تحریر: اشفاق حسین۔۔
میں عام طور پر کسی بحث میں نہیں پڑتا لیکن فیس بک اور کئی میڈیا گروپس میں ایک تحریر دیکھی جس میں لکھا گیا کہ امان اللہ کی تدفین اس لئے روکی گئی کہ پیرا گون سوسائٹی انتظامیہ نے کہا کہ نیک لوگوں کے قبرستان میں ایک میراثی دفن نہیں ہوسکتا۔اول تو یہ بات ہی نہیں ہوئی دوسرا افسوسناک پہلو یہ کہ سب دوست تبصرے ہر تبصرہ کئے جارہے ہیں جن میں اکثریت ان کی ہے جو وہاں موجود ہی نہیں تھے۔
اصل بات یہ ہے کہ میں وہ پہلا شخص تھا جسے امان اللہ کے بیٹے امانت علی نے بتایا کہ انتظامیہ نے قبر کی کھدائی رکوا دی ہے کیونکہ ہم نے کہا تھا کہ ہمیں تین قبروں کی جگہ دی جائے تاکہ ہم بعد میں ان کی قبر کے ساتھ جگہ خالی رکھیں تاکہ لوگ وہاں بیٹھ کر فاتحہ وغیرہ پڑھ سکیں یا مزار بنالیں لیکن انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ہماری پالیسی نہیں ہے۔آپ لوگ کچھ کریں۔جس پر میں نے یہ بات اپنے سینئر دوست اور کلچرل جرنلسٹس فائونڈیشن آف پاکستان کے سینئر عہدیدار ٹھاکر لاہوری صاحب کو بتائی جو فوری پر قبرستان پہنچ گئے جس کے کچھ دیر بعد میڈیا کے اور دوست اور فیاض الحسن چوہان صاحب بھی پہنچ گئے۔قبرستان میں لائٹ کا بھی انتظام نہیں تھا جبکہ قبر کی کھدائی بھی نامکمل تھی۔صوبائی وزیر، میڈیا اور سوسائٹی کے ایک عہدیدار سے جو بھی بات چیت، بحث ہوئی اس کی وڈیو بھی موجود ہے۔
وہاں کسی بھی شخص نے یہ بات نہیں کی کہ میراثی کو یہاں دفن نہیں کرنے دیں گے۔نماز جنازہ کے بعد بھی ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔اور ویسے بھی کسی کے پاس بھی ایسی اتھارٹی نہیں کہ وہ مرنے والے کو نیک یا گناہگار قرار دے۔میری درخواست ہے کہ ایسی بے بنیاد باتوں سے پرہیز کریں اور میڈیا کے لوگ اپنی خبر یا چینل کی ریٹنگ کے لئے اتنا بھی جھوٹ نہ بولیں کہ جس کا سر پیر ہی نہ ہو۔(اشفاق حسین)۔۔