تحریر: محمد امنان۔۔
بکھر جائیں گے کیا ہم جب تماشہ ہو گا
میرے معبود آخر کب تماشہ ختم ہو گا؟
مملکت خداداد میں ڈراموں کی کمی نہیں ہے اس لحاظ سے ہم کافی خود کفیل اور زرخیز ہیں پہلی حکومتیں سب کی سب کرپٹ اور چور رہی ہیں یہ معاملہ بھی ہم نے دیکھا کہ موجودہ حکومت کے وزرا حکومت اور موجودہ وزیر اعظم حکومت میں لائے جانے سے پہلے کس طرح کنٹینر والے سائٹ پہ میڈیا کے سامنے لائٹ کیمرہ ایکشن کھیلا کرتے تھے انکی اس وقت کی اور اب کی ڈائیلاگ ڈیلیوری میں کافی تضاد دیکھنے کو ملتا ہے
ایک خبر پڑھی نیوز ویب سائٹ پہ کہ وزیر اعظم عمران خان صیب دیار غیر میں بیٹھے انواع و اقسام کے سپانسرڈ ناشتے اور دورے کے دوران فرماتے ہیں کہ میڈیا اور اخبارات نہیں دیکھتا ہر وقت میرے اور حکومت کے خلاف غلط خبریں دیتے رہتے ہیں۔۔مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے عمران خان کا 2018، 17 میں بذات خود میں نے تین جلسے کور کئے تھے ایک لاہور میں ایک ساہیوال اور تیسرا اپنے شہر فیصل آباد میں تب مجھے یاد ہے علی الصبح ہم ڈی ایس این جی ٹیم کے ہمراہ نکلتے تھے اور رات گئے تک یا اگلی رات تک اس جلسے کو کوریج دیتے تھے لمحہ با لمحہ ٹیکرز اپ ڈیٹ کرنا فوٹیج نکالنا لائیو بیپرز کروانا وغیرہ سے لے کر جب تک جلسے میں آئی عوام واپس گھروں کو نئیں جاتی تھی تب تک ہم ڈیوٹی پہ موجود رہتے تھے
خیر بات چل رہی تھی ڈراموں کی آج سے ایک روز پہلے ایک ڈرامہ جس کا نام میرے پاس تم ہو کی کافی چرچہ رہی ٹی وی سوشل میڈیا اور چوک چوراہوں میں عوام و خواص بس اسی ایک بات کو لے کر تجزئیے باندھ رہے تھے کہ ڈرامے میں ہو گا کیا اور ڈرامے کا اختتام جو تھا میرے لئے انتہائی حیران کن رہا۔ بلکہ ڈرامے کی آخری قسط کو نشر کرنے کے لئے ڈرامہ رائٹر اور ٹیم نے جس طرح سے ناظرین کے دماغوں کو باندھ کر بٹھا دیا وہ بھی ایک قابل غور عمل تھا کہ تاریخ میں شاید پہلی بار ایک ڈرامہ سینما گھروں میں دکھایا گیا جس کی ٹکٹیں کروڑوں روپے میں فروخت ہوئیں،اور اسی دوران ایک ڈرامہ آٹے کے بحران کا بھی چلتا رہا جسے اپوزیشن اور حکومت نے مل کر خوب کھیلا اور ریٹنگ کمائی بلکہ ایک حکومتی ایم پی اے نے تو ن لیگی ایم پی اے عظمی بخاری کے گھر آٹے کا ٹرک بھی بھجوا دیا۔۔
میرے پاس تم ہو کو رکوانے کے لئے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست ایک خاتون کی طرف سے دائر کی گئی کہ جی ڈرامے کی آخری قسط رکوا دی جائے جس پر عدالت میں سماعت ہوئی اور عدالت میں ڈرامہ لگتا رہا مطلب ڈرامے پر تبصرے ہوتے رہے جو بعد میں ایک بڑے حکومتی ترجمان چینل نے خبر کی صورت بتایا بھی کہ عدالت میں وکلا نے فلاں فلاں دلچسپ دلائل دئیے۔۔۔خیر ملک میں جاری ڈرامہ ستر بہتر سال سے چل رہا ہے اس بیچ عوام کو ڈراموں سے اس قدر لگاو ہو گیا ہے کہ ڈراموں پر سیاسی مزاحیہ تبصرے سوشل میڈیا کی زینت بنے رہے۔۔۔
عوام کے پاس مسائل سے نکل کر ڈراموں کو ڈسکس کرنا اس بات کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ ہمارے پاس اینٹرٹینمنٹ کے نام پہ مواد کی سخت قلت ہے ڈراموں میں کیا کانٹینٹ دکھایا جا رہا ہے معاشرے پر اسکے کیا اثرات ہیں یہ بھی غور طلب ہے لیکن یہ ایک الگ بحث ہے۔۔اصل بحث یہ ہے کہ اخلاقی طور پہ ہم پستی کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں شاید کہ حکمران تو حکمران عوام بھی ڈرامہ پسند ہوتی جا رہی ہے حقیقت سے منہ پھیر کر معاشرہ غیر سنجیدہ رویہ اپنا رہا ہے۔۔سیاست دان ، حکمران وغیرہ روز کوئی نا کوئی ڈرامہ پیش کرتے ہیں کبھی فارورڈ بلاک کی شنید ، کبھی یہ کہ حج مہنگا ہو جانے سے غریب آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، کبھی یہ کہ میڈیا جھوٹ دکھا رہا ہے ٹی وی اخبارات دیکھنا چھوڑ دیں۔۔۔یعنی ہم عوام کے نام پہ ہجوم کی سوچ انہیں سیاسی اور انٹیرٹیمنٹ انڈسٹری کے ڈراموں میں الجھ کر رہ گئے ہیں خبر تھی کہ شہر فیصل آباد کے تھانہ غلام محمد آباد کے علاقہ میں بیس جنوری کی شام ایک شہری سے دو موٹر سائیکل سوار ڈاکو پندرہ کلو آٹے کا تھیلا چھین کر فرار ہو گئے۔۔جس کے اندراج مقدمہ کی درخواست شہری کی جانب سے تھانہ میں جمع کروائی گئی جس پر 15 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت 870 روپے لکھی تھی سرکاری ریٹ 840 روپے ہے بیس کلو آٹے کے تھیلے کا۔
حکومتی وزرا اور سبھی حواری ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر یا تو یہ کہتے رہے کہ آٹے کا بحران ہے ہی نہیں عوام پر سکون ہے وغیرہ وغیرہ یا یہ کہتے رہے کہ میڈیا من گھڑت خبریں چلا رہا ہے۔۔وزیر اعظم کو بھی میڈیا سے گلے شکوے ہیں وزرا پہلے ہی میڈیا پر تنقید کرتے رہتے ہیں اور تو اور فروغ نسیم نے ایک میٹنگ میں میڈیا بارے ایجنڈے کی کاپیاں حاضرین کو تھماتے ہوئے یہ تک کہا کہ یہ بات کمرے سے باہر نہ نکلے جس کا ایجنڈہ قریب قریب یہ تھا کہ میڈیا کو نکیل کس طرح ڈالنی ہے۔۔یعنی وزرا کی فوج ظفر موج کو اس وقت اپوزیشن سے بھی زیادہ خطرہ میڈیا سے ہے پرسوں کی بات ہے کہ راولپنڈی سے آنے والی رحمان بابا ایکسپریس کے مسافروں نے فیصل آباد ریلوے اسٹیشن پر احتجاج کیا شیخ رشید اور موجودہ حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ مسافروں کا مدعا یہ تھا کہ ٹرین کی انجن کے عین پیچھے والی بوگی جس میں 60 مسافر بچوں اور خواتین سمیت شامل تھے میں نہ تو کھڑکیوں کے شیشے تھے چھتوں سے پانی ٹپک رہا تھا واش روم کی حالت انتہائی خراب اور بوگی میں چوہے دوڑ رہے تھے۔۔اب میڈیا نمائندگان نے وہاں پہنچ کر بغور معائنہ کیا تو حالات اس سے بھی بد تر تھے بوگی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور اسمیں پڑے گڑھوں کو پر کرنے کی خاطر سوراخوں پر پتھر رکھے ہوئے تھے۔۔
خیر ڈراموں کی بات پہ اپنی بات ختم۔کروں گا میرے پاس تم ہو کی آخری قسط ختم ہو گئی مرکزی کردار دانش مر گیا تو اسکے بعد ن لیگ اور پی ٹی آئی کے سپورٹرز نے سوشل میڈیا کا رخ کرتے ہوئے دلچسپ تبصرے کئے۔۔کسی نے لکھا ہارٹ اٹیک کی بہترین اداکاری دانش (ڈرامے کامرکزی کردار) سے بہتر نواز شریف کرتا ہے ، کسی نے لکھا دانش کو پتہ تھا سکون صرف قبر میں ہے۔۔۔کسی نے لکھا وزیر اعلی سندھ نے اسپتال انتظامیہ کے خلاف نوٹس لیتے ہوئے ڈاکٹر کو معطل کر دیا ، عثمان بزدار نے پانچ لاکھ کا چیک دانش کے بیٹے کو دینے کا اعلان کیا۔۔اصل حیران کن بات یہ تھی کہ لاہور کے ایک مقامی چینل نے اس ڈرامے پہ لمحہ با لمحہ خبروں کا تسلسل برقرار رکھا گویا ڈرامہ نہیں تھا ورلڈ کپ کا میچ تھا۔۔کچھ سطریں ہیڈ لائن کی ملاحظہ ہوں۔۔
میرے پاس تم ہو کے مرکزی کردار دانش کو دو ٹکے کی عورت کے گھر جا کر ہارٹ اٹیک آگیا۔۔۔رومی نے کہا تھا پاپا خواب میں آئیں گے اس قسم کے ٹکرز چلتے رہے یہ لمبی چوڑی تحریر شاید پڑھنے والوں کے لئے اہم نہ ہو یا ہو سکتا ہے لوگ اختلاف کریں مگر میرا سوال یہ ہے کہ میڈیا چینلز کے پاس کانٹینٹ بندوں کی شورٹیج کی وجہ سے ہے یا خبریت کا معیار بدل دیا گیا ہے۔۔
اور ایک سوال یہ بھی کہ وزیر اعظم اور اسکی کابینہ کے اراکین کے غلط اقدام کو میڈیا سچ کیسے دکھا دے؟؟؟ حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر وزیر اعظم راضی ہو جائیں گے؟؟؟ یا یہ بتایا جائے کہ 126 دن کے دھرنے میں جس میڈیا کی تعریفیں کرتے آپ تھکتے نہیں تھے وہ آپکے ان اقدامات جس سے عام آدمی کے مسائل بڑھ رہے ہیں کی نشاندہی کر رہے ہیں تو آپکو برا لگنے لگا ہے۔۔اخبارات میڈیا وغیرہ کا بیڑہ غرق بھی عالم پناہ کی حکومت میں ہی شروع ہوا ہے اب میڈیا آپکا ترجمان بننے سے تو رہا بھئی آپ ٹی وی اخبار نہیں دیکھ رہے تو ہم اپنا کام چھوڑ دیں؟؟؟؟؟
پی ٹی وی کی فیس پینتیس سے بڑھا کر 100 روپے کر دینا عام عوام پر بوجھ نہیں؟؟؟ معاشرے کی اصلاح اور فلاح کا کوئی ایک کام بتا دیں تاکہ ہم اس پہ لکھ اور بول سکیں کہ یہ حکومت نے ٹھیک کر دیا ہے۔۔اس ساری صورتحال یعنی عوام کی ذہنی پستی اور حکومت کی ڈھٹائی پہ میں ایک عام سوچنے والا ایک چھوٹا سا صحافی جو اس حکومت کی پالیسیوں کے باعث بے روزگار گھوم رہا ہے سوچتا ہوں کہ کاش۔۔
میرے پاس بم ہو۔۔۔جس سے میں خود کو اڑا لوں تاکہ ایک ڈرامہ اور لگے اور عوام اور سبھی اس ڈرامے کو بھی خوب انجوائے کریں۔۔
۔۔(محمد امنان)۔۔ تب تک سوچئیے کہ ملک اور معاشرے میں کیا چل رہا ہے
(بلاگر کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔