تحریر: کشور ناہید۔۔
مسعود مفتی ان لکھنے والوں میں سے تھے جو سقوطِ مشرقی پاکستان کے وقت وہاں ڈھاکہ میں تعلیم کے سیکرٹری تھے۔ پاکستان کی فوجوں کے ہتھیار ڈالتے وقت ،سارے سرکاری اور اہم افسروں کو قید کر کے انڈین کیمپوں میں بھیج دیا گیا تھا۔ مسعود مفتی اور میرے بڑے بھائی جو کہ آرڈی نینس فیکٹری میں چیف انجینئر تھے، اُن 32سو لوگوں میں شامل تھے جنہیں انڈیا کے اُنکیمپوں میں بند کر دیا گیا تھا۔ ہماری خواتین جن میں مسعود مفتی کی بیگم بھی شامل تھیں ،مظاہرہ کر رہی تھیں کہ ہمارے شوہروںکو واپس لائیں۔ میں اس وقت نیشنل سینٹر لاہور کی ڈائریکٹر تھی۔ میں ان خواتین کے جلسے بھی کرواتی تھی اور مظاہروں میں بھی شریک ہوتی تھی۔پھر بھٹو صاحب نے کہا کہ ان خواتین کا ایک گروپ لیکر میرے پاس آئو۔ ان خواتین نے روتے ہوئے اپنے حالات بیان کئے، بھٹو صاحب نے کہا اب رونا بند کرو اور میری بات سنو ’’میں تمہارا ایک وفد سارے بڑے ملکوں میں بھیجنا چاہتا ہوں۔ تم ان ملکوں میں جا کر رونا دھونا ضرور کرو اور اپنے دگرگوں حالات بتائو ،مگر میری ایک بات یاد رکھنا ،تم میں سے کوئی خاتون بازار شاپنگ کیلئے نہیں جائے گی۔ لپ اسٹک نہیں لگائے گی، سر پر دوپٹہ رکھے گی، یوں تم میرے ہاتھ مضبوط کرو گی کہ میں تمہارے شوہروں کو واپس لا سکوں‘‘، واقعی یہ وفد گیا اور دنیا بھر میں اس کا اثر ہوا، جب یہ لوگ واپس آئے تو اسی شام میں نے مسعود مفتی کو راضی کیا ، آ کر جو انڈیا میں بیتی اور جو بنگال میں دیکھا، وہ سنائیں کہ وہ پورا وقت لکھتے رہتے تھے۔ وہ دن عجیب دن تھا۔اتنا ہجوم 3بجے سے ہو گیا کہ چار بجے تو مجھے سیڑھیوں پر مائیکرو فون لگوانے پڑے۔سڑک پر ٹریفک رک گیا تھا اور مفتی صاحب کی داستان سنتے ہوئے مسلسل سسکیوں کی آوازیں چاروں طرف سے آ رہی تھیں۔ مفتی صاحب نے جس طرح بیان کیا، بنگالیوں کو کیسے انڈین فوجوں نےشیشے میں اتارا۔ پھر کیمپوں میں کیسی انسان سوز نفسیات استعمال کی گئی۔ ان کی تمام تحریریں جو بعد ازاں لکھی گئیں، ان میں بہت حساسیت اور جذباتیت نظر آتی ہے۔ پورے زمانے کی کسی تحریر میں یہ بیان نہیں کیا گیا کہ ہم نے بنگالیوں کے ساتھ جدا ہوتے وقت تک کیا سلوک کیا اور ہماری فوجوں نے انکی کیا’’ خدمت‘‘ کی؟مسعود مفتی صاحب بڑے سچے لکھنے والے تھے، انکی تحریروں کی دل گیری بہت دیر تک محسوس ہوتی رہے گی۔ انکی اپنی خواہش کے مطابق کوئی قل اور چہلم کی رسم نہیں ہو گی۔ مفتی صاحب کے فیصلے پر مسلمان اور ہمارے علمائے دین یہ اعلان کریں کہ وہ اخراجات جو دیگیں پکا کر لوگوں کو کھلانے پر صرف کئے جاتے ہیں، وہ غیر ضروری ہیں، کورونا ہے، اور مہنگائی بھی ہے۔
ایک بات کے بیان کے بعد دوسری اہم اور قابل تسکین یہ بات ہے کہ آٹھ مہینے بعد میر شکیل الرحمٰن کو سپریم کورٹ نے رہا کر دیا ہے۔ اب سپریم کورٹ بھی بتائے کہ میر شکیل الرحمٰن کے آٹھ مہینے جو اذیت میں گزرے، وہ کون واپس دلائے گا؟ بہت سے لوگوں کو نیب کے نام سےبرسوں سے اندر رکھا ہوا ہے۔ کیا سپریم کورٹ سب کی مدد کو آئے گی اور یہ بغیر مقدمے اور چارج شیٹ کے لوگوں کو کس قانون کے تحت زنداں میں بند کیا ہوا ہے، ممکن ہے وہ چور ہوں، ڈاکو ہوں، ان پر مقدمہ چلائیں، ان کو یقیناً سزا دیں مگر بغیر چارج شیٹ اور عدالت میں باقاعدہ سزا کے بغیر، لوگ جیلوں میں کیوںبند ہیں جو لوگ بلا قانون، صرف مفروضے پر اندر ہیں، ان کی داد رسی ہونی چاہئے۔کہنے کو قانون سب کیلئے ایک ہے مگر حکومت میں موجود جن لوگوں کے چھپے اثاثے ظاہر ہو گئے ہیں، ان کی خدمت کرنے کیلئے کوئی قانون اور سزا سامنے نہیں آتی ہے۔ اس بات کو بے شمار وکلا اور قانون دان واشگاف الفاظ میں کہہ چکے ہیں، دو متوازی عدالتیں کیسےقانونی توازن برقرار رکھ سکتی ہیں؟ احد چیمہ کوئی سرکاری افسر ہیں، گزشتہ ڈھائی سال سے اندرہیں، اس طرح کے دیگر لوگوں کو ملزم بنا کر اندر رکھا ہوا ہے۔ پوچھو تو جواب ملتا ہے یہ مقدمے تو پچھلی حکومت نے قائم کئے تھے۔( بشکریہ جنگ)