تحریر: جاوید چودھری۔۔
مرد زمین پر پڑا تھا جب کہ لڑکی روتی جا رہی تھی اور اسے ہلا ہلا کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی‘ میں رک گیا‘ ٹریک سے نیچے اترا‘ دونوں کے قریب پہنچا اور پانی کی بوتل لڑکی کے ہاتھ میں پکڑا دی‘ اس نے کانپتے ہاتھوں سے بوتل کھولی اور زمین پر گرے مرد کے منہ سے لگا دی‘ مرد شاید صدیوں کا پیاسا تھا ‘ وہ غٹ غٹ پانی پیتا چلا گیا۔میں نے لڑکی سے پوچھا ’’بہن خیریت ہے‘ کیا ہوا؟‘‘ اس نے کندھا اوپر کھسکایا‘ آنکھیں صاف کیں اور بولی ’’ہم دونوں سامنے بینچ پر بیٹھے تھے‘ پانچ سات لوگ آئے‘ ہمیں گالیاں دیں‘ پھر انھیں گھسیٹ کر زمین پر پھینکا اور انھیں ٹھڈوں اور مکوں سے مارنا شروع کر دیا‘ میں نے بچانے کی کوشش کی تو انھوں نے مجھے دھکا دے دیا‘ میں دور جاگری اور وہ انھیں مار کر چلے گئے‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا ’’اور یہ آپ کے کیا لگتے ہیں؟‘‘ اس نے دوبارہ آنکھیں صاف کیں اور بولی ’’یہ میرے ابو ہیں‘ ہم دونوں باپ بیٹی ہیں‘‘۔
اس دوران مرد نے آنکھیں کھولیں اور ہمیں حیرت سے دیکھنے لگا‘ اس کے چہرے پر درد اور دکھ دونوں تھے‘ میں نے اسے سہارا دیا‘ اٹھایا اور بینچ پر لٹا دیا‘‘ میں نے لڑکی سے پوچھا ’’وہ کون لوگ تھے‘ وہ کیوں آئے اور انھوں نے آپ لوگوں کو کیوں مارا؟‘‘ وہ تھوڑی دیر غور سے میری طرف دیکھتی رہی اور پھر بولی ’’میں انھیں نہیں جانتی‘ میرے ابو بینچ پر تھے اور میں ان کے پیچھے کھڑی ہو کر ان کے کندھے دبا رہی تھی‘ وہ لوگ آئے‘ ہمیں گھور کر دیکھا اور چلے گئے‘ تھوڑی دیر بعد دوبارہ آئے‘ ہمیں گالیاں دیں اور میرے ابو کو مارنا شروع کر دیا‘‘ میری حیرت میں اضافہ ہو گیا۔میں نے پوچھا ’’آپ کہاں رہتی ہیں اور کیا میں ایمبولینس کو کال کر دوں؟‘‘ اس نے سامنے گلی کی طرف اشارہ کیا اور بتایا’’ ہم اس گلی میں چوتھے گھر میں رہتے ہیں‘ میرا فون گھاس میں گر گیا ہے‘ آپ بس وہ تلاش کر دیں‘ میں اپنے بھائی کو بلا لیتی ہوں‘‘ میں نے گھاس پر پائوں پھیرنا شروع کر دیے لیکن مجھے موبائل نہ ملا‘ میں نے اس کا نمبر لیا‘ فون ڈائل کیا اور ذرا دور گھاس کے اندر گھنٹی بجنے لگی‘ لڑکی کا فون مل گیا‘ اس نے کسی کو فون کیا اور تھوڑی دیر میں دو نوجوان اور ایک بوڑھی خاتون ہانپتی ہوئی وہاں پہنچ گئی‘ وہ شروع میں مجھے مشکوک نظروں سے دیکھنے لگے۔
لڑکی نے انھیں میرے بارے میں بتایا تو ان کا رویہ بدل گیا‘ میں نے ان کے ساتھ مل کر مرد کو اٹھایا اور اسے سہارا دے کر گھر پہنچا دیا‘میں نے لڑکی سے ایک بار پھر پوچھا ’’وہ لوگ کون تھے اور انھوں نے آپ لوگوں پر کیوں حملہ کیا؟‘‘ وہ تھوڑی دیر سوچتی رہی اور پھر بولی ’’میرا خیال ہے وہ راہ گیر تھے‘ ان کے حلیے راج مزدوروں جیسے تھے اور وہ ہمیں آوارہ سمجھ رہے تھے‘ ان کا خیال تھا ہماری حرکتیں ٹھیک نہیں ہیں‘ میرے والد نے انھیں بتایا ہم باپ بیٹی ہیں‘ ہم واک کے لیے آئے ہیں‘ میں تھک گیا ہوں تو میری بیٹی نے محبت میں مجھے دبانا شروع کر دیا لیکن وہ بار بار کہہ رہے تھے تم بے غیرت نے اب اسے اپنی بیٹی بنا لیا‘ کیا بیٹیاں ایسی ہوتی ہیں اور ساتھ ہی انھیں مارنا شروع کر دیا‘‘۔
لڑکی کے دونوں بھائی غصے سے کھول اٹھے جب کہ ماں ماتھے پر ہاتھ مارنے لگی‘ وہ بار بار کہہ رہی تھی ’’میں نے انھیں کتنی بار منع کیا آپ شام کے بعد واک کے لیے نہ جایا کریں لیکن یہ کہتے تھے میں دور تو نہیں جا رہا‘ سامنے ہی تو جا رہا ہوں دیکھ لیا نتیجہ؟‘‘ میں نے افسوس سے لمبی آہ بھری اور باہر آگیا۔
یہ چند دن پہلے کا واقعہ ہے‘ یہ دونوں باپ بیٹی واکنگ ٹریک پر کسی ’’برائی مکائو اسکواڈ‘‘ کا نشانہ بن گئے اور مجھے یقین ہے ان دونوں نے یہ واقعہ کسی کو نہیں بتایا ہو گا کیوں کہ یہ اگر کسی سے اس کا ذکر کرتے تو ہر شخص ان کو بتاتا’’ آپ پڑھے لکھے اور سمجھ دار انسان ہیں‘ آپ کو شام کے بعد گھر سے نکلنے کی کیا ضرورت تھی اور آپ اگر جا بھی رہے تھے تو جوان بیٹی کو ساتھ لے جانے کی کیا ضرورت تھی اور آپ اگر اسے ساتھ لے گئے تھے تو پھر بینچ پر بیٹھنے کی کیا ضرورت تھی اور اگر بیٹھ بھی گئے تھے تو پھر آپ کی بیٹی کو یوں سرعام آپ کے کندھے دبانے کی کیا ضرورت تھی؟ آپ نے خود ہی اپنا کردار مشکوک بنا لیا‘ راہ گیروں کو کیا علم آپ دونوں کا آپس میں کیا رشتہ ہے؟‘‘لوگ یہ کہتے۔
ان دونوں کو مزید خفت اٹھانا پڑتی چناں چہ خاموش رہ کر انھوں نے زیادہ بہتر فیصلہ کیا ہو گا لیکن سوال یہ ہے وہ کون لوگ تھے اور انھیں کس نے یہ اختیار دیا وہ کسی بینچ پر بیٹھے مرد اور عورت کے بارے میں یہ فیصلہ کریں یہ اخلاقی حرکت کر رہے ہیں یا غیراخلاقی؟یہ سوال اب اس معاشرے میں غیر ضروری ہوچکا ہے‘ شہروں میں فیملی کے ساتھ باہر نکلنا تو دور اب اکیلا نکلتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے‘ آپ کہیں بھی چلے جائیں کوئی نہ کوئی شخص آتا ہے اور آپ پر حدود نافذ کر کے چلا جاتا ہے‘ میں پچھلی دو دہائیوں سے یہ تیر برداشت کر رہا ہوں آپ لوگ سچ کا ساتھ کیوں نہیں دیتے؟ میں جواب میں پوچھتا ہوں’’آپ کس سچ کی بات کر رہے ہیں‘‘مجھے بتایا جاتا ہے ’’آپ آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو کرپٹ کیوں نہیں کہتے؟‘‘۔میں عرض کرتا ہوں ’’جناب کیا یہ لوگ کرپٹ ثابت ہو گئے ہیں‘‘ مجھے بتایا جاتا ہے ’’کیا آپ نہیں جانتے‘ کیا آپ میں ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں؟‘‘اور میں پہاں پہنچ کر ہمیشہ خاموش ہو جاتا ہوں‘یہ مکالمہ ماضی کا مکالمہ ہو چکا ہے جب کہ لوگ اب کہتے ہیں آپ ناموس رسالتؐ پر کیوں خاموش ہیں؟
آپ نبی اکرمؐ کی آن کے رکھوالوں کا ساتھ کیوں نہیں دیتے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھتا رہتا ہوں‘ میرے دل میں ہزاروں سوال ابلتے ہیں لیکن میرے والد مجھے وصیت کر گئے تھے تم نے کسی ٹھیکے دار سے نہیں الجھنا‘ اسلام کے ٹھیکے داروں سے بھی نہیں اور ریاست کے ٹھیکے داروں سے بھی نہیں‘ تم اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو دل اور زبان سے دومن کا پتھر باندھ لو لہٰذا میں ان سے فوراً معافی مانگ لیتا ہوں‘ پوچھنے والے اگر معاف کر دیں تو ٹھیک ورنہ ہاتھ باندھ دیتا ہوں یا گھٹنوں کو ہاتھ لگا دیتا ہوں۔یہ نئے پاکستان کی ایک صورت حال ہے جب کہ دوسری صورت حال اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے‘ ملک میں ہزاروں ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو ایجنسیوں کا نام لے کر لوگوں کو ڈراتے بھی ہیں اور لوٹتے بھی ہیں‘ میرا اپنا ایک کیمرہ مین ایک ہفتہ قبل ایجنسی کے ایک جعلی اہلکار کی وجہ سے خودکشی کر گیا‘ وہ بہت ہی اچھا اور نیک انسان تھااور کام سے کام رکھتا تھا‘ میرا اس کے ساتھ چھ سات سال کا ساتھ تھا‘ شادی شدہ تھا‘ دو چھوٹے بچوں کا والد تھا‘ بیوی پڑھاتی تھی‘ وہ چھ ماہ قبل ریکارڈنگ کے لیے پشاور گیا اور لنڈی کوتل میں زنجیروں سے بندھے درخت کی تصویر اپنے اسٹیٹس پر لگا دی۔
اگلے دن اسے کسی نے گاڑی کی ایک ایسی تصویر بھجوا دی جس کی ونڈ اسکرین پر گولی کا سوراخ اور ساتھ خون کا نشان تھا‘ وہ ڈر گیا اور اس نے اپنے کزن سے ذکر کر دیا‘ کزن اسے کسی دوسرے شخص کے پاس لے گیا‘ وہ شخص ایجنسی کا جعلی اہلکار تھا‘ اس نے اسے یہ بتا کر مزید ڈرا دیا ’’تم ہٹ لسٹ پر ہو‘ تم بہت جلد پکڑے جائو گے اور تمہیں کل بھوشن یادیو بنا دیا جائے گا‘‘ وہ بے چارہ نفسیاتی طور پر کم زور اور غریب انسان تھا‘ وہ خوف زدہ ہو گیا‘ ایجنسی کے جعلی اہلکار نے اس سے رقم بھی لینا شروع کر دی اور اسے مسلسل دھمکاتا بھی رہا‘ ساتھی کیمرہ مین اسے تسلی دیتے رہے لیکن وہ خود کو ایجنسیوں کے نرغے میں محسوس کرنے لگا۔اس کا خیال تھا اس کے فون ٹیپ ہوتے ہیں‘ لوگ اس کا پیچھا کرتے ہیں اور اسے قتل کر دیا جائے گا یا پھر اسے غدار قرار دے دیا جائے گا‘ یہ احساس آہستہ آہستہ اتنا گہرا ہو گیا کہ وہ ڈپریشن میں چلا گیا‘ وہ جمعہ کو ڈیوٹی پر آیا‘ سارا دن کام کیا‘ شام کو گھر گیا‘ دروازہ بند کیا اور پنکھے کے ساتھ لٹک کر خودکشی کر لی‘ یہ خبر میرے اور میرے ساتھیوں کے لیے ناقابل یقین تھی‘ ہم آٹھ دن سے مسلسل شاک میں ہیں اور ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں ’’کیا ایسا بھی ممکن ہے‘ کیا لوگ اس طرح بھی ایجنسیوں کے جعلی اہلکار بن کر دوسروں کو لوٹ سکتے ہیں؟‘‘۔
میں اور میرے ساتھیوں نے جب یہ ذکر شروع کیا تو پتا چلا ملک میں ایسے ہزاروں جعل ساز اور بہروپیے موجود ہیں اور یہ کسی ایجنسی کا حوالہ دے کر دوسروں کو لوٹ رہے ہیں‘ ملک میں فراڈ کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو چکا ہے‘ لوگ پہلے جعلی پولیس مین بنتے تھے‘ پھر نیب کے جعلی افسر بننے لگے اور اب یہ ایجنسیوں کے کارندے بن کر لوٹ رہے ہیں۔یہ نئے پاکستان کے تین نئے ٹرینڈ ہیں اور یہ تینوں خوف ناک ہیں‘ لوگوں سے رشتے پوچھنا اور پھر ان کی اصلاح کرنا‘ لوگوں کو اپنی مرضی کا مسلمان بنانے کی کوشش اور ایجنسیوں کا جعلی افسر بن کرلوگوں کو خودکشی تک لے جانا‘ سوال یہ ہے یہ صورت حال اگر اسی طرح جاری رہی تو پھر اس ملک کا کیا بنے گا؟ آپ ایک لمحے کے لیے سوچیے گا ضرور۔(بشکریہ ایکسپریس)