تحریر: سید بدرسعید۔۔
والد مرحوم نے زندگی گزارنے کا ایک اصول سکھایا تھا جسے ہم نے تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ مائیکرو فنانس پارٹنر شپ کے طور پر اپنا لیا ۔ میرے کئی دوست اسی طرح کم سرمایہ اور مخلص ٹیم کی مدد سے کم آمدنی والی ملازمتیں چھوڑ کر اپنے کاروبار میں خودکفیل ہو چکے ہیں ۔
بات کچھ بھی نہیں تھی ۔ ابا جی نے ایک بار کہا تھا کہ : اگر تین بھائیوں کے پاس دس دس روپے ہوں لیکن سب کی ضرورت تیس روپے کی ہے تو ایک ہی حل ہے ۔ کسی کا محتاج بننے یا سبھی ناکام رہنے کی بجائے ایثار سے کام لو ۔ اپنے دس روپے دوسرے بھائی کو دے دو ،اس طرح تینوں میں سے ایک بھائی کی ضرورت پوری ہو جائے گی ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی گھر میں ایک بھائی کے بچے کی کالج فیس جمع کروانے کا وقت آ جائے تو عموما ماہانہ اخراجات سے اچانک فیس ادا کرنا ممکن نہیں رہتا ۔ ان حالات میں تین بھائی مل کر ایک بھائی کے بچے کی فیس ادا کر سکتے ہیں ، اگلے ماہ دوسرے اور اس سے اگلے ماہ تینوں بھائی مل کر تیسرے بھائی کے بچے کی فیس ادا کر دیں تو نہ گھر میں پریشانی آئے گی اور نہ ہی کوئی کسی کا مقروض ٹھہرے گا ۔ یہ “میوچل ساتھ” کہلاتا ہے ۔
سر! یہی فارمولا ہم اپناتے ہیں ۔ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے ایک دوسرے کے لئے اپنی ضروریات محدود کر دینا یا ایک دوسرے کے سہارے کامیابیاں حاصل کرنا اتنا مشکل نہیں ہوتا ۔
مثال کے طور پر میں کڑک چائے کا عادی ہوں ، ڈھابوں پر دوستوں کے ساتھ بیٹھا رہتا ہوں ۔ یہ چائے مجھے عموما 20 سے 30 روپے فی کپ پڑتی ہے ۔ دودھ پتی کا ریٹ کبھی اس سے بھی بڑھ جاتا ہے ۔ تین چار دوستوں کے ساتھ گپ شپ ہو تو ایک نشست میں 200 روپے تو معمول کی بات ہے اور یہ بھی لازم نہیں کہ دن میں صرف ایک ہی نشست جمے ۔ میرے ہر ماہ اسی مد میں بہت پیسے لگ جاتے تھے ۔
اب میرے پاس دو راستے تھے ۔ ایک یہ کہ باقی لوگوں کی طرح میں بھی ہر روز پہلے اپنی جیب دیکھوں اور حساب کتاب لگائوں کہ آج جیب میں کتنے پیسے ہیں ، آج چائے پینی ہے یا نہیں ، کتنے دوستوں کو بلانا ہے وغیرہ وغیرہ ۔
میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ۔ میرے پاس کچھ پیسے تھے ، میں نے یہ انویسٹمنٹ ایک بےروزگار مگر محنتی نوجوان پر کر دی ۔ شہر میں ایک جگہ اسے اڈا لے کر دیا اور چائے کا کھوکھا کھلوا دیا ۔ لگ بھگ 20 ہزار میں ایک چھوٹا سا ایسا سیٹ اپ لگ گیا جسے وقت کے ساتھ مزید بڑھایا جا سکتا تھا ۔ دو بڑے پتیلے ، دو درجن کپ ، 6 کیتلی، ایک چولہا ، ایک سٹینڈ ، چائے کی پتیلی ، ایک بیسن ، کچھ چھوٹا موٹا سامان اور تین بنچ اس “کاروبار” کا کل اثاثہ بنے ۔
اب دوسرا مرحلہ تھا ۔ میں نے جسے ملازم رکھا تھا اسے مالک بنا دیا ۔ اسے کہا کہ مجھ سے دو تین ڈیل کرو اور دیہاڑی کی بجائے اس کاروبار کے مالک بن جائو۔ پہلی ڈیل یہ کہ مجھے یہ پیسے واپس نہیں چاہئے ۔ یہ بیس ہزار زندگی کے کسی مقام پر اپنے جیسے کسی ضرورت مند پر لگا دینا ۔ دوسری ڈیل یہ ہے میں اور میرے دوست یہاں جب بھی آئیں تم ہم سے منافع کی بجائے کاسٹ یعنی خرچہ لو گے ۔ وہ اسے احسان سمجھتے ہوئے فری پر آمادہ تھا لیکن میں جانتا تھا کہ یک طرفہ فائدہ یا فری کسی بھی کاروبار کو ختم کرنے کی وجہ بنتا ہے ۔ سو دوسری ڈیل یہ ہوئی کہ میں جب بھی چائے پیوں گا اس کا خرچہ ادا کروں گا ۔
اب وہ نوجوان اس ڈھابے کا مالک تھا ۔ اس کی دلچسپی پہلے سے بڑھ چکی تھی ۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں کہ ملازم کاروبار بڑھانے کی بجائے اپنی کمائی میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مالک اپنی جیب روک کر اپنا کاروبار بڑھاتے ہیں ۔
میں نے رسک لیا تھا ۔ عین ممکن تھا کہ دو ماہ بعد وہاں وہ ڈھابہ بھی نہ ہوتا لیکن دوسرا پہلو روشن تھا کہ ایک بےروزگار شخص اپنا روزگار کما رہا ہوتا ۔ شہر میں ایسی دو انویسٹمنٹ ہوئیں تو شہر کے دونوں جانب میرے دو ٹھکانے بن گئے ۔
اب حالات یہ ہیں کہ ایک لیٹر دودھ میں دودھ پتی یا چائے کے لگ بھگ 13 سے 14 اچھے کپ نکلتے ہیں ۔ اچھے سے مراد سپیشل چائے ہے ۔ مجھے ان ڈھابوں سے دودھ پتی یا چائے پروٹوکول یعنی عزت کے ساتھ اتنی سستی ملتی ہے کہ 12 سے 13 کپ چائے کے بعد صرف ایک لیٹر دودھ کی قیمت ادا کرتا ہوں یعنی 80 سے 90 روپے ، آپ یہ سمجھ لیں کہ 12 کپ دودھ پتی مجھے 100 روپے میں پڑتی ہے ، اور میں 12 افراد کی چھوٹی سی نشست 100 روپے میں ارینج کرنے کا اہل ہو چکا ہوں ۔ اب یہ فکر نہیں رہی کہ بٹوا جیب میں ہے یا نہیں ۔ جہاں دوست ملے ، انہیں ساتھ لیا ، ڈھابے پر پہنچے ، چائے کا آرڈر کیا ، جتنی دیر دل کیا بیٹھے گپ لگاتے رہے اور پھر اٹھتے وقت کہہ دیا ، یار پیسے میرے کھاتے میں لکھ لینا یا پھر سو دوسو روپے تھمائے اور کہا باقی پیسے کھاتے میں درج کر دینا ، اگلی بار پورے ہو جائیں گے ۔
یہ دو طرفہ کاروبار ہے ۔ دراصل میں نے کمایا نہیں لیکن اپنے اخراجات کم کر لیے ہیں ۔ آپ جس مہنگائی کا رونا روتے ہیں اسے میں اپنے لئے اسی طرح کم کرنے کا فارمولا تلاش کر چکا ہوں۔ کیا ضروری تھا میں کاروباری لالچ کا شکار ہوتا اور ہاتھ کچھ بھی نہ آتا ؟ کیا یہ بہتر نہیں تھا کہ میں کسی قسم کی پریشانی مول لیے بنا ایک لمبی اننگز کھیلتا ۔ جو دیہاڑی دار نوجوان اپنے “کاروبار” کا مالک بنا اسے لگتا ہے میں نے اس پر احسان کیا ہے حالانکہ سچ یہ ہے کہ وہ مجھ پر احسان کر رہا ہے ۔ شاید اب تک میری ابتدائی انویسٹمنٹ پوری ہو چکی ہو لیکن کاسٹ ریٹ پر چائے پینے کا سلسلہ تاحال جاری ہے ۔
سر! زندگی میں دوسروں کو روند کر آگے بڑھنا ہی کامیابی نہیں ہے ۔ زندگی میں ایک قدم پیچھے ہٹا کر کسی اور کو وکٹری پوائنٹ تک پہنچانا بھی کامیابی ہے ۔ بہت سی کامیابیاں کسی اور کے لئے وکٹری پوائنٹ ہوتی ہیں لیکن آپ کو اس سے آگے جانا ہوتا ہے ، ایسے موقع پر ٹھہرنے والے کو کامیاب کروا دینے سے نقصان نہیں ہوتا ۔ کچھ دوست کہتے ہیں کہ میں خود کاروبار میں پارٹنر شپ رکھتا تو زیادہ کما رہا ہوتا ۔ میں کہتا ہوں کہ یہ میرا کام ہی نہیں تھا ، اس ڈھابے کے جوڑ توڑ اور ٹینشن میں اپنی اصل منزل سے ہٹ جاتا سو یہ میرا ایک پوائنٹ تھا جسے کسی قسم کی ٹینشن پالے بنا اپنا سٹنگ پوائنٹ بنانے میں کامیاب رہا ہوں ۔ فارمولا وہی ہے جو والد محترم نے بتایا تھا کہ تین بھائی محلے داروں کے مقروض ہوں اور قرضہ میں پھنسیں اس سے بہتر ہے ایک دوسرے کی ضروریات پوری کرتے ہوئے کسی ایک کا مسئلہ حل کروا دیں ۔ اضافی ٹینشن بوجھ ہوتی ہے جو ہم خود پالتے ہیں ۔ تھوڑی سی پلاننگ کے ساتھ ہم ایسے اضافی بوجھ سے بچ سکتے ہیں ۔ کیا آپ کو اچھا نہیں لگے گا کہ آپ کسی دن میرے ساتھ کسی ڈھابے پر بیٹھے ہوں اور چائے پینے کے بعد میں ڈھابے کے مالک کو صرف اتنا کہتا ہوا باہر نکل جائوں کہ “کھاتے میں “۔ کیا یہ عزت کمائی جاتی ہے جہاں آپ مالک نہ ہو کر بھی مالک کی طرح اٹھتے بیٹھتے ہوں ؟؟؟ یہ محبتیں ہیں ۔ جتنی پھیلائیں گے اتنی ہی لوٹ کر آئیں گی ۔ مائیکرو فنانس پارٹنر شپ ہمین یہی سکھاتی ہے کہ مل کر کم سرمایے سے ایک دوسرے کی مدد کریں تاکہ سبھی کو فائدہ ہو (سید بدر سعید)