تحریر: ثناء ہاشمی۔۔
کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ پسند کی شادی کا یہی انجام ہوتا ہے، اور یہ بھی سننے کو ملا صرف مارا ہی تو ہے، عورت کے حسن میں اسکے گیسو یعنی بال ہی اسکی شخصیت کو مزید پر اثر بناتے ہیں، ارے جائیں عورت ہی کیا کسی سرمنڈے مرد کو دیکھ کا سوال ضرور ہوتا ہے کہ ہائے اچھا بھلا ہے بیچارے کے بال نہیں افسوس تو ہوتا ہوگا اسے،، اس جیسے کئی اور جملے اور باتیں ہیں جو لکھی جا سکتی ہیں ،،، مجھے صرف اس سوال کا جواب نہیں مل رہا کہ پسند کی شادی کرتے ہیں ، عورت کے معصوم دل کو اپنی لچھے دار باتوں میں پھانستے ہیں اور جب اس سے مطلب پورا ہوجائے تو اسکا ایسا ہی حشر کرتے ہیں جو لاہور ڈیفنس کی رہائشی اسماء کے ساتھ جو ہوا، دل تو چاھا رہا کہ اس آدمی کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا جائے جو اس نے ایک عورت کے ساتھ کیا ،،،عورت کا اپنی جاگیر سمجھ رکھا ہے، شرم اور حیا کو بیچ کھایا ہے،،، میں غصہ میں ہوں لیکن اس سے زیادہ فکرمند ہوں، عورتوں کو اس ظلم کا نشانہ بنانے والے ایک عورت مہوش حیات کے ایوارڈ پر اپنے پیٹ کا ددر کا اظہار کہیں نہ کہیں کررہے ہیں ،،، کب تک بھائی کب تک ؟ کیا مسئلہ ہے عورت سے، یہی تو پیدا کرتی ہے ،، اتنے خود پر کیوں نازاں ہو،،آج ہی ایک لڑکی نے کہا کہ میں ایسی ڈر سے شادی نہیں کرنا چاھتی کہیں یہی سب میرے ساتھ نا ہو،،، میں اسکو دلاسہ تو دے رہے تھی ،، لیکن مجھے پتا تھا کہ میرے لفظ کمزور ہیں اور مرد طاقتور،،، کہاں کی طاقت کس کی طاقت،، شہروں سے لیکر دیہات اور دیہات سے لیکر شہر ہر جگہ یہی پٹ رہی ہے،، میرے گھر کام میرے ہاتھ بٹانے والی رضیہ بھی جب کبھی تین روز کے بعد آتی ہے تویہی کہتے ہے باجی میرے مرد نے مارا تھا نہیں آسکی پٹتی بھی ہے اور کماتی بھی بےشرموں کا پیٹ بھی بھروں اور بقول اسماء کے ناچوں بھی کیوں کہ اسکے شوہر نے اسکو یہی عمل کرنے کا کہا ہر جگہ یہی نشانے پر ہےعورت کے کے لئے آواز اٹھاؤ تو سننے کو ملتا ہے ،، بھائی بچ کے رہنا عورتوں کی علمبردار ہیں،، جب مارتے ہو گالیاں دیتے ہو تو اس وقت ڈرا کرو، کیوں کہ کمزور شاید بدلہ نہ لے سکے لیکن اسکا صبر عرش ہلا دیتا ہے،،، وہ تو بھلا ہو اس موبائل فون اور سوشل میڈیا کا جس کی مدد سے اس عورت کی آواز متعلقہ لوگوں تو پہنچ گئی،، ورنہ ، کون اسماء کون سا ظلم، یہ تو سب روز ہی ہوتا ہے،، کس طرح اس عورت کی روح کو ماراہے اس ظالم نے ،، خدا غارت کرے،، اپنی بیوی پر ایسا ظلم ،،، یہ میری مرضی سے ہنسے میری مرض کے کپڑے پہنے اور جو میں کہو،، ایک روبوٹ کی طرح بس وہی کرے،، خدا کا واسط ہے عورت کو انسان مان لو مت کرو ایسا ظلم،، یہ وحشت اور نہیں سہی جارہی ،، اتنا مت ڈراو کے خوف سے خوف ہی نہ رہے،، مہوش حیات کا تمغہ ہضم نہیں ہو رہا ،، اسماء پر ظلم ہونا ہمارا کلچر ہے،، واہ رے واہ حضرات آپکی کی کونسی کل سیدھی،،، مجھے نہیں اندازہ کہ میرے لفظ بامعنی ہیں بھی یا نہیں ،، لیکن مجھے یہ ضرور پتہ ہے کہ اسماء جیسے اور کئی آوازیں ہیں جو کہیں نہ کہیں سسک رہی ہیں ،، اور انکی سسکیاں آہیں بن رہی ہیں اور ورک پلیس ہراسمنٹ بل سے لیکر گھریلو تشد د کے قوانین شاید مجھے اتنی تقویت تو دیتےہیں کہ میں اپنے حق کہ لئے آواز اٹھاو ںلیکن اسکے بعد کیا ہوگا اسکی ضمانت نہیں،،۔۔(ثنا ہاشمی)