تحریر: محمود شام۔۔
کچھ طاقتور منہ زور ہوگئے ہیں۔ کچھ عجز کا شکار ہیں۔آئین نے جن کو طاقت دی ہے وہ سب سے کمزور ہیں۔ آئین سے ماورا جتنے ہیں ان کا طوطی بولتا ہے۔
کان سن سن کر پک گئے ہیں۔ اسٹاک ایکسچینج میں مندی آئی ہوئی ہے۔ اتنے ارب ڈوب گئے۔ ڈالر 196کا ہوگیا۔ جنوبی ایشیاکے اکثر ملکوں میں یہی حال ہے۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی تنظیمیں بہت کامیاب ہیں۔ آسیان۔ یورپی یونین۔ کینیڈا۔ امریکہ۔ سب ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔ آگے بڑھ رہے ہیں۔ سرحدیں بے معنی ہورہی ہیں۔ کرنسی ایک ہوگئی ہے وہ سب انسانی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسے ہر قسم کی سہولت پہنچانے کے لیے تحقیق کررہے ہیں۔ مصنوعات تیار کررہے ہیں۔ ایک ہمارے علاقے میں تعاون کے لیے سارک تنظیم آج تک کوئی پیشرفت نہیں کرسکی کیونکہ یہاں بھارت جیسا متعصب۔ توسیع پسند ملک موجود ہے۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ ہے۔ اس کے شہریوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ پاکستان بھارت اس علاقے کے دو بڑے ملک ہیں۔ دونوں کے درمیان کشیدگی 75 سال سے جاری ہے۔ علاقے کے دوسرے ملک سری لنکا۔ نیپال۔ بنگلہ دیش۔ اس کشیدگی کے یرغمال ہیں۔ اب سارک میں مسائل میں مبتلا ایک اور ملک افغانستان بھی شامل کردیا گیا ہے۔
ایک دنیا وہ ہے جو آپ کو میڈیا دکھاتا ہے۔ اس میں بھی عام لوگوں کے محسوسات، خیالات سامنے آتے ہیں۔ مگر میں تو ہمیشہ یہ سوچتا آیا ہوں کہ اصل احساس تو وہ ہے جو سینہ بہ سینہ چلتا ہے۔ حقیقی شاعری وہ ہے جو نوجوانوں کے دلوں میں اترتی ہے۔ مغرب والوں نے فیس بک۔ انسٹا گرام۔ ٹوئٹر و یو ٹیوب ایجاد کرکے رعایا کو مواقع دے دیے ہیں کہ وہ اپنے تاثرات ان دیواروں پر نقش کردیں۔ بادشاہ پہلے ہی نوشتۂ دیوار سے خوف کھاتے تھے۔ دیواریں صاف کروادیتے تھے بلکہ گروادیتے تھے۔ اب یہ سوشل میڈیا نے رنگین دیواروں کو جنم دیا ہے۔ لاکھوں کروڑوں انگلیاں ان دیواروں پر سچ ثبت کردیتی ہیں۔
مگر میں آج ایک اور آفاقی سچ کی بات کرنا چاہتا ہوں جو کہانیوں افسانوں میں بیان کیا جاتا ہے۔ ہم میڈیا والے اخبار نویس ہوں یا الیکٹرونک میڈیا والے ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم روزانہ کی تاریخ روزانہ قلمبند کرتے ہیں۔ مگر یہ تاریخ بہت ہی سرسری ہوتی ہے۔ ہم صرف چہروں تک رہتے ہیں۔ دل میں اترنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بہت مصروف ہیں۔ اس لیے ہمارا سچ ادھورا رہتا ہے۔ ادھورا علم ہمیشہ خطرہ جاں ہوتا ہے۔ اس لیے ہمارے مسئلے، مسئلے ہی رہتے ہیں۔ اکادمی ادبیات پاکستان نے سندھ، بلوچستان، جنوبی پنجاب، پنجاب، چترال، شمالی علاقوں، آزاد کشمیر، گلگت کے دلوں میں اترنے، ذہنوں میں جھانکنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ بر صغیر کے نامور لکھاری دیوندرستیارتھی نے بہت پہلے جنوبی ایشیا کے لوک گیت جمع کرنے کے لیے ہر علاقے کی یاترا کی تھی۔ پھر ہمارے سینئر رفیق کار شفیع عقیل صاحب نے دیس دیس کی لوک کہانیاں چنیں۔ اور پاکستان کی مختلف زبانوں کی لوک کہانیاں منتخب کیں۔ یہ کہانیاں عزم اور جدو جہد کی علامت ہیں۔ اور طویل تگ و دو سے منزل تک پہنچنے کی داستان بیان کرتی ہیں۔
میرے سامنے منتخب سندھی افسانے ہیں۔ منتخب گائوری کہانیاں منتخب کھورا کہانیاں۔ منتخب سرائیکی افسانے۔ اور منتخب پشتو افسانے۔لازوال تاثرات۔ ان علاقوں کی منہ بولتی تصویریں۔ یہاں کے آپ کے اور میرے ہم وطن کیا سوچ رہے ہیں، کیا محسوس کررہے ہیں؟ عنقریب ہی کشمیری، بلوچی، براہوی، بلتی شائع ہونے والی ہیں۔ پلومہ، توروالی، شینا اور دوسری زبانوں پر کام جاری ہے، ان کہانیوں میں ان علاقوں کے ضمیر جاگتے ہیں۔ غیرت پوری متانت کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے۔ قیام پاکستان اور اس کے بعد آنے والے ادوار۔ مختلف حکومتوں حکمرانوں کے مثبت منفی اقدامات نے ذہنوں پر کیا اثرات مرتسم کیے ہیں۔ میری سب کتابیں ان کی ایک ایک کہانی کے سامنے ہیچ ہوجاتی ہیں۔ یہاں سچ جھلکتا ہے۔ سندھی افسانوں میں انیس انصاری کی ابدی سچائی ’’ میں نے یتیم پوتی کو بھوکے پیٹ سونے دیا‘‘۔ خالص کھرا سچ۔منافقت نہ تصنع۔امر جلیل کی تاریخ کا کفن۔ ظفر حسن کی زخمی کتے کی کہانی۔ مانک حویلی کے راز۔ ڈیٹ ایکسپائرڈ شخص۔ حسرتیں بھی ہیں حیرتیں بھی۔ 75سال کے سندھ کے سماج۔ خاندانی دکھ۔ وڈیروں کے راج۔ گائوں سے شہروں کی طرف ہجرت۔سب دکھ نظر آتے ہیں۔ سرائیکی افسانوں میں اشو لال کی ابنارمل۔دوسرے کہانی کاروں کی ننگے بھوکے پینتالیسواں سال۔ سورج کا سندیسہ۔ سودا۔ ربڑ کے پتلے۔ جنوبی پنجاب کی سچی سماجی تصویریں ہیں جن میں معیشت بھی ہے۔ عمرانیات بھی۔ خراب حکمرانی بھی۔ کھوار۔ چترال کی زبانہے۔ بجوکا میں امریکہ جانے کا رجحان۔ یورمس اور دوسری کہانیوں میں جدید و قدیم تضادات۔ ہجرتیں۔ نقل مکانی سب کچھ ہے۔ شمالی علاقوں کی زبان گائوری میں کہانیاں مشکل سے یکجا کی گئی ہیں۔ رامیٹ کا چشمہ۔بیرا کا قبول اسلام۔ یہ رہن سہن کی مشکلات بھی بتاتی ہیں۔ محبت۔ الفت۔ یگانگت۔ جدو جہد بھی۔ بڑے شہروں میں زندگی کی آسانیاں تلاش کرنے کے رجحانات۔ پشتو افسانے اس لیے اہم ہیں کہ گزشتہ چند دہائیوں میں خیبر پختونخوا نے سب سے زیادہ زخم سہے ہیں۔ دہشت گردی میں سب سے زیادہ شہادتیں پشتو بولنے والے علاقے میں ہوئی ہیں۔ گیڈر سنگی، بھاری رات، صرف شرفا کیلئے۔ آخری بس، اسی ہزار روپے، بھیڑیا، تصویریں ہیں، فلمیں ہیں، فن پارے ہیں۔
دوسری زبانوں کی کہانیاں میں اکادمی کے جریدے ’ادبیات‘ میں دیکھتا ہوں۔ پوٹھوہاری۔ اور آس پاس کی زبانیں۔ ہمارے تجزیہ کاروں۔ اینکر پرسنوں کو اگر پاکستان اصلی اور حقیقی دیکھنا ہے تو ان کہانیوں میں جھانکیں۔ لکھنے والے بھی حساس۔ پھر وہ اپنے جیسے حساس کردار دیکھتے ہیں۔ ان کی آنکھوں کی چمک میں کھوجاتے ہیں۔ عام پاکستانی کیا سوچ رہا ہے۔ اسلام آباد میں رُونما ہوتی تبدیلیاں۔ صوبائی دارُالحکومتوں میں۔ اسمبلیوں میں ہونے والے ہنگامے ہمارے بزرگوں نوجوانوں مائوں بہنوں بیٹیوں کو کس طرح متاثر کررہے ہیں۔ یہ ان کہانی کاروں کی علامتی۔ تجریدی۔ اور براہ راست کہانیوں سے معلوم ہوگا۔ مائیک اور کیمرے کو دلوں میں، ذہنوں میں لے جانا ہوگا۔ افسانہ نویس۔ ناول نگار یہی فریضہ انجام دیتا ہے۔ تفریحی ٹی وی چینل اگر ان کہانیوں کو ڈرامائی شکل دیں تو ہمارے لاکھوں ناظرین کو وہ سیاسی۔ سماجی اور اقتصادی شعور مل سکتا ہے جس کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔ نجات کی صورت اس سے ممکن ہے۔ شادی شدہ مردوں عورتوں کے نئے عشق اپنی جگہ۔ لیکن اس اکثریت کے عشق بھی تو دکھائیں جو حقیقت ہے۔ یہ عشق ہی تو جلسوں میں سامعین کی تعداد بڑھاتا ہے۔ سچ کی تلاش میں جانے کہاں کہاں گھومنے پر مجبور کرتا ہے۔(بشکریہ جنگ)۔۔