تحریر:صادق حسین
عیدالفطر کےپہلے روز چھٹی کرلی اگلے دن آفس چلا گیا , عید کے دوران گھر پر مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا بیگم نے ہر قسم پکوان بھی تیار کیے , ساتھ ٹھنڈے ٹھنڈے مشروبات بھی عید کے ان تینوں دنوں کے بعد ٹھنڈے مشروبات کی وجہ سے گلے میں خراش سا محسوس ہونےلگا، مجھے لگا کہ میرے گلے میں ٹانسل بڑےپرانے ہیں ٹھنڈ ے مشروبات سے ایک دم بڑھ گئے ہونگے, 27مئی کی شب کو بخار ہونےلگاصبح 6 بجے ہی اپنے آفس باس کو میسج کیا آج آفس نہیں آسکونگا .. 28 مئی کے صبح 9بجے بغیر ناشتہ کیے قریبی ڈاکٹر خالد کے پاس گیا جو کہ گلبرگ 3 میں مشہور ڈاکٹر ہے پہلے بھی ان کے پاس جاتا رہا ہوں ہاتھ میں شفا ہے … ڈاکٹر صاحب نے معائنے کے دوران ٹارچ سے گلا دیکھ چونک گئے کہا بیٹا گلا بہت خراب ہے انجکشن کے ساتھ ایک دن کی دوائی دے دیتا ہوں .. گھر آگیا اور ریسٹ کرلیا 24 گھنٹوں تک بخار کم ہوگیا , لیکن 28 تاریخ کی رات کو دوبارہ بخار 102ڈگری تک بڑھ گیا.. 29 تاریخ کو پھر سے انہی ڈاکٹر کے پاس چلا گیا دوائی تبدیل کرکے کچھ نئے انجیکشن کو ملا کر ڈرپ کے ذریعے لگا دیا گیا , ایک دن تک کافی سکون ملا تقریباً اپنے آپ کو بہتر محسوس کیا اور آفس جانے کے لیے تیار ہوگیا.. چونکہ شام کی ڈیوٹی تھی پانچ بجے آفس جانا تھا 4 بجے کے قریب پھر سے جسم گرم ہونے لگا تھرمامیٹر سے بخار چیک کیا 101 بخار ہے آفس میں ساتھی پروڈیوسر کو کال کیا بخار پھر سے شروع ہوگیا لہذا میں تھوڑا لیٹ آجاونگا , ذہن نہیں مان رہا تھا کہ مجھے کرونا ہوا ہوگا ٹیسٹ کروانے کا خیال تب آیا جب میں شاہزیب خانزادہ کا پروگرام دیکھ رہا تھا اس میں کہہ رہےتھے علامات میں سے کھانے کا ذائقہ محسوس نہیں ہونا , کسی چیز کو سونگھنے سے بو کا محسوس نہیں ہونا , کھانے کا ذائقہ بخار میں بھی نہیں ہوتا یہ سوچ کر تسلی دے رہا تھا , جب پرفیوم چھڑک کر سونگھا تو اس کی خوشبو بھی نہیں آئی تب اندازہ ہوگیا ضرور گڑبڑ ہےاسی دوران ڈائریکٹر نیوزبڑے بھائی محمد عثمان کو کال کیا اور سارا معاملہ بتایا, عثمان بھائی کے ریفرنس سے لاہور چبور جی کے مقام پر واقع الخدمت لیب چلا گیا کرونا ٹیسٹ کروا لوں تاکہ تسلی ہوجائے , ٹیسٹ سیمپل کے لیے ناک سے فضلا چاہئیے تھا عملے نے پہلےہی بتایا بھائی تھوڑی الجھن ہوگی برداشت کرنا ہے یہ کہہ کر لمبی سی تیلی روئی لگا کر نتھنوں کے ذریعے ناک میں ڈال دیا, تکلیف دہ پروسیجر تھا لیکن برداشت کرنا پڑا اسی طرح سیپمل کو نام کے ساتھ ایک ڈبی میں بند کرکے مجھے گھر جانے کو کہا گیا 48 گھنٹوں میں رپورٹ بذریعہ ایس ایم ایس مل جائے گا .. گھر آگیا تقریباً شام کے سات بج گئے تھے, جسم میں درد اور تھکاوٹ تھی اب آفس جانے کا فائدہ بھی نہیں تھا کیونکہ شام کے پانچ اور چھے بجے کا بلیٹن ساتھی پروڈیوسر نے کرواچکا تھا, میں نے کہا میں تھوڑا ریسٹ کرکے 9 بجےکے نیوز بلیٹن کے لیے ہی آجاونگا انہوں نے کہا مت آنا آپ ریسٹ کرنا, گھر پر ہی رہا 3 جون کی رات کو بخار پھر سے تیز ہونے لگا صرف دو گھنٹے سویا صبح 5بجے جاگ گیا سر میں شدید درد تھا اس کے بعد سو نہیں سکا صبح ہوتے ہی پھر سے ڈاکٹر خالد کے پاس چلا گیا اور اس دفعہ دوائی تبدیل کرکے انیجیکشن لگوائے اور سکون ملا گھر آکر رات کی چھوٹی ہوئی نیند بھی پوری کرلی 4 تاریخ کی شام کو ایک موبائل پر ایس ایم آگیا کہا گیا آپ کی رپورٹ تیار ہے ڈیسک سے حاصل کرسکتے ہیں ساتھ لنک پر کلک کرکے آن لائن چیک بھی کرسکتے ہیں , جب رپورٹ دیکھا تو شروع میں کچھ سمجھ نہیں آیا رپورٹ پوزیٹیو ہے یا نیگیٹو, لاہور میں موجود گلگت کے ایک ڈاکٹر افضل سراج کو واٹس ایپ کیا انہوں نے دیکھ کر بتایا صادق بھائی رپورٹ پوزیٹیو ہے لہذا اپنے آپ کو آیسولیٹ کریں. کیونکہ result کے سامنے خانے میں detectedلکھا ہوا تھا اس لیے کنفوژن سی تھی. اور دل ماننے کو بھی تیار نہیں تھا . ڈاکٹر افضل سیراج کا وائس کلپ سن کر جھٹکا سا لگا, اب یقین ہوگیا وائرس کی زد میں ہوں اسی شام سے آپنے آپ کا علحیدہ روم میں آئسولیٹ کرلیا بیگم سن کر پریشان ہوگئی لیکن انہیں کچھ چٹکلے سنا کر ہنستے ہوئے باتیں کرکے محسوس ہونے نہیں دیا, انہیں پریشانی سے دور رہنے کا ٹاسک بڑے بھائی جو کہ ڈاکٹر ہیں انہیں سونپا اور ان سے بات کرنے کے بعد ٹینشن فری ہوگئی.
خود سے زیادہ پریشانی گھر میں موجود میری گیارہ ماہ کی بیٹی اور انکی 65 سالہ نانی کےلیےتھا جو پہلے شوگر کی مریضہ ہیں اور پھپھڑوں کی مہلک بیماری میں بھی مبتلا ہیں ، ان سے اپنے آپ کو آئسولیٹ اس وقت کیا تھا جب پہلی دفعہ بخار 28 تاریخ کو ہوا تھا تب سے بیٹی کو بھی اپنے آپ سے آئسولیٹ کیا تھا سب سے مشکل مرحلہ میرے لیے یہی تھا کہ بیٹی مجھ سے زیادہ آٹیج تھی اس لیے جب مجھے دیکھتی رینگتے ہوئے پاس آنا اور انہیں چہل قدمی کے لیے باہر گلی تک لے جانا میری ذمہ داری تھی، اور قرنطینہ کے دنوں سب سے تکلیف دہ مرحلہ یہی تھا جب بیٹی مجھے دیکھ کر مجھے یہ محسوس کروا رہی تھی کہ بابا مجھے نظرانداز کیوں کررہا ہے, مسکرا بھی رہی تھی ساتھ ناراض بھی ، اس لیے پورے دن میں ایک ددفعہ دروازہ کھول کر دور سے ملاقات ہوا کرتی تھی
جون قرنطینہ کا پہلا دن
رپورٹ آتے ساتھ ہی میں نے اپنا روم علیحدہ کرلیا , کھانے پینے کے برتن الگ کردیے,, اور اپنے ضرورت کے برتن اپنے روم میں ہی رکھے پانی کا گلاس پانی کی بوتل سب کچھ الگ واش روم الگ کرلیا… کھانے کے وقت برتن ماسک پہن کر دروازے کے پاس رکھتا تھا گھر والے برتن میں کھانا ڈال دیتے تھے اور کھانے کے بعد خود ہی برتن دھوکر رکھتا تھا… برتن اپنے روم میں ہی رکھتا تھا, یہ روزانہ کا کام تھا ، روزانہ ٹائم پر سونا ٹائم پر جاگنا, نہانا دھونا معمول کی طرح ہی رکھا جیسے کرونا سے پہلے کا روٹین تھا… گھر والے بھی جب کھانا دینے دروازے پر آتے تھے تو ہاتھ میں ڈسپوزیبل پلاسٹک کے دستانے اور ماسک پہن کر آتے تھے.
ادویات کا استعمال:-
قرنطینہ کے دوران اپنے بڑے بھائی ڈاکٹر مراد جو کی سٹی ہسپتال گلگت میں سرجن ہیں ان سے رابطہ کرنے پر azomax 500mgکی گولیاں روزانہ ایک لینے کو کہا ساتھ ایک انیجیکشن (Inj. D.TRES.) وٹامن کی کمی کو پورا کرتی ہے وہ لکھا جو ہفتےمیں ایک دفعہ پانی میں ڈال کر پی لیا، اس کے ساتھ کلشیم کو برقرار رکھنے کے لیے کییلسی کیCAC 1000 plusکی ٹکیاں پانی میں گھول کر پیا کرتا تھا, اس کے علاوہ روزانہ گرم پانی کی اسٹیم صبح اور شام شامل تھا ساتھ ایک دفعہ نمک کے غرارے بھی شامل تھے
غذا:
غذا میں عام روٹین کا خوراک تھا لیکن اس دفعہ پروٹین والے کھانے میں اضافہ کیا تھا , چکن کا شوربا , نان کے ساتھ, اور کبھی مرغی کے پجوں کی یخنی اس میں ادرک لہسن ڈال دیا کرتا. مٹن, دالیں چاول ,سلاد میں لیموں کا رس ضرور شامل کر رہا , اور قہوہ میں لیمن شامل ضرور ہوتا,,
پھلوں میں, کیلے, آڑوں, آم, خوبانی ہر کھانا کھانے کے بعد کھایا کرتا تھا…
جون قرنطینہ کا دوسرا دن
رات کو ڈرؤنا خواب دیکھ کر صبح فجر کے وقت ہی آنکھ کھل گئی۔۔خوب کورونا سے متعلق ہرگز نہیں تھا…پھر دوبارہ سوگیا۔۔ قرنطنیہ میں میرے روم میں ٹی وی نہیں تھا، اس لئے کہ کرونا کی خبریں دیکھ کر دماغ پر تناؤ ڈالنا نہیں چاہ رہا تھا, بس موبائل, موبائل کا چارجز ساتھ ایک موبائل کا ٹرائی پاٹ رکھا تھا اکثر سونے سے پہلے موبائل کو ٹرائی پورٹ کے اوپر رکھ کر ارتغرل کا سیزن 2 دیکھ رہا ہوتا تھا, ٹرائی پوٹ اس لیےتھا کیونکہ گھنٹوں تک ہاتھ میں موبائل پکڑے ہاتھ تھک جاتےتھے… اس کےعلاوہ چند کتابیں تھی اکثر پڑھا کرتا تھا، اس کے علاوہ علاوہ یوٹیوب سے مزاحیہ پروگرامز، موسیقی، وغیرہ سنتا تھا، کرونا سے متعلق کوئی خبر سوشل میں میڈیا پر نظر آئےتو فوراً انگوٹھے سے ٹائم لائن کو اسکرول کرتا تھا، کوشش ہوتی تھی کرونا سے متعلق خبروں سے دور ہی رہوں، روم میں دستراخوان کی جگہ اخبار آیا کرتا تھا ! آخبار جب دستراخوان کے طور پر سامنے بچھا کر کھانا کھانےکے دوران ضرور اخبار کی سرخیاں نظر آنے لگی کہ کرونا کے اتنے مریض جاں بحق اخبار میں کرونا سے متعلق ایسی سنسنی خیز خبروں کی وجہ اسی دن سے اخبار کو روم میں آنے نہیں دیا اس کی جگہ دوسرا پلاسٹک کے بنا دسترخوان آنے لگا….
رات 3 بجے سویا اور صبح 10بجے جاگ گیا, ہاتھ منہ دھو کر ناشتہ کیا, دوائی کھائی, ایک دو گھنٹے کے بعد پھر سے سوگیا سہہ پیر تین بجےجاگ گیا نہا دھو کر کھانا کھایا, اس بار کھانے کے لیے ڈسپوزبل پلیٹیں استعمال کرنا شروع کیا کچن سے آنے والے برتن کھانے کے بعد اپنےروم کے ڈسٹبن میں پھینک رہا ہوتا… شام کے 5 بجے کے بعد ہلکی چہل قدمی کے لیے نکلا گھر کے باہر تھوڑی سی چیل قدمی کرکے واپس آکر روم میں ارتغرل کا سیزن 2 دیکھنے لگا, چہل قدمی کرنے سے پہلے ہاتھ میں گلوز پہنے, پھر گلوز کو سیناٹائز کرلیا اور ماسک چڑھا کر نکل گیا , اس لیے کہ گھر کے مین دروازے کی کنڈی پر ہاتھا لگا کر جانا ہوتا تھا…
رات کا کھانا چکن کا شوربہ بنا تھا زبردستی پیٹ بھر کر کھانا کھایا تھوڑی دیر بعد فروٹ میں آڑو آم اور خوبانی کھائے , اس کے ایک گھنٹے بعد قہوہ بنایا اور اس میں لیمن ڈال کر پی لیا .. اور سونےبسے پہلے گرم پانی کا سٹیم لے لیا..
چھ جون دوہزار بیس: روزانہ کی طرح 11بجے جاگ گیا, نہا دھو کر , ناشتہ کیا , ناشتے میں پراٹھے اور ساتھ ابلے انڈے ساتھ نمکین چائے جو کہ گلگتہوں نشانی ہے , ناشتے کے بعد تھوڑی دیر آرام کیا روم کو ڈٹرجن محلول سے سپرے کیا, ناشتے کے برتن دھو کر اپنی جگہ رکھ دیا اور دوائی لی جس میں ایزی تھروماسین , ساتھ وٹامن سی اور ای سربکس کی گولیاں پانی کے ساتھ , اس کے بعد پھل کھائے , دوپہر کا کھانا 4 بجے کھایا, شام کے 6 بجے تھوڑی گرمی سی لگنے لگی پسینے آنا شروع ہوا پیناڈول کی دو گولیاں لی, پینا ڈول تب لے رہا تھا جب جسم میں حرارت تیز ہونے لگتی..
سات جون دوہزار بیس: حسب روایات 12 بجے جاگ گیا ایزومیکس کی گولی کھائی ساتھ وٹامن کی ایک دو گولیاں لی ناشتہ کیا 3 بجے تھرما میٹر سے حرارت چیک کیا 98ڈگر تھا, دو پیناڈول لے لی , کھانسی ہونا شروع ہوگئی کچھ دیر تک پھر رک گئی…
آٹھ تا پندرہ جون دوہزار بیس: سات جون کے بعدجون کے بعد میری طبیعت بالکل ٹھیک ہونے لگی ! البتہ زیادہ لیٹے رہنے کی وجہ سے کمر میں درد ساتھ رہتا تھا ، کمزوری محسوس ہوتی تھی, اور دن بہ دن اپنے آپ کو صحت مند محسوس کرتا تھا 10 جون تک azomax 500mgکا کورس مکمل کرلیا یہ دوائی اس لیےتھی اسے پھپھڑوں میں انفیکشن اور گلا خراب ہونے سے بچاتی ہے وائرس پھپھڑوں پر اثر کر رہا اس لیے پیشگی طور پر یہ دوائی استعمال کے لیے دی گئی تھی، اس کے مزید 5 دنوں تک cac1000plusکے ساتھ surbex.zکی گولیاں لیتا رہا اور گرم پانی کی اسٹیم حسب معمول صبح شام جاری رکھا، ان 5دنوں میں روزانہ بخار بھی چیک کرتا رہا نارمل ٹمپریچر رہا، بخار بالکل ختم ہوچکا تھا، سونے سے پہلے گرم قہوہ اس میں لیموں ملا کر پینا معمول بنا لیا تھا, 15 جون کو میرے قرنطینہ کے 13 دن مکمل ہوگئے اس لیے ٹیسٹ کروانے پھر سے لیب گیا اور سیمپل جمع کروا کر آگیا رپورٹ 48 گھنٹوں میں مل جائے گی…. دل ہی دل میں یہ امید تھی کہ انشااللہ رپورٹ منفی آجائےگی اور قرنطینہ قید خانے سے بھی جان چھوٹے گی …
قرنطینہ کا 14واں دن: آخرکار قرطنیہ کے چودہ دن مکمل ہوگئے لیکن رپورٹ ابھی آنا باقی ہے ، 14واں دن رپورٹ کے بارے میں ہی سوچتے سوچتے گزار گیا! پتہ نہیں کیا رزلٹ آئے گا، اللہ پر بھروسہ تھا ضرور رپورٹ منفی آجائے گی.. اور ایک اہم بات چونکہ پردیس شہر میں رہ رہا تھا گاؤں میں موجود اپنی ماں جی کو اس بات کا علم بالکل نہیں تھا ، شروع دن سے گھرکے کسی ممبر کو نہیں بتایا سوائے ایک بھائی جن کا اوپر ذکر بھی کیا جو ڈاکٹر ہیں ان کو بتایا تھا، نہ بتانے کی وجہ یہ تھی کہ ان فضول میں پریشانی میں نہیں ڈالنا تھا , ارادہ کیا تھا جب ٹھیک ہوجاؤں تب گھر والوں کو بھی بتا دوں. رات کو نیند بھی نہیں آئی سر درد کرنے لگا شاید اس لیے کی رپورٹ کے بارے میں کچھ زیادہ سوچا ، دل میں بس یہی تھا کہ اللہ کریں رپورٹ نیگیٹیو آجائے اور اس قید خانے سے نکل جاوں.رات 3 بجے کے بعد آنکھ لگ گئی اور سو گیا…. رات کو ہر دو گھنٹے بعد اچانک آنکھ کھل جاتی تھی اور فوراً موبائل چیک کرتا تھا کہی ٹیسٹ رپورٹ کا کوئی ایس ایم ایس تو نہیں آیا ، دیکھنے کے بعد پھر سو جاتا..
قرنطینہ کے 15واں دن: بارہ بجے دوپہر جاگ گیا، ناشتہ کی جگہ گاؤں سے ماں جی کے بھیجےگئے خوبانی اور آلو بخارہ کھالیا , 2 بجے دوپہر کا کھانا کھایا، سر میں درد تھا کیونکہ رات کو بار بار جاگنا پڑا تھا! پینا ڈول کی دو گولیاں لی 4 بجے جے قریب موبائل پر رپورٹ کا ایس ایم ایس آگیا, رپورٹ کا لنک کھولا اور دیکھا رزلٹ میں not detectedلکھا گیاہے, سجدہ ریز ہوا اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا، بیگم کو بتایا, اور گھر پر بھائیوں کو بھی بتادیا… سب نے مبارک باد دیے. پھر اپنے روم کی صفائی میں لگا, تبدیل شدہ کپڑوں کو گرم پانی میں ڈال کر ساتھ ڈیٹول میں بھی ڈال دیا, پورے روم میں ڈیٹرجن اور ڈیٹول سے اسپرے کیا , بیڈ کی چادر تبدیل کی اور خود نہا دھو کر کپڑے تبدیل کرکے اپنے 11ماہ کی بیٹی سمرہ کے پاس آیا اور گلے لگایا…یقیناً شفا دینے والی ذات اللہ کی ہے… الحمداللہ آج میں بخیرو عافیت گھر والوں کے ساتھ اور!، اللہ آپ سب کو اپنے حفظ و آمان میں رکھیں ، بہتر صحت اور تندرستی دیں کرونا سے احتیاط کریں اپنے اور اپنے گھر والوں کو اس سے بچائیں۔۔ (صادق حسین)۔۔