لاہور ہائیکورٹ نے جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری اور احتساب عدالت سے جسمانی ریمانڈ لینے کے خلاف اور ضمانت پر رہائی کی درخواستوں پر سماعت 7اپریل تک ملتوی کردی گئی۔لاہور ہائیکورٹ کےجسٹس سردار احمد نعیم کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے آج میر شکیل الرحمٰن اور ان کی اہلیہ شاہینہ شکیل کی درخواستوں پر سماعت کی جس میں چیئرمین نیب، ڈی جی نیب، احتساب عدالت کے جج اور دیگر کو فریق بنایا گیاہے۔ کیس کی سماعت کے دوران میر شکیل الرحمٰن کے وکیل معروف قانون دان اعتزاز احسن نے عدالت میں اپنے دلائل مکمل کیے، آئندہ سماعت پر نیب کے وکیل جوابی دلائل دیں گے۔نیب کی طرف سے اسپیشل پراسیکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے عدالت میں جواب جمع کرا دیا، بیرسٹر اعتزاز احسن نے اپنے دلائل میں کہا کہ میر شکیل الرحمٰن کو 3مارچ کو نیب نے نوٹس دیا کہ 5مارچ کو پیش ہوں ، یہ نوٹس ڈپٹی ڈائریکٹر ویری فکیشن کی طرف سے تھا، جس کا مقصد شکایت کی تصدیق کرنا تھا ۔میر شکیل الرحمٰن 5مارچ کو نیب میں پیش ہوئے، قانوناً یہ ضروری تھا کہ ان کے خلاف شکایت کی تصدیق کی جاتی مگر نیب کے اپنے ایس پی اوز کے تحت بھی یہ تصدیق نہیں کی گئی، اس روز نیب نے کوئی سوال نامہ بھی نہیں دیا، اگر نیب یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میر شکیل الرحمٰن کو کوئی سوالنامہ دیا گیا اور انہوں نے جواب بھی دیا تو نیب وہ سوالنامہ اور جواب عدالت میں پیش کردے۔اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ میر شکیل الرحمٰن پر نیب جو الزام عائد کررہا ہے، وہ 34سال پرانا سول معاملہ اور پرائیویٹ پارٹیوں کے درمیان سول ٹرانزیکشن ہے،1986ء کے سول معاملےکو2020ءمیں بڑا معاملہ بنا دیا گیا، نیب نے اپنی تشکیل کے 20سال تک اس معاملے پر کچھ نہیں کیا، یہ میرٹ پر بھی کوئی کیس نہیں بنتا ،یہ ایک دستاویزی معاملہ ہے جس کا سارا ریکارڈ ایل ڈی اے کے پاس موجود ہے۔درخواست گزار کو شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر گرفتار کرلیا گیا جس میں بد نیتی واضع ہے، یہ کارروائی ایک ویڈیو پر پروگرام چلانے پر ہی طے کرلی گئی تھی، وہ اس معاملے پر زیادہ بحث نہیں کرنا چاہتے مگر اس صورتحال کو سمجھا جائے، ان کا مؤقف ہے کہ عدالت اس سارے معاملے کا نوٹس لے، وہ یہ نہیں کہتے کہ نیب انکوائری نہ کرے، نیب انکوائری کرنا چاہتا ہے تو ضرور کرے، مگر درخواست گزار کو نیب کی غیر قانونی جسمانی کسٹڈی سے آزاد کیا جائے، کیونکہ نیب نے انہیں یرغمال بنا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلا معاملہ ہے جہاں شکایت کی تصدیق سے پہلے گرفتار کرلیا گیا، درخواست گزار کو دفاع کا موقع تک نہیں دیا گیا، عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ وہ غیر قانونی طریقہ سے ہونے والی گرفتاری اور ریمانڈ کالعدم قرار دے، اس سلسلے میں اعتزاز احسن نے ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کی نظیریں بھی پیش کیں۔نیب نے شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرتے ہوئے 2019ء کی بزنس مین پالیسی کی بھی خلاف ورزی کی، احتساب عدالت کے جج نے جسمانی ریمانڈ کے تحریری حکم میں ریمانڈ کی وجوہات بھی بیان نہیں کیں، نیب کا طے شدہ منصوبہ تھا کہ میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کر لیا جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ زمین ایکوائر کرنے کا ایوارڈ کب ہوا؟ نیب کے وکیل نے کہا کہ1986ء کو محمد علی کے نام پر ایوارڈ جاری ہوا، اعتزاز احسن نے کہا کہ بغیر اعتراض کے زمین الاٹمنٹ کے ایوارڈ میں ترمیم کی گئی۔انہوں نے استدعا کی کہ میر شکیل الرحمٰن کو 12 مارچ کو گرفتار کرنے کا اقدام نیب کے دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دے کالعدم کیا جائے، احتساب عدالت کا میر شکیل الرحمٰن کا جسمانی ریمانڈ دینےکا حکم غیر قانونی قرار دے کر کالعدم قراردیا جائے اورانہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔میر شکیل الرحمٰن کی نیب میں گرفتاری اور حراست کو غیر قانونی قرار دے کر ملزم کو مقدمے سے ڈسچارج کیا جائے، میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کو نیب پالیسی 2019ء سے متصادم اور نیب کے دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دیا جائے، میر شکیل الرحمٰن 70 سال کے ہیں، اس لئے ضمانت پر رہا کیا جائے، عدالت نے 7 اپریل کو نیب پراسیکیوٹر کو دلائل دینے کی ہدایت کردی۔
میرشکیل کی ضمانت پھر نہ ہوسکی۔۔
Facebook Comments