mir javed bhi rukhsat hoe

میرجاوید بھی رخصت ہوئے۔۔

تحریر: مجیب الرحمان شامی۔۔

جنگ مڈییا ایمپائر کے چئر من  اور پبلشر مر  جاوید رحمن کو جب تنفس کی بحالی کے لےو وییٹ  لٹرن لگانے کا فصلہک ہوا تو ان کی اہلہس غزالہ نے ڈبڈباتی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا۔ انہں  کوئی گھبراہٹ نہںئ تھی، سکون اور اطمنا ن کے ساتھ اپنی صحت کی بحال کی امدم کرتے ہوئے انہوں نے یہ الفاظ بھی ادا کرنا ضروری سمجھے کہ جو اِس دُنا  مںر آیا ہے، اُسے ایک دن واپس جانا ہے۔ (اس لےپ گھبرانے کی ضرورت نہںٹ) کچھ ہی عرصہ پہلے اُنہںغ پھپھڑ وں کا کنسرو لاحق ہوا تھا یا یہ کہہ لےںئ  کہ اس کا انکشاف ہوا تھا۔ وہ بھلے چنگے اپنے معمولات جاری رکھے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں لا ابالی پن تھا نہ بد نظمی۔ وہ لگے بندھے انداز مںا روز و شب گزارنے کے عادی تھے۔ سگریٹ نوشی کے علاوہ کسی اور بے احتااطی کو ان کے ہاں داخلے کی اجازت نہںا تھی۔ سر اپنے رب کے حضور جھکائے رہتے، محفلوں اور مجلسوں سے دور بھاگتے۔ علمائے کرام سے رابطے مںن رہتے تھے جس کے ان کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب ہو گئے تھے۔ سونے کا چمچ منہ مںم لے کر پدوا تو ہوئے تھے، اور یہ مسلسل ان کی دسترس مںی بھی رہا لکنر اس کے لےی کوئی خاص رغبت پدما نہ ہو پائی۔ اپنے جللج القدر والد کی کفایت اور قناعت کا عکس ان کی شخصتی مںی جھلک جھلک جاتا۔ انتظامی اور کاروباری صلاحتا تو ان مںغ اس درجے کی نہں  تھی‘ لکنک ملنساری‘ انکساری بلا کی تھی۔

ان کے برادرِ نسبتی ڈاکٹر اطہر مسعود بھٹی کا کہنا ہے کہ نظام تنفس مںا خلل کا اندازہ ہوا، تو چھان بنے سے تشویش مںے اضافہ ہو گاں۔ تشخصِو مزید کے لئے لندن جانے کا فصلہ  ہوا تو راستے مںد سعودی عرب رُکے، اہلہن اور بٹےز یوسف کے ساتھ عمرہ ادا کر کے برطانہھ پہنچے۔ وہاں مرض کی سنجدمگی و پدے  گی کی تصدیق ہو گئی تو بھی صبر اور سکون کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ وقفے وقفے سے ایک خصوصی انجکشن لگایا جاتا تھا، چند روز پہلے انجکشن لگوایا تو اس کے سائڈا ایفیکٹس پر قابو نہ پایا جا سکا۔ ہسپتال داخل ہوئے، لکنک مرض بڑھتا گاو۔ چھوٹے بھائی مرج شکلف الرحمن نب  کی قدی مںپ تھے، اور وہ کراچی مںی قدِہ زندگی سے آزاد ہونے کے لئے پھڑپھڑا رہے تھے۔ دِل مںی ہوک سی اٹھتی رہی، اپنے بھائی کو یاد کرتے رہے، اس کی راہ دیکھتے دیکھتے آنکھںس پتھرا رہی تھں ، لکنگ پتھر دِل موم نہ ہو پا رہے تھے۔ دونوں بھائی جنہوں نے عشرے ایک ساتھ گزارے تھے، ہنستے، روتے، بگڑتے، سنورتے، روٹھتے اور بلائںا لتے ، اپنے والد کی سلطنت کی حفاظت کی تھی، ان کے انتقال کے بعد اپنی والدہ کے دامن کو اپنا سائبان بنائے رکھا تھا، ایک دوسرے کو الوداع نہ کہہ سکے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ نہ تھام سکے، اور اس کے آخری لمس سے لطف اندوز نہ ہو سکے۔ ایک دوسرے کو دیکھے بغرد، قاسمت تک کے لےا ایک دوسرے سے بچھڑ گئے ؎

جانے والے سے ملاقات نہ ہونے پائی

دِل کی دِل مںہ ہی رہی بات نہ ہونے پائی

مرل شکل  الرحمن کو نبی نے ایک چھتسخ سالہ پرانے نجی معاملے مںک گرفتار کر رکھا تھا۔ ان پر جوالزام لگایا گاا،اور جس طرح انہںس حوالہ ٔ زنداں کاے گال، وہ سب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا جا چکا، بہت کچھ لکھا جائے گا؎

زمانہ یوں تو کسی پر نظر نہںچ کرتا

قلم کی بے ادبی درگزر نہںں کرتا

شکلن صاحب خود بماسریوں کی پوٹ ہںا۔ جس طرح کے حالات سے وہ گزرے، ان کی صحت پر ان کے جو اثرات مرتب ہوئے، اور انہوں نے جس طرح اپنے آپ کو اور اپنے معاملات کو سنبھالے رکھا، اس سب پر کتاب لکھی جا سکتی ہے، قدل ِ تنہائی ان کے لےن طبی طور پر زہرِ قاتل ہے۔ دُعا ہے کہ ان کی آزمائش کے دن پورے ہوں اور وہ ایک بار پھر آزادی سے اپنے فرائض ادا کر سکں ۔ مرحوم بھائی کی متی کو کندھا دینے کے لےم ہی کراچی پہنچ پائے۔ چند روز کے لےم اُنہں  رہا کر دیا گا  تھا۔

ہفت روزہ ”اخبارِ جہاں‘‘ کے جملہ امور مری جاوید رحمن کے سپرد تھے۔ کم و بش  نصف صدی پہلے اس نے اشاعت کا آغاز کاق، تو مجھے بھی اس کی مجلسِ ادارت کے ایک رکن کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا۔ محترم نذیر ناجی اس کے پہلے مدیر معاون، یین  ایڈیٹر انچارج تھے۔ اس کا سلوگن تھا ”جو کچھ جہاں مںے ہے، وہ اخبارِ جہاں مں  ہے‘‘… یہ اپنی نوعتد کا ایک منفرد ہفت روزہ تھا، اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے سب کو پچھاڑ کر رکھ دیا۔ اوورسزو پاکستانو ں مں  اسے خصوصی پذیرائی حاصل تھی، الکٹررانک مڈنیا اور سوشل مڈتیا سے پہلے یہ دُناے بھر مںں پھلےھ پاکستانوپں کے درمارن رابطے کا بہت موثر ذریعہ تھا۔ ماہناموں مںا جو مقام اُردو ڈائجسٹ کو حاصل ہوا، ہفت روزوں مں  وہ اخبارِ جہاں نے اپنے لئے خاص کر لای۔ یہ ایک طرح کا ڈائجسٹ تھا، جس مںر سا،ست، ثقافت، ادب، فلم بہت کچھ سمٹ آتا تھا۔ نذیر ناجی صاحب کی وابستگی کا عرصہ کم و بشل ایک سال کو محطت ہو گا۔ جس دن وہ وہاں سے رخصت ہوئے، اُسی دن مر ا تبادلہ روزنامہ جنگ سے ہفت روزہ اخبارِ جہاں مںں ہوا۔ اب عبدالکریم عابد اس کے انچارج تھے۔ اخبارِ جہاں کے دفتر پہنچا تو مرئ جاوید رحمن سے بھی ملاقات ہوئی۔ مالکانہ حقوق تو ان کی جب  مںس تھے ہی، جملہ ادارتی امور پر بھی ان کی نظر رہی۔ وہ باقاعدگی سے دفتر آتے، اور شائع ہونے والے مواد مںج خصوصی دلچسپی لتےہ۔ جلد ہی ان سے گاڑھی چھننے لگی۔ ان کی تجویز پر مَںی نے کئی مضامن۔ لکھے اور کئی تراجم کےت۔ وہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کتابںن اور مضامنھ لاتے، اور انہں  اُردو کا جامہ پہنانے پر زور دیتے۔ ان سے تعلق ایک مالک اور ملازم یا آجر اور اجری کا تھا، لکنے انہوں نے کبھی اس کا احساس نہںم ہونے دیا۔ وہ ایک رفقِ  کار کے طور پر پش  آتے۔ کچھ ہی عرصہ بعد مَںد اخبارِ جہاں سے رخصت ہو کر لاہور آ گا ۔ یہاں ہفت روزہ زندگی مرنا منتظر تھا۔ چند سال اس کا لطف اٹھایا، اس کے بعد اپنے ادارے کی بنااد رکھنے کا موقع مل گاا۔ مالکان اخبارات کی تنظمی اے پی این ایس مںا بھی اسی کی بدولت داخلہ نصبف ہوا۔ کئی سال مرن جاوید رحمن یہاں اپنے اخباری ادارے کی نمائندگی کرتے رہے۔ وہ اے پی این ایس کے سکر ٹری جنرل منتخب ہوئے، صدر بنے، قواعد و ضوابط کی پابندی ان پر ختم تھی۔ وہ اس حوالے سے اپنے اخبار کو بھی کوئی رعایت دینے پر تا ر نہ ہوتے۔ اپنی بات بلا جھجھک کہتے، اور اپنے ساتھودں مںط ہاتھوں ہاتھ لےٹ جاتے۔ وہ وقت آیا کہ انہوں نے اے پی این ایس سے فاصلہ کر لام۔ اس کی ساھست سے انہںں کوئی علاقہ نہ رہا۔ وہ اپنے دفتر مں۔ سمٹ گئے۔ ان کی فرمائش پر اخبارِ جہاں کے لےخ کئی شخصانت کا تعارف لکھا، جب بھی ان کا پغاکم ملتا، کوشش ہوتی کہ تعملھ کر دی جائے۔ ہر تحریر کی اشاعت کے بعد مختصر سا چکر بھی باقاعدگی سے موصول ہوتا جسے تبرک سمجھ کر قبول کر لاک جاتا۔ ان کے کام کا اپنا طریقہ تھا، وہ اس پر کمپرومائز نہ کرتے۔ وہ اظہار کرنے سے بھی ہچکچاتے نہں  تھے۔ ان کے والد نے جو دائرہ کار وضع کر رکھا تھا، اس سے تجاوز ان کو گوارا نہںو تھا۔

مر  جاوید رحمن دُناھ سے رخصت ہوئے تو لاہور سے کراچی پہنچنا ممکن نہ تھا۔ کورونا وائرس نے رابطے منقطع کر رکھے تھے۔ ہوائی سفر کھلا تھا نہ زمی ک، سو ان کا آخری دیدار نہ کرنے کا صدمہ بھی برداشت کرنا پڑا۔ ہر مکتبِ فکر اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والوں نے مرحوم کو اچھے الفاظ سے یاد رکھا۔ ان کے حق مں  دُعا کی۔ لکنن وزیر اعظم ہائوس کے مکن ‘ تعزیت کے دو حرف بول کر نہںح دیے ۔۔(بشکریہ دنیا)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں