تحریر: جمیل چشتی۔۔
میرشکیل الرحمان جوڈیشل ریمانڈ کے بعد جیل کی بجائے سروسز اسپتال منتقل کردیئے گئے ہیں ۔ذرائع کے مطابق انہیں وہاں وی وی آئی پی وارڈ میں رکھاگیا ہے۔۔ذرائع نے یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ ان کا علاج زکوۃ فنڈ سے ہوگا یعنی ورکروں کو ملازمت سے بیدخل کرنے والے تھے اور کئی کی ماہ کی تنخواہیں نہ دینے والے اس مالک کا علاج اب سرکاری فنڈ سے ہوگا سب دیکھ رہے ہیں کہ ایک ایک کھرب پتی ایک دم اتنا غریب ہو گیا کہ اسے زکوۃ فنڈ سے پیسوں کی ضرورت پڑ گئی میڈیا میں اشتہارت کی مبینہ بندش کے بعد اگر ایک مالک اس قدر غریب ہو سکتا ہے تو ذرا ورکروں کے گھروں کی حالت کا اندازہ لگا لیں میں میر شکیل الرحمان کو 1981 سے جانتا ہوں جب بڑے میر صاحب نے انہیں لاہور سے جنگ کے اجراء کے لیے بھیجا بیچارہ شکیل الرحمان شروع سے ہی غریب تھا سرخ رنگ کی سپورٹس کار ان کے پاس ہوتی اور وہ تیز ڈرائیونگ کرتے ہوئے لاہور کی سڑکوں پر پھرتے رہتے میں نے جب پہلے دن انہیں دیکھا اور انہیں سنا تو مجھے ایک جنونی ا نسان لگا جسے بہت جلد بڑا بننے کا شوق تھا وہ پوری ٹیم سے کام لیتے تھے لیکن اس کے باوجود ان کی کوشش ہوتی کہ وہ اکیلے اونچی اڑان بھریں اسی لیے انہوں نے بہت جلدی روزنامہ جنگ لاہور میں اپنی لابی بنا لی یعنی اپنے والد گرامی کی پوری ٹیم کو کچھ عرصے بعد ہی الوداع کہدیا شورش ملک اور رحمان ملک راولپنڈی واپس بھیج دیئے گئے اندرونی صفات ہر کام کرنے والے سب ایڈیٹر اطہر مسعود صاحب کو نیوز ایڈیٹر بنا دیا گیا اسی طرح چیف رپورٹر فاروق صاحب کو ہٹا کر کراچی سے ساتھ آنے والے انجم رشید صاحب کو چیف رپورٹر بنا دیا گیا اور آہستہ آہستہ بڑے میر صاحب کی ساری لابی فارغ ہوگئی اور ایک طرح سے انہوں نے جنگ لاہور پر اپنا تسلط قائم کر لیا یہ ان کی پہلی فتح تھی ان کے بڑے بھائی جاوید الرحمان صاحب کا تو عمل دخل تھا ہی نہیں پہلی بڑی کامیابی کے بعد انہوں نے اپنی لابی کو مزید مضبوط کیا اور پھر جنگ لاہور اور کے اکلوتے وارث بن گئے انہوں نے اطہر مسعود صاحب کو ایگزیکٹو ایڈیٹر بنا دیا علامہ اقبال روڈ پر واقعہ کرائے کی بلڈنگ سے شروع ہونے والے اس اخبار کو بعدازاں ڈیوس روڈ اپنی بلڈنگ بے میں شفٹ کر دیا گیا جہاں روزنامہ جنگ کے ورکروں نے راتیں جاگ کر محنت کرکے کے کام کیا وہاں میر شکیل الرحمان کے لئے یے یہ دور اس حوالے سے اچھا ثابت ہوا کیونکہ روزنامہ مساوات بند ہوچکا تھا روزنامہ جنگ کو مساوات کی ریڈرشپ مل گئی اور اس کی سرکولیشن میں بہت جلد اضافہ ہوتا چلا گیا اس کے بعد میرشکیل پرنٹ میڈیا کا مضبوط ترین نام بن کر سامنے آیا ۔تب انہوں نے بہت زیادہ طاقت حاصل کرلی تھی اور جب کسی کے پاس طاقت آ جائے تو یہ نشہ بہت برا ہوتا ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ طاقت اپنا راستہ خود بناتی ہے اس کے بعد یہ طاقت اپنے راستے بناتی گی اور پھر حکومتوں کو بنانے اور گرانے کا کام بھی شروع کردیا گیا یہی وجہ ہے کہ کبھی نواز شریف ان کے بہت قریب ہوتے ہیں اور کبھی یہ نوبت آتی ہے کہ نواز شریف صاحب کی کوشش ہوتی ہے کہ روزنامہ جنگ بند کر دیا جائے ماضی کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں روزنامہ جنگ ایک صفحہ کا بھی ہو گیا تھا ڈیوس روڈ بلڈنگ پر اپنا عالیشان دفتر بنانے والے شکیل الرحمٰن پر جب قبضہ کا جنون سوار ہوتا ہے تو وہ پھر کراچی ہیڈافیس منتقل کر دیتے ہیں والد محترم کے انتقال کے بعد ان کی کرسی سنبھال لیتے ہیں اس کے بعد وہ جیو شروع کرتے ہیں اور اسی دوران ان کے مبینہ غیر ملکی مراسم سامنے آتے ہیں اور یہی مراسم متنازعہ ہو جاتے ہیں ان کی تفصیلات میں بعد میں بیان کروں گا لیکن یہاں ایک بات قابل ذکر ہے یہ جو لوگ میر شکیل الرحمن صاحب کے ساتھ چلے آہستہ آہستہ ایک طرف ہوتے گئے وہ لوگ آگے آگئے آئے جو یا کسی سیاسی سی پارٹی کے وفادار ہیں اور یا ان کا تعلق مبینہ خصوصی لوگوں سے ہے اور میری ذاتی رائے میں انہی لوگوں کی وجہ سے میر شکیل الرحمان جیسا مضبوط آدمی آج قید میں ہے۔۔۔میر شکیل الرحمان صاحب صاحب کے کن کن لوگوں سے تعلقات تھےَ؟؟ان پر کیا کیا الزامات لگے اور کن قوتوں ان کی صلح کرائی؟؟اس کے علاوہ اور بہت سے دلچسپ واقعات بہت جلدی پیش کیے جائیں گے میں یہ بھی بتاؤں گا کہ وہ خفیہ ہاتھ کون سے ہیں۔۔(جمیل چشتی)۔۔
(جمیل چشتی صاحب کا شمار لاہور کے سینئر ترین صحافیوں میں ہوتا ہے، وہ کئی واقعات ہیں عینی شاہد ہیں، باخبر صحافی ہیں، اپنی وال پر بیتی یادیں بھی لکھتے رہتے ہیں۔۔یہ تحریر ان کی ٹائم لائن سے لی گئی ہے، جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔علی عمران جونیئر)۔۔