علی عمران جونیئر
دوستو،ایک خبر کے مطابق نوجوان نکاح کے باوجود شادی نہ ہونے پر والدین کے خلاف تھانے پہنچ گیا۔یہ واقعہ ہے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ پنیالہ کے گاؤں کٹہ خیل کا، جہاں کے ایک رہائشی نوجوان کی جانب سے متعلقہ تھانے میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں نوجوان کی جانب سے کہا گیا ہے کہ میرا نکاح 2021 میں ہو چکا ہے لیکن والدین شادی کرنے کیلئے راضی نہیں ہو رہے۔ بتیس سالہ نوجوان نے تھانہ پنیالہ میں دی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ ابھی تک رخصتی و شادی نہ ہونے پر وہ کنوارہ ہے اور اپنے کنوارے پن سے سخت تنگ ہے اور بار بار والدین سے التجا کرچکا ہے کہ میری شادی کروائیں لیکن وہ ٹس سے مس تک نہیں ہوتے۔شادی کے حوالے سے ایک اوردلچسپ خبر بھی سن لیجیے،برصغیر پاک و ہند میں شادیوں کی تقاریب میں کھانے کے موقع پر عمومی طور پر افراتفری دیکھنے میں آتی ہے۔ پوری تقریب کے دوران اپنی نشستوں پر تہذیب سے بیٹھے ہوئے مہمان طعام کے موقع پر تمام آداب، تہذیب و شائستگی بھول جاتے ہیں اور کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ بعض اوقات تو چھینا جھپٹی یہاں تک کہ توتکار بھی ہونے لگتی ہے۔اسی نوع کا ایک واقعہ بھارتی ریاست اترپردیش کے علاقے میں پیش آیا، جہاں شادی کی تقریب میں رس گلے نہ ملنے پر لڑائی ہوگئی جس میں چھ افراد زخمی ہوکر اسپتال پہنچ گئے۔اس واقعے کے بارے میں بھارتی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شمس آباد تھانے کے ایس ایچ او نے بتایا کہ یہ واقعہ ان کے تھانے کی حدود میں پیش آیا۔ایس ایچ او کے مطابق برج بھان کشوا نامی شخص کے گھر پر شادی کا فنکشن تھا۔ اس موقع پر دیگر پکوانوں کے ساتھ ساتھ مہمانوں کے لیے رس گلے بھی رکھے گئے تھے جو مہمانوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے کم پڑگئے۔رس گلے نہ ملنے پر ایک شخص نے میزبانوں پر طنزیہ فقرے کسنے شروع کردیے جس کی وجہ سے لڑائی ہوگئی ،جس میں چھ افراد زخمی ہوگئے جنہیں علاج کے لیے اسپتال لایا گیا۔ا س واقعے کا مقدمہ بھی درج کرلیا گیا ہے۔ایس ایچ او کے مطابق ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ برس اعتماد پور میں رونما ہوا تھا جب شادی کی تقریب میں مٹھائی کم پڑجانے پر ہونے والی لڑائی میں ایک شخص کی موت واقع ہوگئی۔
آپ نے دونوں خبریں پڑھیں، ہمیں تو ڈیرہ اسماعیل خان کے نوجوان پر ترس آرہاہے، آزادی اسے کیوں زہر لگ رہی ہے، اس کی وجہ تو نوجوان ہی بہتر بتاسکتا ہے۔ایک نفسیاتی مریض نے جب یہ کہاکہ مجھے شادی نہیں کرنی، مجھے سب عورتیں بری لگتی ہیں۔۔تو ڈاکٹر نے اسے بڑے پیار سے سمجھاتے ہوئے کہا۔۔ شادی کرلو پھر تمہیں صرف ایک ہی عورت بری لگے گی اور باقی سب اچھی لگنے لگیں گی!۔۔روسی کہاوت ہے کہ بیوی خاوند کی دریافت ہوتی ہے اور خاوند بیوی کی ایجاد۔پرتگالی کہتے ہیں کہ کوئی بندہ اپنی بیوی کا ہیرو نہیں ہوتا اور کوئی عورت اپنے ہیرو کی بیوی نہیں ہوتی۔ امریکی سیانوں کا خیال ہے کہ بوڑھے کا شادی کرناایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی ان پڑھ اخبار خرید نا شروع کردے۔اٹلی والوں کی رائے ہے کہ جس مرد کی جرابیں پھٹی یا بٹن ٹوٹے ہوئے ہوں تو اسے دو میں سے ایک کام فوراً کر لینا چاہیے شادی کر لے یا طلاق دیدے۔ایک خاتون خانہ کسی ماہر نفسیات کے پاس مشورے کی غرض سے گئی اور کہنے لگی۔۔میں عاقل،بالغ،خودمختار اور معاشی طور پر مضبوط ہوں،مجھے خاوند کی ضرورت نہیں،لیکن میرے والدین بضد ہیں کہ میری شادی کریں، مشورہ دیں کہ مجھے اب کیا کرنا چاہئے۔۔ماہرنفسیات نے تسلی سے خاتون کی پوری بات سنی پھر کہنے لگا۔۔بے شک تم نے اپنی زندگی میں کافی کامیابیاں حاصل کرلیں۔۔ مگر سنو کبھی بے وجہ لڑنے کا دل کرے، کسی کو خوامخواہ ذلیل کرنا ہو یا کبھی غیر ارادی طور پر کچھ خامیاں یا ناکامیاں رہ جاتی ہیں۔۔ یا کسی غلطی سے کچھ غلط ہو جاتا ہے ۔۔ تو کیا تم وہ غلطی قبول کرو گی؟؟عورت نے برجستہ کہا۔۔نہیں بالکل بھی نہیں۔ماہرنفسیات بولا۔بس، اسی لئے تمہیں خاوند کی ضرورت ہے، تاکہ ناکامیاں اور غلطیاں سب اس کے سرتھوپ سکو۔خاتون نے فوری شادی کے لئے ہاں کردی، آخر پڑھی لکھی تھی ناں۔۔
روایت ہے کہ ارسطو، سکندراعظم کو عورتوں کی صحبت سے بچنے کی تعلیم و نصیحت کیا کرتا تھا جس کی وجہ سے حرم کی خواتین بہت تنگ تھیں۔ انہوں نے مل کر ایک منصوبہ بنایا اور ایک خوبصورت، شریر و الہڑ کنیز کو ارسطو کی خدمت میں دے دیا۔ کنیز نے اسے اپنی عشوہ طرازی کے جال میں پھانس کر ایک دن فرمائش کر دی کہ ارسطو گھوڑا بنے اور وہ اس پر سواری کرے گی۔ جب مذکور واقع، وقوع پزیر ہو رہا تھا ،ٹھیک اسی وقت خواتین حرم، سکندر سمیت کمرے میں داخل ہوئیں۔سکندر نے جب استاد کو ایک کنیز کے لیے “فرس فرشی” بنا دیکھا تو تعجب سے پوچھا۔۔اے استاد، یہ کیا استادی؟ ہمیں منع کرتے ہیں اور خود یہ۔۔۔۔ ارسطو جو نہایت کائیاں تھا، کھڑا ہوا اور بولا۔۔۔عزیز شاگرد، اس عمل کا مقصود بھی تمھاری تربیت ہے، خود سوچو جو عورت تمھارے استاد کو گھوڑا بنا سکتی ہے، تمھیں تو وہ گدھا بنا کر رکھ دے ۔باباجی فرماتے ہیں کہ عورتیں بہت مشکل ہیں، ہمیشہ اپنے ذہن کو تبدیل کرتی رہتی ہیں۔18 سال کی عمر میں وہ خوبصورت مرد چاہتی ہیں۔۔25 سال کی عمر میں وہ بالغ مرد چاہتی ہیں۔۔30 میں، وہ کامیاب مرد چاہتی ہیں۔۔40 کی عمر میں وہ establishedمرد چاہتی ہیں۔۔50 میں وہ وفادار مرد چاہتی ہیں۔۔60 میں مددگار مرد چاہتی ہیں۔۔ جب کہ مرد بہت سادہ اور معصوم ہوتے ہیں، وہ اپنی زندگی میں کسی بھی بدلتی ہوئی حالت کے لیے اپنا معیار ذائقہ کبھی نہیں بدلتے۔۔18 سال کی عمر میں وہ خوبصورت خواتین کو پسند کرتے ہیں۔۔25 سال کی عمر میں وہ خوبصورت خواتین کو پسند کرتے ہیں۔۔30 میں وہ خوبصورت خواتین کو پسند کرتے ہیں۔40 میں وہ خوبصورت خواتین کو پسند کرتے ہیں۔۔50 میں بھی خوبصورت خواتین کو پسند کرتے ہیں۔۔60 میں still وہ خوبصورت خواتین کو پسند کرتے ہیں۔۔70 اور 80 کی عمر میں بھی جب وہ بمشکل حرکت کر سکتے ہیں، تب بھی وہ خوبصورت خواتین کو پسند کرتے ہیں۔اس لیے شادی کے کچھ سال بعد جو اکثر خواتین مردوں پہ الزام لگاتی ہیں آپ بدل گئے ہیں، سراسر غلط اور بے بنیاد ہے کیونکہ مرد کبھی نہیں بدلتے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔لیجنڈ مزاح نگار مشتاق یوسفی صاحب فرماتے ہیں۔۔۔مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔