تحریر : عمیرعلی انجم۔۔
میرے ہاتھوں میں موبائل فون ہے اور اس وقت وڈیو چل رہی ہے جس میں کراچی کے صحافیوں کی جانب سے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید کی پریس کانفرنس کے بائیکاٹ کے مناظر دکھائے جارہے ہیں ۔۔صحافیوں کی اکثریت اپنی نشستوں پر براجمان ہیں ۔مائیک ہٹانے کا یہ سلسلہ نیشنل پریس کلب اسلام آباد سے شروع ہوا تھا لیکن وہاں صرف تین چینلز زیر عتاب تھے جو اپنے ورکرز کو بے روزگار کررہے تھے یا پھر ان کی تنخواہیں ادا نہیں کی جارہی تھیں ۔۔وہ کہتے تھے کہ ہمارا آپ سے کوئی اختلاف نہیں ہے ہمارا احتجاج مالکان کے خلاف ہے ۔۔اصولی طور پر یہ موقف بالکل درست تھا ۔۔کراچی میں شروع ہونے والی ”مائیک ہٹاؤ” مہم مجھے مصنوعی سی نظر آرہی ہے ۔پہلے تو مجھے لگتا تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے لیکن اب ایسا لگ رہا پوری دال ہی کالی ہے ۔مجھے اس پوری مہم کے پیچھے کوئی ایک نہیں کئی ”گارڈ فادرز” نظر آرہے ہیں ۔عظیم رہنما مجھے اس وقت ”کٹھ پتلی” نظر آتے ہیں اور ان کی ڈوریں مجھے ان لوگوں کے ہاتھوں میں نظر آتی ہیں جن کے ہاتھ صحافیوں کی ”بھوک” میں رنگے ہوئے ہیں ۔شیخ رشید کی پریس کانفرنس کے بائیکاٹ سے اگر صحافی بیروزگار ی سے محفوظ رہ سکتے ہیں تو سو بسم اللہ لیکن کہیں ایسا نہ ہو بیچارےغریب صحافی رعایتی قیمت پر ریلوے کے سفر سے بھی محروم نہ ہوجائیں ۔۔کہیں تو سنجیدگی دکھائیں ۔۔تنخواہیں حکومت نے ادا کرنی ہیں یا سیٹھوں نے؟؟؟کاروبار سیٹھ کررہے ہیں یا حکومت ؟؟؟صحافیوں کوبے روزگار مالکان کررہے ہیں یا حکومت وقت ؟؟ جس کے خلاف بات کرنی چاہیے ان کے خلاف آپ کے لب خاموش ہیں ۔۔ایسا نہیں ہے کہ ہماری رہنمائی کرنے والے سب ہی بے حس لوگ ہیں ۔۔۔کچھ مخلص لوگ بھی ہیں اور سنجیدگی سے چاہتے ہیں کہ صحافیو ں کی فلاح کے لیے کچھ کیا جائے لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اب ”استعمال” ہورہے ہیں ۔۔کوئلے کی دلالی میں ہاتھ کالے ہی ہوتے ہیں ۔۔مجھے اس دن کا انتظار ہے جب میرے عظیم رہنما مالکان کے گھروں کے گھیراؤ کریں گے اس دن میں کاندھے سے کاندھا ملا کر ان کے ساتھ ہوں گا ۔۔آپ براہ راست حکومت تک پہنچ گئے بیچ میں جو کڑی مالکان کی شکل میں موجود ہے آپ نے اس کو مقدس گائے بنایا ہوا ہے ۔۔۔۔میر شکیل الرحمن سے لے کر سلطان لاکھانی تک کیا آپ نے کسی صحافی رہنما کی زبان سے ان کے لیے کوئی تلخ الفاظ سنے ۔۔۔ایک انگریزی مقولہ ہے کہ ”خیرات کا آغاز اپنے گھرسے کرو” تو میرے عظیم رہنماؤں احتجاج کا آغاز اپنے گھر سے کرو ۔۔بائیکاٹ حکومتی وزراء کا نہیں اپنے اداروں میں فرائض کی انجام دہی کا کرو ۔۔جب کام نہیں ہوگا تو پھر اندازہ ہوگا کہ سیٹھ نفع میں ہے یا نقصان میں ۔اگر آپ کے بائیکاٹ سے مالکان کے کاروبار کو گزند پہنچتی ہے تو سمجھ جائیں مسئلہ گھر میں ہے ۔وہ آئے گا اور آپ کو منائے گا ۔۔کچھ تو سمجھو ۔۔اب بھی نہ سمجھے تو وقت سمجھائے گا ۔۔اور وقت کا سمجھانا پچھتانے بھی نہیں دیتا ۔۔اور چلتے چلتے صرف اتنا کہوں گا”’ وہ چراغ جسے آندھیاں بھی نہ بجھاسکیں ۔۔اسے گھر کی ہوا نے بجھادیا ۔۔۔(عمیر علی انجم)۔۔
(عمران جونیئر ڈاٹ کام کا اس تحریر سے متفق ہونا ضروری نہیں، علی عمران جونیئر)