تحریر: زکریا محی الدین
حیرت انگیز سا موضوع ہے ۔ میرا قوم لوط کی عادات و سکنات سے بخدا کوئی تعلق نہیں ۔ مگر کیا کروں، پہلی محبت تو انتہائی نجی معاملہ ہے مگر آخری محبت ایک ایسا معاملہ ہے جو جاننے والے جانتے ہیں ۔
جیونیوز کے سی ای او میر ابراہیم رحمان کو بہت لوگ برا بھلا کہتے ہیں ۔ کوئی ان کو انڈیا کا ایجنٹ کہتا ہے کوئی یہودیوں کا ۔ مگر یہ سارے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ابراہیم کی شاید تصویر دیکھی ہے ملے کبھی نہیں ۔ مجھے اب باقی کی زندگی اس تصور پر فخر رہے گا کہ میں نے میر ابراہیم کے ساتھ جیو نیوز میں کام کیا ۔۔براہ راست ان کی رپورٹنگ لائن میں ۔ ہو سکتا ہے کہ لوگ شاید یہ سمجھیں کہ شائد مجھے جیو نیوز میں دوبارہ سے نوکری چاہئے، مگر جو لوگ مجھے جانتے ہیں انہیں اچھے سے پتہ ہے کہ میں جیو کا پہلا اور شائد آخری جیو منہ پھٹ ہوں۔ یہ خطاب مجھے ابراہیم نے پہلے سالانہ فنکشن میں دیا تھا ۔۔۔ ایسی اب نہ تو میری کوئی خواہش ہے اور نہ اب اس عمر میں میرے اعصاب اتنے مضبوط ہیں کہ وہ ابراہیم کا پریشر برداشت کریں ۔
ابراہیم وہ واحد آدمی ہے جس سے جیو میں لوگ محبت کرتے تھے (بعد میں پتا نہیں کیا ہوا) ۔ میں نے اس سے زیادہ انتھک اور اندھا دھند کام کرنے والا انسان پہلے کبھی دیکھا نہ بعد میں ۔ وہ ہر کام کرنے والے کو پورا موقع دیا کرتا تھا ۔ لوگ جو مرضی آئے کہیں مگر ابراہیم اپنی مرضی صرف اس وقت مسلط کرتا تھا جب وہ ارادہ بنا بیٹھتا تھا ۔ میں نے بہت سارے ایسے کام کئے جس میں ابراہیم کی مکمل سپورٹ مجھے حاصل تھی۔ اگر لکھنا شروع کردوں تو یہ آرٹیکل بور ہو جائے ۔ ابراہیم ہی کی سپورٹ سے میں جیو انٹر ٹینمنٹ کو دوسرے اخبارات اور صحافیوں تک لے گیا ،جو یہ سمجھتے تھے کہ جنگ اور جیو شائد جنوبی کوریا ہے جس کے گرد آہنی دیوار کھنچی ہے۔ ابراہیم ہی کی سپورٹ سے میں جیو کو پبلسٹی کے دوسرے ذرائع میں لے کر گیا، باوجود اس کے کہ میں جانتا تھا کہ لوگ کہتے تھے کہ ہم خود اتنے مشہور ہیں ۔ ابراہیم ہی کی مدد سے میں نے انصاف کی بحالی میں کئی ایسے کام کئے جو عام حالات میں شائد نا ہوتے۔ سب سے بڑھ کر مجھے وہ سارے تجربے کرنے دیئے جو میں سمجھتا تھا کہ ہونا چاہئے اور چھوٹا منہ بڑی بات، آج تک سارے چینل اسی کو فالو کرتے ہیں ۔۔
کون مالک برداشت کرتا ہے کہ اس کا ایک معمولی ملازم یہ کہے کہ جائیں یار ابھی میں کام کررہا ہوں بعد میں آؤں گا ۔۔کون مالک ہے جو اپنے بھائی سے یہ کہے کہ فلاں سے آرام سے بات کرنا بہت مصروف ہوتا ہے؟ میرے علم میں تو ایسا کوئی بھی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ میں جیو کے بعد ایک چینل لانچ کرنے بہا ولپور گیا تھا ۔ وہاں اس چینل کے مالک نے کہا کہ میں میر ابراہیم سے اونچی چیز ہوں مجھے ہنسی آگئی ۔ میں نے کہا یار آپ ابراہیم کے دو سو کلو میٹر پاس سے بھی کبھی گزرے ہیں ؟ ہنسی ختم نوکری ختم ۔ پیسے آج تک نہیں ملے۔۔۔میر ابراہم ایک انتہائی پیشہ ور مالک ہے۔ اس کے ساتھ کام کرنا میرے لئے فخر کی بات ہے کہ میں کسی ایسے سے ملا ۔ اس نے میرا ہی کیا، سب کا بہت خیال کیا اور شائد جتنی کھلی بات اس سے میں کردیا کرتا تھا کسی کی ہمت نہیں تھی۔ یہ اس کی مہربانی ہے کہ اس نے مجھ جیسے آدمی کو جو انتہاسے زیادہ بدتمیز ہو، مصلحت نہ جانتا ہو ، کام کے معاملے میں کسی کی نہ سنتا ہو کو بارہ سال برداشت کیا ، کام کا موقع دیا، میری سنی مجھے اہمیت دی اور شائد مجھ سے پیار کیا ۔
ابراہیم صاحب نہ پہلی نہ آخری محبت دل سے جاتی ہے۔۔آپ تو میری آخری محبت ہیں۔۔
اب اگر لوگ یہ سمجھیں کہ میں نے شائد چاپلوسی کے لئے یہ سب کچھ لکھا ہے تو بھائیو۔۔مجھے جیو سے نکالا گیا تھا ۔ابراہیم صاحب کے علاوہ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ وہ مجھے اس وقت نوکری سے نکال دے۔ یعنی مجھے نکالا بھی ابراہیم نے۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ کیا وجہ تھی۔ کبھی کبھی دو لوگوں میں سے ذیادہ اہم کو چننا ہوتا ہے۔۔۔اس وقت معاذ احسن غامدی اہم تھا ،بس اپنی عادت نہیں تھی پیٹھ پیچھے بات کرنے کی ۔۔تو اس سے جو محبت میں ابراہیم سے کرتا ہوں اس پر فرق نہیں پڑتا ۔
مجھے ابراہیم یہودی ایجنٹ لگے نہ انڈین ۔۔میں نے انہیں پاکستان کے لئے کام کرتے دیکھا ہے۔۔۔یہ اور بات ہے کہ شائد کسی کو پسند نہ ہو ۔ میں پھر لکھ رہا ہوں بھیا مجھے جیو میں نوکری نہیں چاہئے۔ یہ صرف ایک ایسے آدمی کی محبت میں لکھا ہے جو ایک سچا،پیشہ ور اور ایک سچا پاکستانی ہے۔ رہے نام اللہ کا۔۔
(زکریا محی الدین)