لاہور ہائیکورٹ میں میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران ہائیکورٹ کی جانب سےسوال کیا گیا کہ شکایت کی تصدیق کےابتدائی مرحلےمیں گرفتاری کا کیا جواز تھا؟لاہور ہائیکورٹ میں جنگ اور جیوکے ایڈیٹرانچیف میر شکیل الرحمٰن کی گرفتاری کے خلاف درخواست پر دو رکنی بینچ جسٹس علی باقر نجفی اور طارق سلیم شیخ نے میر شکیل الرحمٰن کی اہلیہ شاہینہ شکیل کی درخواست پر سماعت کی، اس دوران لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ میرشکیل الرحمٰن کا روزانہ میڈیکل چیک اپ،گھریلو کھانےادویات اور واک کی اجازت دی جائے۔ عدالت کی جانب سے حکم دیتے ہوئے کہا گیا کہ میرشکیل الرحمٰن کی فیملی سے ملاقات کرائی جائے اور اخبارات فراہم کیے جائیں، میر شکیل الرحمٰن کو ذاتی معالج ڈاکٹرعظمت اور وکلا کو بھی ملاقات کی اجازت دی جائے جبکہ ہائیکورٹ نے گرفتاری کےخلاف درخواست پر سماعت 26 مارچ تک ملتوی کردی۔اس دوران عدالےت کی جانب سے استفسار کیا گیا کہ شاہینہ شکیل میر شکیل الرحمٰن کی اہلیہ ہیں جس پر میر شکیل الرحمٰن کے وکیل اعتزاز احسن نے کورٹ کو آگاہ کیا کہ شاہینہ شکیل عدالت میں موجود ہیں۔ عدالت نے سوال کیا کہ کیا میر شکیل الرحمٰن نیب کے سامنے پیش ہوئے تھے؟ جس پر اعتزاز احسن نے عدالت کو بتایا کہ میر شکیل الرحمٰن کو نیب نے طلب کیا اور وہ نیب کی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے، 12 مارچ کو دوسری بار میر شکیل الرحمٰن کو بلایا گیا اور وہ دوبارہ پیش ہوئے، 12 مارچ کو سوالنامے کے لیے بلایا گیا تھا لیکن گرفتار کر لیا گیا۔ وکیل میر شکیل الرحمٰن اعتزاز احسن نے مزید کہا کہ کیس کا رکارڈ نیب لاہورمیں تھا،چیئرمین نیب نے اسی دن اسلام آباد سے وارنٹ جاری کردیے، میر شکیل الرحمٰن کو نیب آفس میں حبس بے جا میں رکھا گیا۔ لاہورہائیکورٹ کی جانب سے اعتزاز احسن سےسوال کیا گیا کہ جب میر شکیل الرحمٰن جسمانی ریمانڈ پر ہیں کیا ایسی صورت میں یہ کیس سنا جا سکتا ہے ؟جس پر اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ اس درخواست کے ذریعے میر شکیل الرحمٰن کے جسمانی ریمانڈ کو بھی چیلنج کیا گیا ہے ۔عدالت نے سابق وزیر اعظم نواز شریف سے متعلق سوال کیا کہ کیا اس کیس میں نواز شریف کو بھی شامل تفتیش کیا گیا ہے؟جس پر وکیل میر شکیل الرحمٰن کی جانب سے جواب میں کہا گیا کہ اخبارمیں پڑھا ہے کہ نواز شریف کو بھی طلب کر لیا گیا ہے، میر شکیل الرحمٰن کا کیس انکوائری اسٹیج پر تھا۔ سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے نیب پر ریمارکس میں کیا گیا کہ آپ کو میرشکیل الرحمںن سے پوچھنا چاہیے تھا اورسوالوں کے جواب لینے چاہیے تھے ، اگروہ سوالوں کے جواب نہ دیتے تو آپ قانون کے مطابق کاروائی کرتے، نیب احتساب کا عمل بالکل کرے لیکن احتساب قانون کےمطابق ہونا چاہیے، کیا میر شکیل الرحمٰن کواس لیےگرفتار کیا گیا کہ ان کا اخبار اور ٹی وی حکومت پر تنقید کرتا ہے۔
میرشکیل کی گرفتاری کے خلاف سماعت چھبیس مارچ تک ملتوی۔۔
Facebook Comments