تحریر: عمیرعلی انجم
کل یہاں موسم قدرے خنک تھا ،دل بہت اداس سا تھا ۔۔ایسے موسم میں چائے پینا مجھے ہمیشہ سے مرغوب رہا ہے ۔۔چائے کی پیالی میرے ہاتھ میں تھی کہ اس دوران فیض احمد فیض بھی آ پہنچے۔۔حال چال دریافت کیا اور مختلف موضوعات پر گفتگو شروع ہوگئی ۔۔فیض صاحب میں ایک بہت کمال کی بات ہے وہ چہرے سے دل کا حال جان لیتے ہیں ۔۔کہنے لگے برنا !کیا بات ہے ، کچھ اداس لگ رہے ہو ؟؟اب بھلا میں اپنے دل کے پھپھولے ان کے سامنے کیا پھوڑتا ۔۔پھر ایک لمحے خیال آیا کہ فیض صاحب صرف ایک شاعر ہی نہیں کہنہ مشق صحافی بھی رہے ہیں ۔۔ان سے دل کا حال بیان کیا جاسکتا ہے ۔۔ایک نظر فیض کے چہرے پر ڈالی ہی تھی کہ سید محمد تقی بھی آگئے ۔۔ان کو بھی چائے کی پیش کش کی ،جو انہوں نے قبول کرلی ۔۔فیض صاحب پھر مجھ سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ برنا !تم کچھ کہتے ہوئے رک گئے تھے ۔۔بتاؤ کیا بات ہے ؟؟میں نے کہا کہ اب تقی صاحب بھی اگئے ہیں یہ میرا دکھ زیادہ بہتر انداز میں محسوس کرسکتے ہیں ۔۔فیض صاحب آپ کو کیا بتاؤں!اپنے ہاتھ سے لگایا ہوا پودا جب درخت بن کر لوگوں کو سایہ دینے کی بجائے ان کے لیے اذیت کا باعث بن جائے تو آپ خود بتائیں کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔۔ فیض صاحب !ہم لوگوں نے وقت کے جابروں کے سامنے کلمہ حق کہنے کی جو رسم شروع کی تھی وہ ہمارے ’’بچوں‘‘ نے ترک کردی ہے ۔۔ہم جو کہ کبھی ’’تاریک راہوں میں بھی مارے جانے ‘‘ سے نہ ڈرے ۔۔ ہمارے وارثوں نے ہمیں بھرے بازار میں رسوا کردیا۔۔میری بات جاری تھی کہ کیا دیکھتا ہوں میر خلیل الرحمن صاحب ہاتھ میں سگار لیے چلے آ رہے ہیں ۔۔ہم نے کھڑے ہو کر ان کا استقبال کیا ۔۔میر صاحب نے کہا کہ خوب محفل جمی ہوئی ہے ۔کیا باتیں ہورہی ہیں ؟؟؟ تقی صاحب بولے کہ میر صاحب !برنا صاحب اداس ہیں اور برحق اداس ہیں ۔۔اچھا ہوا آپ آگئے ۔۔میر صاحب نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جی برنا صاحب ہمیں بھی کچھ بتائیں ۔۔کیا بات ہورہی تھی ۔۔میں اب ان سے کیا کہتا کہ میر صاحب !آپ اپنی میراث جن ہاتھوں میں چھوڑ کر آئے تھے وہ ہاتھ ناتواں نکلے ۔۔میر صاحب !آپ تو اپنے ملازمین کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے تھے ۔۔لیکن آپ کی اولاد نے آج ان کو یتیم کردیا ۔۔اللہ نے آپ کو لاکھوں گھروں کا چولہا جلانے کا وسیلہ بنایا ۔۔آپ کی اولاد لوگوں میں بھوک بانٹنے میں مصروف ہے ۔۔میر صاحب یکدم چائے کی پیالی چھوڑ کر کھڑے ہوگئے ۔۔فیض صاحب نے پوچھا کہ میر صاحب کیا ہوا ؟؟؟ کہاں جارہے ہیں ؟؟؟ میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہے تھے ۔۔کہنے لگے کہ ایک ضروری کام یاد آگیا ہے ۔۔پھر ملیں گے ۔۔میر صاحب کے اس طرح چلے جانے سے میری اداسی میں مزید اضافہ ہوگیا ۔۔تقی صاحب نے سگریٹ سلگاکر میرے ہاتھوں میں تھمادیا اور کہنے لگے کہ برنا صاحب اپنے دل کا تمام حال بیان کریں ۔۔ورنہ یونہی دل بوجھل رہے گا ۔۔میں نے کہا کہ مجھے میر صاحب کے سامنے اس طرح کی بات نہیں کرنی چاہیے تھی ۔۔ان کا توکوئی قصور ہی نہیں ۔۔تقی صاحب !ہم لوگوں نے اپنے ساتھیوں کو درس دیا تھا کہ ہمیشہ حق کے سامنے کھڑے رہنا ۔۔ریہ حکمرانوں کے کاسہ لیس کیوں بن گئے ؟؟؟؟ انہیں قلم کی حرمت کا بھی پاس نہیں ہے ۔۔اور ہم لوگ جو صحافیوں کے لیے زنداں تک گئے ۔۔ہم لوگوں نے کوڑے کھائے ۔لیکن حق کا راستہ نہیں چھوڑا ۔۔اب توایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہماری ہی تربیت میں کوئی کمی رہ گئی تھی ۔۔فیض صاحب نے مجھے ٹوکا اور بولے کہ نہیں برنا صاحب !کمی آپ کی تربیت میں نہیں اس لقمے میں ہے جو آپ اور میں کھاتے تھے اور جو یہ کھاتے ہیں ۔۔جہاں غلط اور صحیح میں تمیز مٹ جائے وہاں یہی ہوتا ہے جو ہمارے ’’بچے ‘‘ کررہے ہیں ۔۔میں نے کہا کہ فیض صاحب آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں ۔۔تقی صاحب نے کہا کہ برنا صاحب آپ کے دل کا بوجھ کیسے کم ہوگا ؟؟؟ میں نے سگریٹ کا ایک کش بھراا ور کہا کہ اس کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ ہمارے ’’بچے‘‘ جنہوں نے ہماری تحریک کی باگ دوڑ سنبھال رکھی ہے ۔۔ہماری قبروں کو بیچنا چھوڑ دیں ۔۔(عمیر علی انجم)