تحریر: سید بدر سعید
یہ لگ بھگ دو سال پرانی بات ہے ۔ کراچی سے ایک ڈرامہ پروڈیوسر لاہور آئیں ۔ یہاں پوش علاقے کے ایک گیسٹ ہاؤس میں رات لگ بھگ 11 بجے ان کے ساتھ درویش کی میٹنگ تھی ۔ موضوع ظاہر ہے ڈرامہ کے حوالے سے ہی تھا ۔کچھ دیر تبادلہ خیال ہوا ، چائے پینے کے دوران کہنے لگیں آپ جانتے ہیں ڈرامہ کیسے ہٹ ہوتا ہے ؟ درویش چونکہ سیکھنے کے موڈ میں تھا اس لئے نفی میں سر ہلا کر چائے پینے لگا ۔ وہ ایک لمحہ کے لیے خاموش ہوئیں پھر کہنے لگیں۔ یہاں ڈرامہ میں لڑکی بکتی ہے ، اس لئے ڈرامے کی کہانی لڑکی پر ہونی چاہیے ۔ آپ اپنے اسکرپٹ میں جتنے خواب بیچو گے اتنا ڈرامہ کامیاب ہو گا ۔ مڈل کلاس لڑکیوں کو خواب بیچا کرو ۔ ڈرامہ عموما رات 7 بجے چلتا ہے ۔ یہ وہ وقت ہے جب ایلیٹ کلاس کی خواتین پارٹیز میں ہوتی ہیں ۔ مرد دوستوں کے ہمراہ ہوتے ہیں ۔ باقی بچتی ہیں مڈل کلاس لڑکیاں جنہیں اس وقت عام طور پر گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی یا پھر انہیں کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا ۔ اس لئے ڈرامہ میں دو کام ایک ساتھ رکھیں ۔ ایک یہ کہ ہیروئن کو انتہائی مظلوم بنا دیں ۔ا سکول ٹیچر ہے تو بھائی نشی ہے جو تنخواہ چھین لیتا ہے ۔ سادہ اتنی ہے کہ نند وغیرہ بےوقوف بنا کر پھنسا دیتی ہیں ۔ باپ بیمار ہے یا مر چکا ہے ۔ سہیلی زیادہ چالاک ہے ۔ غرض ایک معصوم ، محنتی ، نیک دل ، خدا ترس ، غریب اور دوسروں کی مدد کرنے والی ایسی ہیروئن ڈال دیں جس میں ہر مڈل کلاس لڑکی کو اپنا آپ نظر آنے لگے ۔ اب اسے خواب بیچیں ۔ کزن ، دوست کو ئی ایک امیر عاشق ڈالیں ، بڑے بڑے گھر بھی اسی لیے دکھائے جاتے ہیں کہ یہ مڈل کلاسیوں کا خواب ہے ، بہترین لباس ، جیولری ، بڑی گاڑیاں ، غرض جتنے خواب بیچے جا سکتے ہیں وہ سب ڈال دیں ۔ لڑکی کا دل بار بار توڑیں ، اسے بار بار رولائیں ، محبت دیں اور پھر دھوکہ بھی دیں ، سازشیں ڈالیں اور پھر کامیابیاں دیں ۔ بس یہی فارمولا ہے ۔ مڈل کلاس لڑکیوں کو خواب دکھائیں اور پھر ریٹنگ لیں ۔ میں نے بے ساختہ کہا: یہ کام تو کالج کے لونڈے بھی کرتے ہیں ، خواب بیچنا اور پھر بدلے میں ریٹنگ لینا ۔ وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں: ڈرامے بھی تو وہی بےوقوف لڑکیاں ہی دیکھتی ہیں جو خواب دکھانے والے لونڈوں کو ”ریٹنگ” دیتی ہیں ۔ (سید بدر سعید )