تحریر: عبدالقادر حسن
محترم قارئین کی کرم نوازیوں کی کوئی انتہا نہیں ہے، کسی دن ناغہ ہو جائے چاہے وہ میری ہفتہ وار چھٹی ہی کیوں نہ ہو تو قارئین کی جانب سے برقی مراسلات اتنے زیادہ ہو جاتے ہیں کہ فرداً فرداً پڑھنا مشکل ہو جاتا ہے اور میرے جیسے روایت پسند لکھاری کے لیے جو ابھی تک پیڈ پر کاغذ لگا کر لکھتا ہے ان سب کے کمپیوٹر یا فون پر جواب لکھنا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
اگر میں یہ برقی تحریریں اخبارات کے صفحات پر منتقل کر نا شروع کر دوں تو شاید مجھے خود سے کافی دنوں تک کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ لیکن اپنی عدیم الفرصتی کی وجہ سے جواب نہ دوں اور تازہ کالم لکھنے کے لیے یہ تحریریں نہ بھی چھاپوں تب بھی یہ مراسلے میر ی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
اگر میں سچ کہوں تو میری ساری کالم نگاری ان خطوط کی تحریک اور ان خطوط کے مواد کی وجہ سے ہے، ملک کے کونے کونے اور دنیا بھر سے میرے نادیدہ قارئین مجھے یاد کرتے ہیں، مجھے مشورے دیتے ہیں، مجھ پر دیانتدارانہ تنقید کرتے ہیں، کالم کے لیے دلچسپ مواد بھی فراہم کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ مجھے اپنی مخلصانہ اور بے لوث دعائوں میں شامل رکھتے ہیں وہ دعائیں جو کوئی عزیز رشتہ دار یا کوئی دوست نہیں دے سکتا صرف وہی انسان دے سکتا ہے جسے مجھ سے کوئی غرض نہیں ہے اور جسے ان ناقص خیالات سے اتفاق ہے جو میں ظاہر کرتا رہتا ہوں۔
کبھی یہ جی چاہتا ہے کہ میں یہ دعائیں چھاپ دوں جن سے مجھے اپنی مرحومہ ماں کی دعائیں یاد آتی ہیں مگر یہ معاملہ سو فیصد ذاتی اور قاری اور میرے درمیان ہے۔ میرے وہ قارئین بھی ہیں جو میری کسی پریشانی میں اپنے آپ کو شریک کر لیتے ہیں اور اس کے لیے ہر طرح کے مشوروں سے نوازتے ہیں۔ میں نے اپنے کالم میں جب بھی کسی ذاتی پریشانی کا ذکر کیا یا کسی مسئلہ کے بارے میں قارئیں سے اپیل کی تو ملک کے کونے کونے سے فون اور پیٖغامات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ میرے دیرینہ قارئین کا مجھ سے محبت کا زندہ ثبوت ہے۔
میرے وہ قارئین بھی ہیں جو سخت ترین الفاظ میں مجھے یاد کرتے ہیں ۔ تند و تیز تحریر سے جب ان کی تسلی نہیں ہوتی تو یہ تحریر بعض اوقات گالیوں کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہے حالانکہ میں بھر پور کوشش کرتا ہوں کہ عمر کے اس حصے میں کوئی ایسی بات تحریر نہ کروں جو کسی کو بری لگ جائے مگر کیا کیا جائے اس نوجوان نسل کا جو مثبت تنقید کو بھی برداشت نہیں کرتی اور صرف اپنے مطلب کی بات ہی پڑھنا چاہتی ہے جو کہ میرے لیے ممکن نہیں کہ کسی کی خواہش کو اپنی تحریر میں جگہ دوں۔
بہرحال ایک بات کا اطمینان رہتا ہے میرے یہ تنقید نگار قاری میرا کالم باقاعدگی کے ساتھ پڑھتے ہیں اور یہی میری سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ کوئی صحافی قطع نظر اتفاق یا اختلاف کے جب تک پڑھا جاتا ہے تب تک وہ بطور صحافی زندہ رہتا ہے جس دن اسے پڑھنا چھوڑ دیا گیا اس دن وہ ختم ہو گیا خواہ وہ کاغذ پر موتی ہی کیوں نہ بکھیرتا رہے اور سنہری حروف ہی کیوں نہ لکھتا رہے ۔ اب تو جدید صحافت میں اس قدر تیزی سما چکی ہے کہ اگر آپ کچھ دن کے لیے نہ لکھیں تو لوگ آپ کو بھول جاتے ہیں اور آپ کی جگہ کوئی اور لے لیتا ہے اس لیے ہمیں اب باقاعدگی کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے تا کہ حاضری بھی لگتی رہے اور قارئین کے ساتھ تعلق بھی جڑا رہے۔
میرے اکثر ناراض قارئین اپنے مراسلوں میں اپنا نام تک نہیں لکھتے۔ میں اپنے سے اختلاف رکھنے والے ناراض اور برہم قارئین سے عرض کروں گا کہ وہ مجھ پر اعتماد کریں کہ میں اتنا کم حوصلہ نہیں ہوں کہ ان کو کسی قسم کا کوئی نقصان پہنچائوں گا ۔ درحقیقت میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اس قدر شدید اختلاف رکھنے کے باوجود مجھے پڑھتے ہیں اور نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ وقت نکال کر مجھے اپنی تحریریں بھی مختلف ذرائع سے بھجواتے ہیں ۔
کوئی تیز طرار مخالفانہ تحریر موصول کر کے میں ضرور سوچتا ہوں کہ مجھے سے کہاں اور کیا غلطی ہو گئی جو کوئی میرا مستقل قاری مجھ سے اس قدر برہم ہو گیا جس کے ساتھ میرا تعلق صرف تحریر کا ہے وہ یقینا میری کسی تحریر سے ناراض ہوتا ہے اور عین ممکن ہے کہ میرے اور بھی قاری مجھے سے میری کسی تحریر سے ناراض رہتے ہوں لیکن اپنی ناراضگی مجھ تک پہنچا نہیں پاتے، شاید وہ مجھے لاعلاج سمجھتے ہوں ۔
اگر مجھے اپنی کسی تحریر پر قاری کا اعتراض درست نظر آتا ہے تو میں آیندہ کے لیے اپنی رائے بلا تکلف اور بلا حیل و حجت بدل لیتا ہوں اور اگر اعتراض درست نہ ہو تو میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ ہر کسی کو اختلاف رائے اور اعتراض کا حق ہے۔ لیکن جس طرح کسی قاری کو اپنی ایک رائے رکھنے کا حق ہے اسی طرح مجھے بھی اپنی رائے رکھنے کا حق ہے ۔ اصول کی بات تو یہ ہے کہ ایک عربی محاورے کے مطابق ہر ایک کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے اور ہر رائے محترم ہے اختلاف کو برداشت کیا جائے اور کسی پر اپنی رائے نہ ٹھونسی جائے۔(بشکریہ ایکسپریس)