تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
بات محض جیو والے میر شکیل الرحمان کی من مانی حراست تک محدود نہیں اور نہ ہی یہ اپنے اختیار کو ہرممکن حد تک وسعت دینے کی نیب کی کوئی پہلی کارگزاری ہے ، لیکن اب نیب وہ کچھ کرتا دکھائی دے رہا ہے کہ جہاں اس کو روکنا لازم ہوچلا ہے- قوم کی تعمیر و ترقی مطلوب ہے تو صرف حکومت کی ناقد آوازوں کو بند کرنے کی اس سیاہ داستان کو اب ختم ہوجانا چاہیے کیونکہ حکومت کے ہاتھوں کھلونا بنے نیب کے ہاتھوں شفاف احتساب کا بلبلہ تو درحقیقت ایک زہریلے پھوڑا ثابت ہوا ہے جس سے سرکار والا مدار کی خوشامد اور للو چپو کی پیپ دھڑلے سے رس رہی ہے۔۔۔ اگر ایسا نہیں ، تو پھر وہ چیئرمین نیب جو گزشتہ برس کے اوائل میں سلیم صافی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں یہ فرمار ہے تھے کہ آپ یہ دیکھ لیجیے گا بس چند ہی روز میں مالم جبہ اراضی اور اسی طرح کے چند اور کرپشن ریفرینسز پہ بالضرور کام مکمل کرلیا جائے گا – لیکن پورا سال گزر گیا اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی اور ابھی تین ماہ قبل وہ اپنی صفائی میں یہ فرما رہے تھے کہ پشاور میٹرو منصوبے کے کیس پہ ہائیکورٹ نے حکم امتناعی دے دیا ہے اس لیے پیش رفت نہ ہوسکی لیکن وہ یہ بات صاف ٹال گئے کہ آخر باقی دیگر کیسز میں اب تک کوئی عملی پیشرفت کیوں نہیں کی گئی ۔۔۔
سوال یہ ہے کہ کیا لوگ ایسے ہی چغد ہیں کہ چیئرمین نیب کی ایسی جان چھڑانے والی چالاک دلیلوں سے مطمئن ہو جائیں گے اور کیا انہیں کھلی آنکھوں سے صاف صاف دکھائی نہیں دے رہا کہ اپوزیشن پہ لادے گئے کیسز پہ نیب کا رویہ کس قدر جارحانہ اور حکومتی اکابرین کے خلاف دائر مقدمات پہ نیب کا برتاؤ کس قدر نیم دلانہ بلکہ عاجزانہ ہے ۔ سبھی دیکھ پا رہے ہیں کہ کیسے پہلے ہی مرحلے میں حکومتی مخالفین کو بوچا جاتا ہے جبکہ وزیراعظم کے دوست اور سوتیلے داماد زلفی بخاری کو گرفتار کرنے کی زحمت کیے بغیر ہی کیس چلانے کی برخوداری سے کام چلالیا جاتا ہے اور انکی طرح میگا کرپشن میں زیرالزام پرویز خٹک اور محمود خان کو بھی چھؤا تک نہیں جاتا ۔۔۔ اس طرح کے معیار عدل اور حسن سلوک کی صرف یہ چند ہی مثالیں نہیں ہیں اور بھی متعدد حوالے نیب چیئرمین کے دعووں کی حقیقت واضح کرنے کے لیے موجود ہیں ۔۔۔۔ لیکن وہ بھی کیا کریں کہ جب موصوف وہ ریڑھ کی ہڈی ہی نہیں رکھتے جو حس انصاف سے مملو ہوتی ہے اور حاکموں کے سامنے سیدھا کھڑا ہونے کے لیے درکار ہوتی ہے- واضح رہے کہ میں نے یہ بات 2007 میں چلنے والی عدلیہ بحالی تحریک کے تناظر میں کہی ہے کہ جب مشرف دور میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اور دیگر 54 ججوں کو انکے گھروں پہ نظر بند کردیا گیا تھا اور یہ حضرت چند ہی روز میں توبہ تلا کرنے پہ اتر آئے تھے اور اپنے ہی ساتھیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کے حکومت سے جاملے تھے – اور حکومت کی خوشامد کی قیمت کے طور پہ انہیں پاکستان پریس کونسل کا چیئرمین بنادیا گیا تھا —
جہاں تک میرشکیل پہ بنائے گئے کیس کا تعلق ہے تو اسےکوئی صاحب فکر نظر تو کیا شاز ہی کوئی عام آدمی بھی کسی بدعنوانی کے مقدمے کے طور پہ دیکھ رہا ہو ،،، بلاشبہ اندرونی حقائق سے واقف اور ماضیء قریب کی تارئخ سے آگاہ اہل نظر اسے سچے احتساب کے لیے کی گئی قانونی کارروائی کے برعکس ہی پارہے ہیں اور میڈیا والے تو علی الاعلان اسے میڈیا کی آزادی کا مسئلہ باور کررہے ہیں کیونکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ 34 برس پرانے اس کیس کی مد میں یوں اچانک دکھائی گئی پھرتیوں اور گرفتاری کا اصل سبب کیا ہے خصوصاً جبکہ ملزم نہ تو کبھی مفرور تھا اور نہ ہی اس نے اپنی طلبی پہ کبھی کوئی لیت و لعل کی۔۔۔ جبکہ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ باقاعدہ ٹیکس گزار کاروباری کی حیثیت کا حامل بھی ہے کہ جس طبقے کو نیب کی چیرہ دستیوں سے مامون کردینے کے سرکاری نقارے دن رات بجائے جارہے ہیں – درحقیقت یہ کہا جائے تو ہرگز بیجا نہ ہوگا کہ یہ سب دور عمرانی میں میڈیا کا بازو مروڑنے اور گلا گھونٹنے کے لیئے جاری کوششوں کا تسلسل ہے اور کسی فرد یا ادارے کو اس معاملے میں حکومتی کارپردازان کے ساتھ ہرگز کھڑا نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ سلطانیء جمہور کے اس دور میں یہ سب ہتھکنڈے صرف بیک فائر ہی کرسکتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں بلکہ ہرگز نہیں۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔
(مصنف کی تحریر کے مندرجات سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔