تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
ایک نسبتاً فحش نما لباس میں آتش شوق بھڑکاتی اینکر کے حوالے سے شمعون عرشمان کی میاخلیفہ والی تحریر پر ہم بعد میں بات کرینگے لیکن پہلے یہ بات صاف صاف عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ اس اینکر کی حمایت میں کود پڑنےاور اسکےغم میں بلبلانے والوں کا اصل واویلا تو شریعت سے ہے کہ غلط اور صحیح کے معیارات اسی کے پیدا کردہ ہیں اور شریعت تو دراصل خدا اور اس کے پیارے رسول کی تعلیمات کا دوسرا نام ہے جس میں نہایت واضح طور پہ کسی بھی درجے کی بے حیائی اور معمولی سے لچر پن اور ادنیٰ سی فحاشی کے لئے بھی قطعاً کوئی برداشت نہیں ہے اور قرآن مجید و احادیث مبارکہ میں متعدد مقامات پہ اس بابت احکامات صراحت سے مذکور ہیں ۔۔۔ لہٰذا ان برائیوں کو برائی نہ سمجھنے والے اور مادر پدرآزادی کا تصؤر حرذ جاں بنالینے والے یہ گستاخ نعوذ باللہ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ قرآن کو نہیں مانتے اور خدا اور اسکے رسول سے زیادہ فہم کے حامل ہیں اور معاذاللہ ، نعوذ باللہ اپنے تئیں زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ برائی کیا ہے اور کیا نہیں ہے اور انسان کو کیا کرنا چاہیئے اور کیا نہیں ۔۔۔ یوں انکا جھگڑا ان برائیوں کی بابت ناپسندیدگی کا اظہار کرنے والے انصار عباسی اور شمعون عرشمان سے نہیں بنتا اور نہ ہی انکے خیالات کو شائع کرنے والے علی عمران جونیئر سے ۔۔۔ بلکہ درحقیقت وہ تو بے حیائی اور عریانی کے وکیل بن کر اللہ اور اسکے پیارے رسول کے مقابل سینہ تانے کھڑے ہیں ۔۔۔ اور یہ وہ طرز عمل ہے کہ جسے کوئی بھی نیک نفس مسلمان ہرگز گوارا نہیں کرسکتا۔۔
اس میں کیا شک ہے کہ کوئی لبرل جغادری جدیدیت اور انسانی آزادی کے نام پہ فحاشی و ننگے پن کی خوراک سے لبریز ولایتی راتب کتنا ہی چاٹ لے مگر اس کے ایک ذرے کو بھی کسی مسلمان کے لئے جائز اور حلال ثابت نہیں کرسکتا ۔۔ ایسے لوگوں کو میں اپنے گلے سے بچھڑی ہوئی بھیڑیں بھی کہہ سکتا تھا مگر بھیڑوں کی معصومیت اس کریہہ مماثلت کی تاب نہیں لاسکتی اس لئے عین مناسب ہے کہ اس غلیظ ذہنیت کے لوگوں کو انسانی قد کے کاکروچ سمجھا اور بولا جائے کہ جو ہر انسانی معاشرے کو ایک بڑا سا گٹر باور کرتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ ان کاکروچوں کے چلن ہی کو معاشرے کا دستور مانا جائے اور انکی احمقانہ ضد یہ ہے کہ ہر ممکن ہتھکنڈے کے بل پہ بدبو سے خوشبوکو مات دلائی جائے ۔۔۔ ولایتی ذہنیت کے تابع ، انکے شور شرابے کا خلاصہ فقط یہ ہے کہ اپنی معاشرت سے مذہب کو یکسر نکال پھینکو کیونکہ وہ شرم و حیا اور لباس کی مناسبت کی بات کرتا ہے اور وہ بھی اس ملک میں کہ جہاں مسلمانوں کی تعداد 96 فیصد ہے۔۔
شاید ایسے ہی کاکروچوں کی وجہ سے جدید دنیا کا چہرہ بننے والا سوشل میڈیا بڑی تیزی سے ایک ایسا بہت بڑا گٹر بنتا جارہا ہے کہ جہاں ہر طرف سے اور ہرطرح سے لگاتار پہنچنے والا گند اکٹھا تو ہوتا جارہا ہے مگر جہاں صاف پانی سے یہ گند دھو سکنے والےغائب ہوتے جارہے ہیں کیونکہ ان میں سے اکثر کو مصلحتوں کی چٹانوں کی اوٹ میں چھپتے دیکھا جاسکتا ہے ۔۔۔ ایسے میں یہ تو ہے کہ دو چار پھول پھینکنے سے خوشبو غالب نہیں آنے والی ۔۔۔ ہاں البتہ وہاں ذرا سی بھی خوشبو کی مہک پاکر اس سے خوفزہ ہوکر بہت سے کاکروچ آن کی آن ضرور بھرا مار کر گٹر سے نکل پڑتے ہیں اور جھٹ پٹ اس ‘گلاب پاش’ کو گھیرنے لگ جاتےہیں اور ان میں سے جو زیادہ لبرل ہیں وہ تو ایسے گستاخ کے جسم پہ رینگنے کی دیدہ دلیری پہ اتر آتے ہیں مگر یہ جو بھائی انصار عباسی اور شمعون عرشمان جیسے سرفروش ہیں یا اسی قبیل کے چند علی عمران جونیئر ٹائپ سرپھرے لوگ ، وہ تو اپنا عطر بیزی کا کام ترک نہیں کرتے ۔۔۔ انہیں اس سے کیا غرض کہ چھیل چھبیلی غریدہ فاروقی کو ناچ گانے سے بڑی دلچسپی ہے ( البتہ ایسی رغبت سے کسی کے ماضی کا بھی پتا چلتا ہے۔۔۔) ہاں اس بات سے ضرور غرض ہے کہ جب ایسی اطلاعات ملتی ہیں کہ انسانی آزادی اور حقوق نسواں کے نعرے مارتی یہ خاتون اپنے گھر میں کام کرنے والی ایک کمسن نوکرانی پہ ظلم ڈھاتی ہے اور اسے یرغمال بنالیتی ہے اور بات میڈیا آجاتی ہے تو پھر یہ اور اس طرح کے کئی انسانیت پرست صحافی اسکے غیر انسانی رویئے کو بےنقاب کرڈالنے میں ذرا نہیں ہچکچاتے۔۔
چلیئے مجھے کوئی لبرل ہی بتائے کہ اگر انصارعباسی نے پی ٹی وی پہ ٹرینر کے اکساہٹ پیدا کرتے ڈریس میں آنے پہ تنقید کی یا ایک بسکٹ کے اشتہار میں مہوش حیات کے بھڑکیلے رقص پہ اعتراض کیا یا شمعون نے ایک اینکر کے نہایت بیہودہ حلئے اور شرمناک لباس کی اشتعال انگیزی کی مذمت کی تو کیا انہوں نے یہ سب عین اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں کیا کہ جہاں اس بابت انگیخت کے ہرامکان کو مسترد کردیا گیا ہے اور جہاں اس بارے میں بات بالکل صاف اور دو ٹوک ہے ؟؟ اب مسئلہ یہ ہے کہ یہ لبرل کاکروچ تو کوئی شریعت وریعت جانتے ہی نہیں اور نہ ہی اسکی ضرورت محسوس کرتے ہیں البتہ انہیں کھل کے اسلام کو برا بھلا کہنے کی ہمت بھی نہیں پڑتی کیونکہ پھر عامتہ الناس فٹا فٹ انکے منہ توڑ کے ہاتھ میں دیدے گی اس لئےاپنا سار غصہ ان لوگوں پہ نکالتے ہیں کہ جو اس طرح کی بیہودگیوں کے خاتمے کے لئے آگے بڑھ کر صدائے احتجاج بلند کرتے ہیں ۔۔۔ میاء الخلیفہ کا لقب دراصل اس طرز معاشرت کو اپنا لینے والوں کے لیئے ایک پھبتی ہے کہ جو ترقی و شہرت کی سیڑھیاں چڑھ جانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں اور اسکے لیئے خواہ انکا سراپا انگیخت کا اشتہار ہی کیوں نہ بن جائے- درحقیقت یہ خطاب دینے پہ چند کاکروچز کے پیچ و تاب کھانے سے نہ تو حق گو کبھی چپ ہونے والے ہیں اور نہ ہی معاشرہ ان بیہودگیوں کو اپنے گھروں کی تہذیب کا حصہ بننے دینے کی اجازت دے سکتا ہے ۔۔۔
صاحبو ، یہ طے سمجھیئے کہ گندگی کے یہ سفیر کاکروچ جتنا چاہیں زور سے چیخیں سڑاند کو مہک کی جگہ نہیں دی جاسکتی اور نہ ہی معاشرے کو گٹرمیں بدلنے کی کوششیں کامیاب ہونے دی جاسکتی ہیں اور اسی لئے فحاشی و عریانی کو ‘ نظر کا پردہ’ جیسی گمراہ گن اصطلاحت کی آڑ میں فروغ دینے کی اجازت بھی ہرگز نہیں مل سکتی اور نہ ہی میرا جسم میری مرضی کی اوٹ سے کسی ذہنی گندگی کو پنپنے دیا جاسکتا ہے اور یہ سب غلاظت یقینناً اس ملک میں گوارا کی بھی نہیں جانا چاہیئے کہ جس کی تشکیل ہی عشق محمدی کا صدقہ ہے اور جہاں کے باسی اپنے پرچم سے اس لئے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں کہ وہ گنبد خضراء کی یاد دلاتا ہے۔۔(سید عارف مصطفیٰ)۔۔