mir javed bhi rukhsat hoe

میرجاوید خلا چھوڑ گئے۔۔

تحریر: عمران اسلم۔۔

میر جاوید رحمٰن ایک خلا چھوڑ گئے ہیں۔ ان کے انتقال سے ایک عہد کا خاتمہ ہوا۔ ان کا انتقال ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب دنیا ایک عالمی بحران سے گذر رہی ہے۔ایک ایسے وقت میں کہ جب ہم سب سوالوں کے جوابات ڈھونڈنے میں مگن ہیں۔ میر جاوید بھی انہیں سوالات کے بارے میں پوچھ سکتے تھے جو ان کا طرہ امتیاز تھا۔ وہ بھی اس دکھائی نہ دیے جانے والے خطرے سے لاجک اور عقیدے کی بنیاد پر لڑتے تاہم بدقسمتی سے وہ کینسر کیخلاف جنگ میں ہار گئے۔ انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔وہ میڈیا انڈسٹری کی ایک طاقتور شخصیت تھے اور بے نیازی کیساتھ میڈیا انڈسٹری کی بہتری کیلئے کام کرتے رہے اور ہر مشکل گھڑی میں پرجوش طریقے سے اس کی آبیاری کرتے رہے۔

ان کی موت ایک ایسے موقع پر واقع ہوئی جب ان کے چھوٹے بھائی میر شکیل الرحمٰن من گھڑت الزامات میں غیر قانونی طور پر زیر حراست ہیں کیوں کہ انہوں نے لائن کو ٹوہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ میر شکیل الرحمان بستر مرگ پر موجود اپنے شدید علیل بڑے بھائی کے پاس موجود نہیں تھے اور اس واقعے کو بھی میڈیا کی آزادی کی اسپرٹ کو توڑنے کی ایک اور کوشش کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائیگا۔ وہ اس سنگ دل، ظالمانہ سسٹم اور انتقامی لڑائی کی بھینٹ چڑھے ہیں۔دونوں بھائیوں نے اپنے والد اور جنگ گروپ کے بانی میر شکیل الرحمٰن سے سیکھا ہے کہ کس طرح سے آزمائش کا سامنا صبر وتحمل سے کیا جاتا ہے۔ صحافی برادری بالخصوص اور سول سوسائٹی میں آزادی اظہار رائے کیلئے ان کی جدوجہد اور قربانیاں کبھی بھلائی نہیں جائیں گی۔ میرجاوید رحمٰن 16 اگست 1946 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے، انہوں نے ویلز میں اعلیٰ درجے کے شہرت یافتہ تھومسن فائونڈیشن ایڈیٹوریل سینٹر سے نیوز پیپر منیجمنٹ کی تعلیم حاصل کی۔

میر جاوید اپنی ناگہانی موت کے وقت جنگ گروپ کے گروپ چیئرمین، پبلشر اور ایگزیکٹیو ایڈیٹر تھے جس میں روزنامہ جنگ، دی نیوز، میگ اور اخبار جہاں شامل ہیں۔پانچ دہائیوں پر مشتمل اپنے کیرئیر میں میر جاوید الرحمٰن نے صحافی برادری کیلئے پورے انہماک سے خدمات سرانجام دیں۔ وہ دو مرتبہ مسلسل آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی (اے پی این ایس) کے جنرل سیکرٹری بھی رہے۔میر جاوید چند عظیم مالک ایڈیٹرز میں سے ایک تھے۔ میر جاوید پرنٹ میڈیا کا ہر پہلو سے جائزہ لیتے، انداز تحریر سے لیکر اس کی نمائش، فونٹ سے لیکر اسٹوریز کو آویزاں کئے جانے اور تصاویر کے انتخاب تک میں دلچسی لیتے تھے، غرض ان کی خوبیاں نا قابل بیان ہیں۔وہ باریک بینی سے چیزوں کو پرکھتے اور یہ فن انہوں نے اپنے لیجنڈری والد میر خلیل الرحمٰن سے حاصل کیا تھا اور انہوں نے اپنے میگزین کی اشاعت کیساتھ کامیابی کیساتھ اس کا مظاہرہ بھی کیا۔

اگر کوئی اسٹوری چھپنے سے رہ جاتی تو اس سے وہ بہت پریشان ہوجاتے، وہ رپورٹرز اور سب ایڈیٹرز کو ہدایت کرتے کہ وہ اسٹوری کی اصل روح کو سمجھیں۔ وہ ایک حساس اور عمدہ انٹرویو کرنے والے تھے۔وہ انتہائی تحقیق پسند اور متجسس شخصیت کے حامل تھے، وہ اپنے ارد گرد کی دنیا میں بدلتے ہوئے حالات پر ہمیشہ کڑی نظر رکھتے تھے۔ وہ لوگوں کی نفس کو جاننے کا فن رکھتے اور ہمیشہ سے ہی جدت اور تخلیقی تبدیلی میں نمایاں کردار ادا کرتے۔ ان میں بچوں کی طرح ہمیشہ سیکھنے کی تجسس رہتی۔اخبار جہاں ان کی اصطفائیت پسندانہ دلچپسی کی ایک مثال ہے۔ اخبار جہاں میں دنیا کے ایشوز، اس کے ٹرینڈز اور بدلتے ہوئے حالات کا بہترین انعکاس ہوتا ہے۔

یہ ہر عمر کے لوگوں خواہ مرد ہو یا عورت سب کی پیاس بجھاتا ہے۔ وقت کیساتھ ساتھ اس میں اقدار کا بھی خیال رکھا گیا۔ میگزین کے آرکائیوز کو دیکھا جائے تو ہمیں ہماری ثقافتی سفر کا حقیقی چہرہ تاریخ سے نظر آئیگا۔میر جاوید دباو برداشت کرنے والی شخصیت تھے۔ وہ اپنے والد کو آمروں اور جعلی جمہوریت پسندوں سے لڑتا ہوا دیکھ چکے تھے۔ صحافت پر حملوں کیخلاف مستعدی سے کھڑا ہونا میر جاوید اور میر شکیل الرحمٰن کو ورثے میں ملا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں اپنے دفاتر میں توڑ پھوڑ، دھمکیوں اور اپنی مطبوعات کو جلتا ہوا دیکھا تھا۔انہوں نے ان تمام مصائب کا بڑے ضبط، بہادری اور حوصلے کیساتھ سامنا کیا۔ وہ انگریز مصنف جارج آرویل کا یہ مقولہ اکثر کہا کرتے تھے ’’خبر وہ ہے جو مخفی ہے‘‘۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب جنگ گروپ اپنے دور کے مشکل ترین دور سے گذر رہا ہے ان کی سرپرستی سے محرومیت کی کمی محسوس کی جائیگی۔

میر جاوید قائد اعظم سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ ان کے پاس اس عظیم رہنما کی کتابوں کا مجموعہ تھا اور وہ ان کی شخصیت اور لیڈر شپ کے دلدادہ تھے۔ وہ قائد اعظم کے اصولوں کے مقلد تھے اور اپنی زندگی کے ہر شعبے میں انہیں اپنانے کی کوشش کرتے تھے۔ان کی خواہش تھی کہ ہمارے رہنما ان کے اصولوں اور معیارات کے مطابق دیانتداری اور ایمانداری کو اپنائیں۔ کشمیر کیلئے ان کی حمایت انتہائی جذباتی تھی اور انہیں یقین تھا کہ ایک دن آئے گا جب وادی کشمیر بھارت کے قبضے سے آزاد ہوگی۔وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ کشمیر تقسیم ہند کا نا مکمل ایجنڈا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے اور ہولناک لاک ڈاون پر انتہائی پریشان رہتے۔ میر جاوید الرحمان کی فیاضی کے بہت سارے واقعات ہیں جو کبھی بیان نہیں کئے گئے کیوں کہ وہ سمجھتے تھے کہ صدقہ خیرات ہمیشہ خاموشی سے کیا جائے۔وہ تعظیم وتکریم کیساتھ ساتھ لوگوں کی غم وخوشی کے ہر موقع پر موجود رہتے تھے۔ وہ ایک صاف گو شخص تھے ہمیشہ سچ بولتے اور ڈیلنگ ہمیشہ براہ راست کرتے تھے۔

ایسے بہت سارے لوگ ہوں گے جو انہیں ہمیشہ ایک شفیق اور محسن کے طور پر یاد رکھیں گے۔ میر جاوید الرحمان تحریر اور اردو زبان کو سراہتے تھے۔ وہ اس بات سے واقف تھے کہ اس خطے کے لوگوں کو پڑھنے کی عادت ان کے والد نے تحفے میں دی تھی۔وہ اردو زبان کو بچانے کی ضرورت سے بھی واقف تھے اور لوگوں کے درمیان رابطے کیلئے اردو زبان کی اہمیت کے بھی قائل تھے۔ ان کا شمار ہمیشہ ان لوگوں میں ہوگا جو اردو زبان کو بچانے اور اسے پروان چڑھانے میں کردار ادا کرتے رہے۔ میر جاوید کا خدا کیساتھ تعلق بھی بہت خوب تھا۔وہ ہمشہ خود کو خدا کے قریب سمجھتے اور ان کا یہ عقیدہ تھا کہ خدا ہی شفا عطا کرتا ہے۔ جب وہ بیمار ہوئے تو ان کی صحت یابی کیلئے بہت سارے ہاتھ دعا کیلئے اٹھے۔ تاہم ہم سب کو ایک دن وہیں لوٹ جانا ہے جہاں سے ہم آئے ہیں۔ وہ اپنے خالق کی رحمت میں ہوں گے۔ خدا ان پر اپنی رحمت نازل فرمائے، آمین۔(بشکریہ جنگ)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں