mere hero mere waalid

میرے ہیرو، میرے والد۔۔

تحریر: علی عمران جونیئر

دوستو، میرے ڈی این اے میں ایسا فالٹ ہے کہ  جس کا علاج کسی کے پاس نہیں، میری فطرت میں شامل ہے کہ اپنی پریشانیاں،دکھ،مصیبت یا پریشانیاں  اپنی تحریروں میں شامل نہ کروں۔۔ میرے مستقل قاری اس بات کے گواہ ہوں گے کہ میں جب کالم لکھتا ہوں تو وہ ہمیشہ غیرسنجیدہ اور اوٹ پٹانگ باتوں پر مشتمل ہوتا ہے، اسی طرح جب اپنی ویب یا پیج کے لئے کوئی تحریر لکھتا ہوں تو اس میں اپنی بات سے زیادہ کسی اورکا دکھ،پریشانی یا ناانصافی شیئر کررہا ہوتا ہوں۔۔

کیسی عجیب بات ہے کہ دوسروں کے واجبات کیلئے آواز اٹھانے والے کے اپنے لاکھوں روپے کئی چینلز پرہیں اور وہ دینے کا نام نہیں لے رہے۔۔ دوسروں کی بیماریوں اور اسپتال میں داخل ہونے کی خبریں دینے والے کے والد کینسر کے لاعلاج مرض میں مبتلا رہے اور وہ اس پر کچھ نہ لکھ سکا۔۔ دوسروں کے لئے کورونا اور رمضان المبارک میں راشن بیگز کی کوششیں کرنے والے کے خود اپنے گھر میں کیا حال ہے وہ کبھی کسی سے شیئر نہ کرسکا۔۔ ایسے کئی معاملات ہیں  جن پر ہمیشہ دوسروں کیلئے آواز اٹھائی لیکن اپنے گریبان میں کبھی نہیں جھانکا۔۔ اب اسے آپ دلیری کہہ لیں، بے حسی ، یا بے وقوفی کا نام دیں، میرے والد نے ہمیشہ ایک ہی سبق دیا کہ کبھی تمہارا ہاتھ نیچے والا نہ ہو۔۔

ابومیرے ہیرو ہیں، کیوں نہ ہوں، ہمیشہ لقمہ حلال کھلایا، بڑوں کا ادب سکھایا، سچ کی تلقین کی۔۔ یہی تینوں چیزیں میں نے اگلی نسل میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے۔۔ جب میں پیدا ہوا تو ابو بتاتے ہیں کہ وہ آٹھ آنے روز کی مزدوری کیا کرتے تھے۔۔ اور میری پیدائش کے اگلے ہی روز وہ “مستری” بن گئے اور ان کی دیہاڑی ایک روپے روز ہوگئی۔۔ بچپن سے مشکل وقت دیکھا، اب تو عادت سی ہوگئی ہے۔۔ میرے والدین چٹے ان پڑھ تھے، صرف قرآن پاک پڑھ سکتے تھے، لیکن ان کی نظر میں تعلیم کی اہمیت تھی اسی لئے انہوں نے ہم سب بہن بھائیوں کو جہاں تک ہوسکے پڑھایا ۔۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ کورنگی کے ایک مہنگے ترین انگریزی میڈیم اسکول میں جب میٹرک میں تھا تو پاکٹ منی کے طور پر مجھے آٹھ آنے ملتے تھے۔۔ یہ انیس سو چھیاسی کی بات ہے ، کورنگی ڈھائی سے کورنگی چار تک پیدل اسکول جایاکرتا تھا۔۔ میرے کلاس فیلو اپنی بائیکس ، سائیکل اور ابو یا بھائیوں کی کاروں میں آتے تھے۔۔ اسکول میں جب بریک ہوتا تھا تو جیب میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کلاس روم سے باہر نہیں نکلتا تھا۔۔لیکن یہ باتیں کبھی گھر میں آکر نہیں بتائیں، کسی سے نہیں کہا، ابو سے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔۔ کیوں کہ یہ احساس شروع سے ہی ہوگیا تھا کہ اپنا راستہ خود بنانا ہے۔۔میٹرک کے ساتھ ہی جاب شروع کردی تھی۔۔ اس سے پہلے دوران میٹرک چھوٹے موٹے کام مثال کے طور پر کارچوبی،دردوزی کا کام بھی کیا، ہر جمعرات کو جس کا ہفتہ ملتا تھا۔۔ میڈیکل اسٹور پر بیٹھا، ڈاکٹر کے پاس کمپاؤنڈری بھی کی۔۔ کوشش یہ رہی کہ اسکول کی فیس خودسے ادا کرسکوں اور گھر کےبھی کچھ کام آسکوں۔

ابو بہت بزلہ سنج تھے، ان کی گفتگو بڑی مزیدار ہوتی تھی۔۔ عید ،تہواروں پر جب پوری فیملی ان کے گرد اکٹھی ہوتی تھی تو وہ ہنسا ہنسا کر برا حال کردیتے تھے۔۔ان کے یہی جراثیم مجھ میں بھی پائے جاتے ہیں۔۔ لیکن صرف قریبی دوست احباب اس بات سے آگاہ ہیں، ورنہ اکثریت تو مجھے سنجیدہ  ، غصیلا یا پھر مغرور ہی سمجھتی ہے۔۔ ابو کی بذلہ سنجی میری تحریروں میں منتقل ہوئی یہی وجہ ہے کہ جب بھی کالم نگاری کی تو مزاح کے حوالے سے۔۔جب بھی اسکرپٹ لکھا، مزاح کے حوالے سے، جب بھی کہانی لکھی مزاح کے حوالے سے۔۔

جب میں میٹرک میں تھا تو اسکول میں ہماری آخری پکنک تھی، ہماری کلاس ٹیچر مس رخسانہ نے کلاس میں آکر بتایا کہ کینجھر جھیل کی پکنک پر جسے جانا ہے بیس، بیس روپے جمع کرادے۔۔ آپ یقین کریں ، بیس روپے میرے لئے بیس ہزار جیسے تھے، پوری کلاس نے پیسے جمع کرادیئے سوائے میرے، مس رخسانہ کا میں فیوریٹ اسٹوڈنٹ تھا ،انہوں نے میرے پیسے جمع نہ کرانے پر حیرت کا اظہار کیا اور سرعام نہ جانے کی وجہ پوچھی۔۔ کلاس میں پن ڈراپ سائلنس تھی، میں کھڑا ہوا اور کہا ، مس ہمارے گھر میں تقریب ہے، اس لئے پکنک  پہ جانا مشکل ہے۔۔ مسئلہ معاشی بحران کا تھا، اب وہاں اپنا پول خود کھولنے سے رہا کہ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے جانا مشکل ہے۔۔ خیر اس موقع پر میرے بہت ہی پیارے دوست آصف صدیقی (ان دنوں مدینہ منورہ میں مستقل قیام رکھتے ہیں) نے میرے پیسے بھرے ، مجھے بالکل نہیں بتایا۔۔اور مس سے درخواست کی کہ آپ یہ بتائیے گا کہ ۔۔عمران پکنک پر لازمی جانا ہے، وہ آپ کا حکم نہیں ٹالے گا۔۔ خیر یہ تو ایسے ہی ایک چھوٹا سا واقعہ اچانک یاد آگیا۔۔

امی اور ابو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ چٹے ان پڑھ تھے، انہیں میں نے ہی پڑھایا، دونوں اتنا پڑھ گئے کہ خیر سے اخبار پڑھتے تھے  اور ٹی وی پر چلنے والے ٹکڑز بھی آسانی سے پڑھ لیتے تھے۔۔ ابو کو خبریں اور ٹاک شوز اور امی کو ڈرامے دیکھنے کا بہت شوق تھا۔۔ لیکن انہیں کبھی اپنے فیوریٹ پروگرام کے لئے لڑتے جھگڑتے نہیں دیکھا ۔۔

امی کا انتقال یکم جنوری دوہزارسات میں ہوا تھا، اسی روز شاید عراق کے صدر صدام حسین کو پھانسی بھی دی گئی تھی۔۔ عید کا دن تھا، صبح قربانی ہوئی، ابو نے حسب روایت اہل محلہ کے بزرگوں کو باری باری گھروں سے بلوایا، پورے محلے کے بزرگ عید پر کلیجی ہمارے گھر آکر کھاتے تھے۔۔ یہ روایت گزشتہ سال تک رہی۔۔ دوپہر کو میں نے اجازت چاہی کیوں کہ مجھے الشرق اخبار کی تیاری کے لئے ڈیوٹی پر جانا تھا۔۔ امی نے حکم دیا شام کو کھانا ساتھ کھائیں گے۔۔ واپسی میں راستے  میں تھا کہ گھر سے فون آیا امی کی طبیعت خراب ہے ،فوری کارڈیوویسکیولر اسپتال پہنچو جو جناح اسپتال کے پاس ہے۔۔ میں وہاں پہنچا، کارڈیو والوں نے بتایا بلڈ پریشر یا دل کا کوئی مسئلہ نہیں، انہیں جناح لے جائیں۔۔ جناح اسپتال لے گیا تو وہاں عید کی وجہ سے کوئی ڈاکٹر نہیں تھا، فون کرائے توایک ڈاکٹر ایمرجنسی میں پہنچا، لیکن اس وقت تک برین ہیمبرج کی وجہ سے امی کا انتقال ہوچکا تھا۔۔ امی کے انتقال کے بعد ابو واقعی تبدیل ہوگئے تھے۔۔ آخر تک وہ امی کو مس کرتے رہے۔۔برسہا برس کی رفاقت ویسے بھی آسانی سے نہیں بھلائی جاسکتی۔۔

ابو ہمیشہ میرے لئے پریشان رہتے تھے۔۔ وہ اکثر بھری محفل میں میری طرف اشارہ کرکے  برملا کہتے تھے کہ ۔۔میرے اس بچے نے ہمیشہ دکھ اور تکلیفیں اٹھائی ہیں۔۔ ساتھ ہی وہ بیساختہ لیکن بڑی معصومیت سے یہ انکشاف بھی کرجاتے تھے کہ۔۔میرے سارے بیٹوںمیں یہی سب سے زیادہ نااہل ہے، اس نے ترقی نہیں کی۔۔ مجھے اپنی امی سے زیادہ ابو سے بہت زیادہ لگاؤ تھا۔۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ بچپن سے ہی امی نے دل کھول کر پٹائی کی۔۔ جب موقع ملا کُوٹ ڈالا۔۔ ابو نے کبھی ایک انگلی ٹچ کرنا تو دور کی بات، کبھی مجھے ڈانٹا تک نہیں۔۔ ابو کا حکم کبھی نہیں ٹالا۔۔ امی کو تو اکثر باتوں میں گھمادیتا تھا لیکن ابو نے جو بھی کہا آمنا صدقنا کہا۔۔ ابو کی سادگی، درویشانہ مزاج، ٹھنڈا مزاج، بذلہ سنجی یہ سب میں نے ان سے ہی سیکھی ہے۔۔ جس طرح ابو کو کبھی نئے کپڑوں، نئے جوتوں وغیرہ کا شوق نہیں، مجھے بھی آج تک یہ شوق نہیں ہوا۔۔کپڑے جب تک رنگ نہ چھوڑ دیں اور جوتے جب تک اس حالت میں نہ پہنچ جائیں کہ ان میں سوراخ ہوجائے ، کبھی نیا لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔۔ اس وقت بھی جو شوز زیراستعمال ہیں اس میں الحمد للہ ایک سوراخ ہوگیا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ ابھی ایک دو ماہ اور کھینچ لیں گے اس لئے تب تک کام چل جائے گا۔۔

ابو کو ہمیشہ مجھ سے ایک ہی شکوہ رہا کہ میں نماز کی پابندی نہیں کرتا تھا، وہ اکثر ٹوکتے تھے اور سمجھاتے تھے ۔۔ابو کو میں نے کبھی بیمار نہیں دیکھا، ہمیشہ چلتا پھرتا اور صحت مند پایا۔۔ لیکن پچھلے پندرہ دن میں اچانک دنیا اندھیر ہوگئی۔۔ ابو کی گردن میں شروع ہونے والا درد اتنا بھیانک تھا کہ ابو کراہتے تھے، علاج شروع کرایا، ٹیسٹ پہ ٹیسٹ ہونے لگے۔۔ لیاقت نیشنل اسپتال میں داخل بھی کرایا۔۔ کراچی کے تمام ٹاپ کے نیورو سرجنز کو دکھایا، سب اس بات پر متفق تھے کہ ان کی گردن کے ایک مہرے میں تکلیف ہے، لیاقت والوں نے آپریشن کا بتایا، صبح آپریشن تھا اور رات جب ایک ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو انکشاف ہوا کہ ابو کو کینسر ہے وہ بھی آخری اسٹیج کا۔۔آپریشن کینسل کردیاگیا۔۔ اگلے روز کینسر کے ماہرین کے پاس رپورٹس لے کر گئے سب نے کہا، عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے کیموتھراپی اور کوئی بھی علاج ممکن نہیں۔انہیں گھر لے جائیں اور خدمت کریں یہ تین ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہیں گے۔۔ اب صورتحال یہ تھی کہ پیسہ، تعلقات، سب کچھ ہے لیکن باپ بستر مرگ پر تڑپ رہا ہے اور ہم بے بسی سے ہاتھ مل رہے ہیں۔۔

بچپن میں جب بھی ہمارے گھر چکن  پکتا تھا، ابو پہلے زندہ مرغی گھر لاتے پھر اسے ذبح کرتے، پھر اسے پکاتے تھے۔۔ اسی طرح ہر بقرعید پر گائے کو بھی ابو ہی ذبح کرتے تھے، میں ایسے موقع پر غائب ہوجاتا تھا۔۔جب مجھ سے  مرغی اور گائے کا تڑپنا نہیں دیکھا جاتا تو اپنے ابو کو تڑپتا کیسے دیکھ سکتا تھا؟  گھر والے ٹھیک ٹھاک سناتے تھے کہ ابو کا آخری وقت ہے ان کے پاس بیٹھو، ان سے باتیں کرو، ان کی خدمت کرو۔۔ لیکن ہمت ہی نہیں ہوتی تھی، گھر والوں کو کیسے بتاتا کہ ابو کوتکلیف سے تڑپتا دیکھ کر میری جان نکل جاتی ہے۔۔ گھر والے یہی سمجھتے رہے کہ میں “ایٹی ٹیوڈ” دکھا رہا ہوں یا پھر اپنے کاموں کے آگے ابو کو بھی اہمیت نہیں دے رہا۔۔حالانکہ ایسا ہرگز ہرگز سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔۔  ایک بار جتنی میرے اندر ہمت تھی ، جمع کرکے ابو کے بیڈ سے لگ کر بیٹھ گیا۔۔ابو نے آنکھیں کھولیں۔۔میرا نام لیا، میں نے کہا۔۔جی ابو۔۔ انہوں نے میری طرف ہاتھ بڑھایا، جو انجکشن لگ لگ کر چھلنی اور بہت کمزور ہوگیا تھا۔۔ میرے سر پر اپنا کانپتا ہاتھ رکھا۔۔ نقاہت اور نیم بے ہوشی کی وجہ سے وہ اپنا ہاتھ نہ ہٹا سکے۔۔ میں نے زندگی میں پہلی اور آخری بار اپنے ابو کا ہاتھ اپنے ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑا اور اسے چوما۔۔اورآہستہ سے ہاتھ بیڈ پر رکھ دیا۔۔ بس پھر اس کے بعد ہمت نہیں ہوئی ، ابوکو دیکھ بھی سکوں۔۔لیکن ان سے متعلق پل پل کی رپورٹس لیتا رہا۔۔آج جب ان کی ڈیڈ باڈی بستر پر پڑی تھی تو میں کمرے کی دیوار سے ٹیک لگا کر صرف یہی سوچ رہا تھا کہ کاش وہ ایک بار پھر میرے سر پر ہاتھ رکھ دیں۔۔

مجھے نہیں پتہ میں کیا کچھ لکھ چکا ہوں۔۔ لیکن جو بھی لکھ چکا ہوں ، دھندلائی آنکھوں سے لکھا ہے۔۔ آنسو بہتے جارہے ہیں۔۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔۔ میرا ہیرو چلا گیا۔۔میں جو پہلے ہی تنہائی کا شکار تھا، مزید تنہا ہوگیا۔۔  سر سے سایہ دار درخت ہٹ گیا ہے، اب  اس زندگی کو دھوپ کی شدت کا شکار بننا ہے۔۔ ابو آپ تو چلے گئے، آپ کی معصومانہ اور دلچسپ باتیں اب یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔۔ آپ جہاں رہیں اسی طرح قہقہے بکھیرتے رہیں سب کو ہنساتے رہیں اور ہمیشہ ہمیشہ خوش رہیں۔۔آمین۔۔(علی عمران جونیئر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں