mere dosto keliye dast dua utha dejiye

میرے دوستوں  کیلئے  “دست دعا” اٹھا دیجیے۔۔

تحریر: امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔

لاہور کی صحافی کالونی کا کبھی “نہال” کر دینے والا مین بلیوارڈ اب “سوگوار’ کر دیتا ہے۔۔۔اتنا سوگوار کہ دل غمزدہ اور آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں۔۔مکان بھی مکینوں سے مہکتے اور چہکتے ہیں۔۔مکین ہی نہ رہیں تو بلند و بالا مکان بھی “کشش”کھو دیتے ہیں۔۔عزیز از جان دوست حافظ ظہیر اعوان بھی کچھ ایسے ہی “گل بدن آدمی”  تھے۔۔مجلس یاراں کو کشت زعفران بنانے والے باغ و بہار حافظ صاحب دنیا سے کیا روٹھے قہقہے بھی روٹھ گئے۔۔

جناب تنویر عباس نقوی کے بعد حافظ ظہیر اعوان بھی بچھڑے ہی کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی۔۔واقعی اب تو شہر  ویران ویران سا لگتا ہے۔۔صحافی کالونی جانے کو بھی اب دل نہیں کرتا۔۔۔کبھی جائوں بھی تو اپنے اوپر “جبر”کرکے جاتا ہوں کہ یار کے بغیر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔۔عزت مآب ڈاکٹر احمد علی سراج مدینہ منورہ سے تشریف لائیں تو ان کے حکم کی تعمیل میں مسجد میں حاضری ہو جاتی ہے کہ حافظ صاحب کے گھر کے ساتھ ساتھ وہاں کی رول ماڈل مسجد حمیدہ سے بھی کتنی ہی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔۔مسجد حمیدہ کے معمار جناب انجینئر ارشد ناز بھی حافظ صاحب کی طرح خوب صورت آدمی تھے۔۔شومئی قسمت کہ بدبخت کورونا انہیں بھی”چھین” لے گیا۔۔انہوں نے اپنے نیک نام برادر نسبتی حاجی رمضان بھٹی کے حکم پر مسجد نہیں  بنوائی سنگ بنیاد سے افتتاح تک ایک ایمان افروز کہانی لکھی۔۔حاجی رمضان اور ارشد ناز کی کہانی پھر کبھی۔۔مسجد کے بعد حافظ صاحب کے گھر کے سنگ بنیاد کی بھی ایک دل چسپ داستان ہے۔۔لینڈ مافیا کی “ڈرامے بازی” کبھی نہیں بھولے گی۔۔تب خود ساختہ “حکم امتناع” کے تحت مین بلیوارڈ کے دائیں ہاتھ دیکھنا بھی” ممنوع” تھا لیکن حافظ صاحب کے گھر کے سنگ بنیاد بعد صحافیوں کی “دھاک” بیٹھ گئی اور “ممنوعہ علاقہ” اپنے اصل مالکان کے لیے کھل گیا۔۔پھر یہاں سنئیر کالم نگار جناب حافظ شفیق الرحمان اور پی ٹی وی کے زبیر صاحب کے علاوہ  کئی اور دوستوں کے گھر بھی آباد گئے۔۔اچھے لوگ برے دن نہیں بھولتے۔۔حافظ شفیق صاحب اور ان کی اہلیہ محترمہ آج بھی وہ دن یاد کرکے ممنون ہو جاتے ہیں۔۔ان دنوں جناب راجہ اورنگزیب کے پلاٹ پر بھی “من گھڑت” حکم امتناع آیا اور انجام کو پہنچا۔۔اس دوران ایک لطیفہ بھی ہوا کہ “ممنوعہ علاقے’ میں گھر دیکھ کر لوگ سمجھے کہ حافظ صاحب قبضے کرنے اور چھڑانے والے کسی گروہ کے” سرغنہ” ہیں۔۔۔لوگوں نے انہیں گھر بنا کر دینے کے بدلے پیسوں کی پیشکش بھی کر ڈالی۔۔وہ مجھے یہ واقعہ سناتے اور قہقہے چھوڑتے؟؟آخر انہیں ہاتھ جوڑ کر جان چھڑانی پڑی کہ بابا ہم شریف لوگ ہیں۔۔مجھے یاد ہے حافظ صاحب نے کتنے ہی ارمان سے یہ گھر بنایا تھا اور ان کے باادب بھائیوں نے کتنے ہی مان سے ان پر پیسوں کی بارش کر دی تھی۔۔۔حافظ صاحب چاہتے تھے کہ میں بھی کالونی میں گھر بنائوں اور انہوں نے مجھے “فنانشل پیکیج” کی بھی پیشکش کی۔۔میں نے انہیں سمجھایا کہ ادھر ابھی کچھ بنیادی مسائل ہیں تو وہ نا چاہتے بھی راضی ہو گئے۔۔جناب تنویر عباس نقوی کی طرح حافظ صاحب بھی میری بات کم ہی رد کرتے تھے۔۔نقوی صاحب تو دلیل بھی نہیں مانگتے تھے۔۔یہی نہیں ہم نے کبھی خالد چودھری صاحب سے کوئی بات منوانی ہوتی تو بھی نقوی صاحب کو وکیل کرتے۔۔نقوی صاحب تو ٹھہرے ہی جلد باز۔۔حافظ صاحب اور چودھری صاحب بھی خاموشی سے چل دیے۔۔حافظ صاحب گھر سے لاہور پریس کلب تک یکساں ہر دل عزیز تھے۔۔۔ گھر میں سب سے بڑے تھے اور سب بھائی بہن بھائی انہیں اپنا “مرشد “مانتے تھے۔۔یہی نہیں ان کے والدین بھی انہیں “بزرگ”ہی سمجھتے تھے۔۔وہ “لاڈلے شوہر” بھی تھے۔۔بھابھی ثمینہ ان کی پیروں کی طرح خدمت کرتی تھیں۔۔وہ بتایا کرتے کہ وہ کیسے پیسے جمع کرتیں اور مجھے مدینے لے جاتی ہیں۔۔ شاید یہ خدمت کا صلہ ہی تھا کہ اللہ کریم نے شادی کے اٹھارہ سال بعد بھابھی ثمینہ کی گود بھری اور انہیں زینب کی صورت خوب صورت تحفہ دیا۔۔اتوار کی شب افطار ڈنر کے لیے صحافی کالونی گیا تو واپسی پر کچھ دیر حافظ صاحب کے گھر ٹھہرا۔۔۔۔اس دن ننھی زینب ہی ہمارا موضوع تھی۔۔حافظ صاحب کی ہمشیرہ کی زبانی ننھی زینب کی حرکتیں جان کر آنکھیں کئی بار بھر  بھیگ گئیں کہ اسے کیا علم کہ اس کے بابا کتنے باوفا تھے۔۔؟؟ان کے بس میں ہوتا تو کبھی اپنی گڑیا کو چھوڑ کر نہ جاتے۔۔ان کے بس میں ہوتا تو والدین۔۔بھائی بہنوں اور ہم ایسے دوستوں کو بھی داغ جدائی نہ دیتے۔۔صحافی کالونی کے پارک میں افطار ڈنر کی مجلس میں سب دوست تھے لیکن نہیں تھے تو حافظ صاحب نہیں تھے۔۔وہاں  بیٹھے میں کئی بار ان کی یادوں میں کھو گیا اور بجھ سا گیا۔۔اس سال لاہور پریس کلب کے الیکشن میں بھی وہ مجھے ثوٹ کر یاد آتے رہے۔۔اتنا یاد آئے کہ کئی بار ان کی یاد میں اکیلے بیٹھ کر بھی رو دیا کہ حافظ صاحب ہوتے تو”چھپن چھپائی”کے بجائے میرے شانہ بشانہ ڈٹ کھڑے ہوتے۔۔انتخابی مہم کے دوران بھی وہ قدم قدم یاد آتے رہے اور رلاتے رہے کہ ہم دسمبر میں رہتے ہی ایک ساتھ تھے۔۔اللہ کے فضل و کرم سے نائب صدر منتخب ہو گیا تو حافظ صاحب مجھے اور شدت سے یاد آئے کہ وہ ہوتے تو خوشی سے دیوانے ہو جاتے۔۔بھنگڑے ڈالتے اور مٹھائیاں تقسیم کرتے۔۔حافظ صاحب ہی نہیں جناب تنویر عباس نقوی۔۔جناب راجہ اورنگزیب اور جناب خالد چودھری بھی ہوتے تو کھل اٹھتے کہ یہ سب لوگ اپنے سے زیادہ میرے خیر خواہ تھے۔۔وہ با وفا قبیلے کے لوگ تھے اور اہل وفا کب “غروب” ہوتے ہیں۔۔؟وفاداری بشرط استواری ہی اصل ایماں ہے اور اہل ایماں جہاں میں صورتِ خورشید جیتے ہیں۔۔ادھر ڈوبے ادھر نکلے ادھر ڈوبے ادھر نکلے۔۔بچھڑے دوستوں کو یاد کرتا رہتا ہوں کہ یہ بھی ایصال ثواب کا ایک انداز ہے۔۔ان کا اس لیے بھی تذکرہ کرتا رہتا ہوں کہ کبھی خواب میں بھی ملیں تو” بے وفائی” کا شکوہ نہ کریں۔۔آپ بھی میرے دوستوں کے لیے “دست دعا” اٹھا دیجیے۔۔(امجد عثمانی)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں