ سیف الرحمان کے ذریعے پیپلز پارٹی کو  خوار کس نے کیا تھا ؟ اسی ادارے کی کارروائی اپنے مقصد کے لئے قانونی طریقے سے استعمال کرنے کی خواہش میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک ذہین ترین جج ملک قیوم کیوں قربان ہوگئے تھے ؟ میر شکیل الرحمان بھی سیف الرحمان کے سا منے جھک چکے ہیں ، تب صحافیوں کی بڑی تعداد میر شکیل الرحمان کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی اور اُس وقت کی نوازشریف کی حکومت کو مفاہمت کا راستہ اختیار کرنا پڑا تھا۔ احتساب کا قانون بھی موجود رہا اور ادارہ بھی بس اپنے اپنے حساب سے اسے اچھا یا بُرا کہا گیا بہر حال یہ ایک الگ بحث ہے ۔

اب دو بڑی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ تیسری بڑی جماعت یا قوت صحافتی برادری کی ہے جو مالکان اور کارکنوں کے دو حصوں پر مشتمل ہے ۔ مالکان کس کے ساتھ کس حد تک کھڑے ہوتے ہیں تو ابھی واضح نہیں لیکن ورکرز واضح طور پر تقسیم ہیں ۔ اس تقسیم کی وجہ میر شکیل الرحمان خود ہیں جو کارکنوں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے بعد ٹشو پیپر کی طرح پھینکتے رہے ہیں ، کارکن یاد کرتے ہیں کہ کس طرح میر شکیل الرحمان لاہور پریس کلب میں آنسو بہاتے تھے ؟ جیسے ہی ان کا مسئلہ حل ہوا تو سب سے پہلے انہوں نے کارکنوں پر تلوار چلادی بڑی تعداد میں کارکنوں کو نوکری سے نکال دیا اور جب انہیں یاد دلایا گیا کہ آپ نے کارکنوں کے حوالے سے کچھ وعدے کیے تھے تو انہوں نے مختصر جواب ’ میں وعدے سے مُکر گیا‘ سے سب کو خاموش کرادیا ۔ میر شکیل الرحمان کارکنوں پر یہ” اعتماد‘ ‘ ایک سے زائد بار نہ صرف قائم بلکہ پختہ کرچکے ہیں ، ان حالات میں ماسوائے جنگ گروپ اور میر شکیل الرحمان کے پُر اعتماد کارکن بھلے وہ مختلف اداروں میں کام کررہے ہیں ، وہ میر شکیل الرحمان کے ساتھ وفاداری نبھانے کی بھر پور کوشش کریں گے جن میں سے کچھ اپنی ملازمت کی وجہ سے مجبوراً بھی ہر ہاں میں ہاں ملائیں گے لیکن کیا سارے کے سارے کارکن جنگ جیو گروپ کے ملازمین ہیں ،؟ وہ کارکن کہاں جائیں گے جنھیں پچھلے سال ہی بے روزگار کردیا گیا تھا ؟ کیا وہ میر شکیل الرحمان کے ساتھ کھڑے ہونگے ؟ ان کے ساتھی کس کے ساتھ کھڑے ہونگے ؟ ان کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے کیسے میر شکیل الرحمان کی حمایت میں کھڑے ہونگے ؟ بلکہ جنگ کے متاثرین نے تو ایک بیان جاری بھی کردیا ہے جس میں ساتھیوں سے درخواست کی گئی ہے کہ میر شکیل الرحمان کی حمایت نہ کی جائے ، ۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں ویج بورڈ کی سفارشات ( ویج ایوارڈ) آئی ہیں لیکن جنگ اور جیو گروپ نے نہ صرف یہ کہ اس کا اطلاق نہیں کیا بلکہ تنخواہیں بھی اپ ڈیٹ نہیں کیں اور گرفتاری کے بعد سے کارکنوں کو پھر سے بلیک میل کیا جانے لگا ہے کہ مالک کی گرفتاری کے نتیجے میں تنخواہوں کی ادائیگی مشکل ہوجائے گی اس لئے میر شکیل الرحمان کی خلاصی کے لئے سڑکوں پر آیا جائے لیکن یہ جواز سبھی کارکنوں کو سڑکوں پر نہیں لاسکے گا ، ایک اور خیا ل کا اظہار بلکہ جواز یہ گھڑا جارہا ہے کہ میر شکیل الرحمان کےءبعد مزید میڈیامالکان کی گرفتاری ہوسکتی ہے جس سے میڈیا انڈسٹری بحران کا شکار ہوگی اور یہ گرفتاریاں درحقیقت صحافت کا گلا گھونٹنے کی کوشش ہے ، یہ جواز قطعی طور پرنا قابلِ قبول ہے کیونکہ کسی بھی شخص کو کسی الزام کے بغیر کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے ؟ کیا ڈان گروپ کے حمید ہارون کو گرفتار کیا جارہا ہے ؟ عارف نظامی کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوچکے ہیں ؟ قاضی اسد گرفتار کیے جارہے ہیں ؟ عوامی آواز کے چیف ایڈیٹرجبار خٹک گرفتار ہیں ؟ تو جواب نفی میں ہے کیونکہ بظاہر ان لوگوں پر ایسے الزامات نہیں ہیں ۔ جس نے گاجر کھائی نہیں وہ پیٹ درد کیوں محسوس کرے گا ؟ یہی کارکنوں کی واضح اکثریت کا موقف ہے ، اور پھر یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ کارکنوں کی تنظیمیں سن دوہزار پانچ تک حکومت کو یہ پیشکش کرتی رہی ہیں کہ صحافیوں کا احتساب بھی کیا جائے جس کا آغاز صحافیوں کی قیادت سے کیا جائے اور اس کے بعد میڈیا مالکان کے اثاثوں کا حساب لیا جائے مگر نامعلوم وجوہ پر پی ایف یو جے اور ایپنک نے مالکان کے اثاثوں کی چھان بین اور احتساب کا نعرہ لگانا بند کردیا ، ایسا کرنے والے لیڈر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ، وہ عدالتوں میں بھی کارکنوں کے مفاد کے خلاف مالکان کی حمایت کرتے دیکھے گئے ہیں اور کارکن ان سے پوری طرح آگاہ بھی ہیں اور خیال ہے کہ وہی لیڈر پھر آگے آگے ہونگے ! اگر کسی نے قابلِ گرفت کوئی کام کیا ہے تو” چور کی داڑھی میں تنکا ‘ کے مصداق ، یہ الگ بات ہے ، دوسری بات یہ کہ ابھی زیادہ پرانی بات نہیں کہ بول میڈیا گروپ کے سربراہ شعیب شیخ کو بھی گرفتار کیا گیا ، اس گرفتاری میں کس کا کتنا کردار تھا ؟ یہ یاد دلانے کی شاےد ضرورت ہی نہیں ۔۔

میر شکیل الرحمان کی گرفتاری اور اس پر احتجاج کے معاملے پر جس بات کا اندیشہ ہے وہ کارکنوں کی مزید تقسیم ہے اور اگر یہ تقسیم ہوئی تو کارکن آئندہ اپنے کسی حق کے لئے کبھی اکٹھے نہیں ہوسکیں گے ، اس تقسیم کا ملک کے تمام بڑے پریس کلبوں پر بھی گہرا اثر ہوگا ۔ اِن حالات میں کارکنوں کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ وہ اپنا اتحاد جتنا بھی رہ گیا ہے ، برقراررکھنے کی کوشش کریں اور کارکنوں کی تنظیموں کو بھی اس مسئلے کو آزادی ¾ صحافت کا مسئلہ قراردینے سے اجتناب کرنا ہوگا ، انہیں کسی کی گرفتاری سے زیادہ بجھے ہوئے چولہے اور چولھے بجھنے سے بھوکوں مر جانے والے کارکنوں کی قبروں کی طرف دیکھنا ہوگا ۔جس کسی کے خلاف بھی کوئی قانونی کارروائی ہوتی ہے وہ اس کا قانون کی مدد سے دفاع کرے ۔(محمد نوازطاہر)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں