تحریر: صیاب محمود
میرے بچپن کے ہیرو اور کشمیر کے چہیتے مقبول بٹ اکثر ایک نغمہ گنگنایا کرتے تھے “اپنے لیئے جی گئی زندگی کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ اصل زندگی وہ ہے جو دوسروں کے لیے جی جائے”۔ مقبول بٹ نے اپنی پوری زندگی کشمیریوں کے لیے جی تھی اور انہیں کے لیئے موت کو بھی اپنے گلے لگا لیا تھا ۔ میں ایک بچہ تھا جب سن 1984 میں مقبول جیسے وطن پرست کو بھارتی حکومت نے پھانسی دیدی اور تہاڑ جیل میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ ایک بہادر لیڈر اور کشمیریوں کے ہیرو یاسین ملک کے ہیں جو آج وہ بھی تہاڑ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور مقبول بٹ کی یاد ان کو ستا رہی ہے ۔
بھارت نے نہ صرف مقبول بٹ ، میر واعظ عمر فاروق ، سید علی گیلانی ، عمر عبداللہ ، آسیہ اندرابی ، شبیر علی شاہ اور یاسین ملک و دیگر راہنماؤں پر ظلم کیا بلکہ ظلم کے پہاڑ ڈھا دیئے ۔ ایسے ایسے ظلم جو بیان کرتے ہوئے بھی قلم کانپ جاتی،ہونٹ لرز جاتے ،بدن کپکپا جاتا ، آنکھیں نم ہو جاتی اور دل دہل جاتا ہے ۔لیکن پھر بھی یہ ہیرو کسی محاذ پر چپ نہیں رہے بلکہ بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جد و جہد قائم رکھے ہوئے ہیں ۔ آئے روز جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی ” کشمیر بنے گا پاکستان ” کی صدا سنائی دیتی ہے ۔ اور کشمیری عوام میں سے امید کی کرن کو بجھنے نہیں دے رہے بلکہ آئے روز یہ کرن شمع کی طرح روشن ہوتی جا رہی ہے اور آزادی ان کا مقدر بن کر رہے گی ۔ گزشتہ دنوں ایک بار پھر یاسین ملک کو جیل میں ڈال دیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور کسی بھی فیملی ممبر سے نہیں ملنے دیا جا رہا ۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں سات لاکھ بھارتی فوج مو جود ہے،اور اب تو 20 دسمبر2018 سے مقبوضہ کشمیر میں صدارتی راج نافذ ہے ہر طرف ظلم و بربریت کا دور ودورہ ہے بچو ں،بوڑھوں اور نوجوان ،مرد وخواتین کو ہر روز سینکڑ وں کی تعداد میں گرفتار کرکے ان پر تشدد کیا جاتا ہے ،خوا تین کی بے حرمتی کی جاتی مگر یہ تمام ظلم و ستم اِن کو آزادی کی جد و جہد سے نہیں روک سکتے۔
کشمیر کی یہ عام خواتین ہیں جو کشمیر کی آزادی کے لیے سر بکف ہیں اور ساتھ ہی ساتھ وہ کشمیری خواتین رہنما بھی ہیں جن میں فرید ہ جو جموں اینڈ کشمیر محاذ کے پلیٹ فارم سے جمہوری انداز میں بھارت کی ہرجارحیت اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہی ہیں۔ بھارت نے مقبو ضہ جموں وکشمیر مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے برعکس بھارت کے مختلف علاقوں سے ہندو ں کو لا کر یہاں آباد کر نا شروع کیا ہے جس کے خلاف حریت قیادت آواز اُٹھا رہی ہے۔ آسیہ اندرابی ہیں جو دخترانِ ملتِ کشمیر کے پلیٹ فارم سے 1993 سے کشمیر کے حق خود ارادیت کے لیے خواتین کی راہنمائی کر رہی ہیں۔
پھر مشال ملک جو دوسری خواتین کے لئے مشعل راہ ہیں جو پاکستانی نژادکشمیر ی خاتون ہیں جہوےں نے مقبوضہ کشمیر ی لیڈر یاسین ملک سے 22 فروری2012 میں شادی کی۔ انہوں نے یہ شادی کشمیر کی آزادی کے عشق میں کی ،ان کے شوہر یاسین ملک اُس وقت سے اب تک بہت کم ہی آزاد رہے ہیں۔ وہ مسلسل بھارتی جبر کا نشانہ رہے ہیں جس کے باعث اُن کے گردے بھی بُری طرح سے متاثر ہوئے ہیں۔ یاسین ملک کو کئی بار جان سے مارنے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ نے ہر ایک کا وقت مقرر کیا ہے ۔ مشعال ملک کے مطابق بھارت کی جیلوں میں کئی بار کھانے میں زہر ملا کر دیا گیا لیکن اللہ کی طرف سے ان کا وقت مقرر نہیں کیا گیا ۔ ان کے بدن میں ابھی بھی زہر کے اثرات ہیں جو کسی بھی وقت اپنا اثر چھوڑ سکتے ہیں ۔ سلام ہے اس کشمیری راہنما کو جو اتنے مظالم سہنے کے باوجود ہر محاذ پر کشمیر کی آزادی کی بات کرتا ہے ۔ اور سلیوٹ ہے اس مرد مجاہد خاتون کو جو یاسین ملک کے شانہ بشانہ کھڑی ہے ۔ گزشتہ دنوں مشال ملک پریس کانفرنس کرتے ہوئے آبدیدہ ہو گئیں اور ان کی سات سالہ بیٹی بھی غمزدہ تھیں ۔ مشال ملک نے اعلان کیا کہ اب میں بھی یاسین ملک کے پاس تہاڑ جیل میں جا رہی ہوں اور میری بیٹی پاکستان اور کشمیر کے حوالے ہے ایک ماں ہونے کے ناطے اب مجھ سے یہ ظلم برداشت نہیں ہوتا ۔ یاسین ملک پچھلے 15 دنوں سے بھوک ہڑتال پر ہیں اور اب ان کی طبیعت ناساز ہے پوری قوم ان کے لئے آواز بلند کرے ۔
مشال ملک اس وقت جموں اینڈ کشمیر لیبر یشن فرنٹ کے پلیٹ فار م سے بطور چیر پرسن متواتر اور بہت موثر انداز میں کشمیریوں کی آزادی کی جد وجہدمیں مصروف ہیں اِ ن خواتین کے عزم و ہمت کو دیکھ کر انداز ہ ہو تا ہے کہ جب کسی قوم کی خواتین آزادی کے لیے اتنی پُر جوش ہوں تو پھر دنیا کی کو ئی قوت زیادہ دیر اَن کو غلام نہیں رکھ سکتی ۔ بھارتی سیاسی قیادت نے اپنی جانب سے تو یہ کوشش کی تھی کہ مسئلہ کشمیر کو الجھا کر اتنی تاخیر کردی جائے کہ یہ مسئلہ ہی نہ رہے مگر آج 72 برس گذر جانے کے باوجود یہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ برہا ن وانی شہید تک کشمیریوں کی تیسری نسل کا لہو گواہی دے رہا ہے کہ جلد کشمیر آزاد ہو گا ،یہاں ایک اہم جذبہ وہ ہے جو صوفی محمد یعقوب شہید جیسے کشمیریوں سے منتقل ہو تا آیا ہے۔(صیاب محمود)