تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
اسلام آباد میں میلوڈی مارکیٹ میں ایک پٹرول پمپ پر پٹرول ڈالو کر ادائیگی کرنے لگا تو ایک نوجوان بولا: سر جی‘ میں آپ کا کالم پڑھتا ہوں‘ آپ کو ٹی وی پر دیکھتا ہوں‘ آپ کے وی لاگ بھی دیکھتا ہوں‘ آپ سے ایک بات کہنی تھی۔ پہلے خوشگوار حیرت ہوئی کہ پٹرول پمپ پر پٹرول ڈالنے والا نوجوان ہمارے وی لاگ تک دیکھتا ہے۔ میں نے کہا: جی ضرور۔وہ ہنس کر بولا: آپ عمران خان پر تنقید نہ کیا کریں۔میں نے اسے غور سے دیکھا اور ہنس کر پوچھا: آپ خیبر پختونخوا سے ہیں؟وہ بولا: جی۔پتا نہیں میرے دل میں کیا سمائی کہ میں نے گاڑی سائیڈ پر لگائی اور اس نوجوان سے گفتگو کرنے لگا۔ عموماً مارکیٹس میں سیاسی بحث سے گریز کرتا ہوں‘ ہاں چند منٹ لوگوں کے خیالات سن لیتا ہوں کہ چلیں ان کا موقف بھی جان لیں‘ لیکن اس نوجوان میں مجھے کچھ بات نظر آئی۔
میں نے کہا: آپ کا کیا خیال ہے‘ میرے جیسے لوگ عمران خان پر تنقید کیوں کرتے ہیں؟ ہمیں ایسا کرنے سے کیا ذاتی فائدہ ملتا ہے؟ الٹا آپ جیسے بہت سے لوگ ناراض ہوتے ہیں یا ہم سے دور ہو جاتے ہیں۔ ہمیں یہ سب کچھ کرنے کا کیا ثواب ملتا ہے؟وہ بولا: جی اسی لیے آپ کو کہا ہے کہ آپ کو عرصے سے سن رہا ہوں‘ آپ کسی کی سائیڈ نہیں لیتے لیکن جب آپ عمران خان پر تنقید کرتے ہیں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے۔میں نے کہا: پیارے تم اکیلے نہیں ہو جسے تکلیف ہوتی ہے‘اب ہر کسی کوتکلیف ہوتی ہے۔ تین چار کروڑ لوگ تو باقاعدہ کسی نہ کسی پارٹی کے ووٹرز ہیں۔ ان کی آنکھوں سے جب بھی کوئی ایسی تحریر گزرتی ہے جو انہیں اپنے پسندیدہ لیڈر کی شان میں گستاخی لگتی ہے تو وہ سب ری ایکٹ کرتے ہیں۔ کبھی نواز شریف‘ مریم نواز کے حامی ناراض تو کبھی آصف زرداری کے جیالے‘ تو کبھی عمران خان کے فین مائنڈ کر جاتے ہیں۔ میں نے کہا: میرے صحافت کے ان تیس برسوں میں ہر دور میں کسی نہ کسی پارٹی کے حامی مجھ سے ناراض رہے ہیں۔ اب تو عادت سی ہوگئی ہے۔ نواز شریف نے تو باقاعدہ صحافیوں کو اپنا بنانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام کیا۔ آصف زرداری سکول آف تھاٹ نے بھی یہی کام کیا۔ عمران خان صاحب تو یہ کھیل نیکسٹ لیول تک لے گئے ہیں کہ صرف وہی صحافی ہے جو ان کا طبلہ بجائے‘ورنہ وہ بکاؤ اور لفافہ ہے۔
مجھے اس نوجوان کی باتیں سن کر اپنا ایک پرانا دوست یاد آیا جو خود ٹی وی سٹار ہے۔ وہ اکثر سوشل میڈیا پر مجھ پر تنقید پڑھ کر ہنس ہنس کر دہرا ہو جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے‘ اس قوم کو کبھی وہ مت بتاؤ جو سچ ہے۔ یہ قوم جھوٹ پر پلتی ہے۔ اس کی رگوں میں اب غلامی اور شخصیت پرستی سرایت کر چکی ہے۔ وہ کہتا ہے: تم خود ہی لکھتے رہے ہو کہ کیسے یہ خطہ ہزاروں سال غلام رہا‘ جو معاشرہ پانچ طبقات میں تقسیم تھا جس میں برہمن سے لے کر شودر تک درجہ بندی تھی اور آج بھی ہے وہاں تم سیاسی برہمنوں کو چیلنج کرنے کے چکر میں ہو۔ یہ لوگ بے چارے کیا کریں کہ ان کی نسلوں کی اب تربیت ہو چکی ہے کہ وہ ہاتھی گھوڑے یا رتھ پر سوار بندے سے متاثر ہو جاتے تھے۔ آج کل وہ لینڈ کروزر اور ذاتی جہاز والے سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کی دولت یا عہدے انہیں مرعوب کرتے ہیں۔ وہ انہیں اپنا اَن داتا بنا لیتے ہیں۔وہ کہتا: تمہارے جیسے لوگ کہتے ہیں یہ تمہارا لیڈر بھی تمہارے جیسا انسان ہے‘ وہ تم لوگوں کی وجہ سے ہی بڑا بنا ہے اور آج تم پر حکمرانی کرتا ہے۔ اس کا کام تم لوگوں کی خدمت کرنا ہے‘ حکمران بننا نہیں۔وہ دوست کہتا ہے کہ تم اس قوم کو وہی سودا بیچو جو وہ خریدنا چاہتی ہے۔ عوام کرپٹ لیڈر اس لیے پسند کرتے ہیں کہ اکثریت خود کرپٹ ہے یا بننا چاہتی ہے۔ تم انہیں مہان سیاستدانوں کی پالیسیوں یا لوٹ مار کے نقصانات نہیں بلکہ فوائد گنوایا کرو۔ تم ان کی ہاں میں ہاں ملائو۔ بلے بلے کرو۔ ان کے خودساختہ بت کو مزید رنگ و روغن لگا کر پیش کرو۔ لوگوں کے اندر کسی بھی سیاستدان کے لیے موجود مرعوبیت کو مزید ہوا دو۔ ہر انسان اپنے اندر موجود جس شخصیت کی پوجا کرتا ہے تم اسے اس کی وہ خوبیاں بتایا کرو جو اسے خود بھی معلوم نہ ہوں۔ ہر بندہ اپنے چوائس پر آپ کی حمایت چاہتا ہے۔
مجھے اس کی بات سن کر نعیم بھائی یاد آتے ہیں‘ جن سے گائوں میں ہر عید کے موقع پر لوگ مشورہ مانگنے آتے تھے۔ ایک دن میں نے کہا: آپ سے سب لوگ مشورہ مانگتے ہیں۔ کیا وجہ ہے؟تب انہوں نے زندگی کا ایک بڑا راز مجھے سمجھایا۔ بولے: جو بندہ آپ سے مشورہ مانگنے آتا ہے‘ وہ دراصل آپ سے مشورہ نہیں چاہتا بلکہ اپنے مسئلے کا جو حل اس نے سوچ رکھا ہے اس کی تائید چاہتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ پہلے آپ بتائیں‘ آپ کے نزدیک اس مسئلے کا کیا حل ہے‘میں آپ کو بعد میں بتاتا ہوں کہ آپ کو کیا کرنا چاہیے۔ نعیم بھائی کے بقول ہر بندہ انہیں بتاتا تھا کہ اس کے خیال میں یہی اس مسئلے کا حل ہوسکتا ہے اور میں فوراً کہتا ہوں:یہ بہترین حل ہے‘ کر لو۔ یوں وہ سمجھتا ہے کہ اب تو ڈاکٹر صاحب نے بھی تائید کر دی۔ وہ پورا زور لگاتا ہے اور مسئلہ حل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ حل اس کا اپنا ہوتا ہے۔
مجھے کہنے لگے: تم الٹا اسے پوری ایمانداری سے مشورے دینے لگ جاتے ہو۔ ممکن ہے وہ اچھا حل ہو لیکن وہ اپنی مرضی کاحل چاہتا ہے‘ تمہاری مرضی کا نہیں‘ چاہے وہ کتنا اچھا ہی کیوں نہ ہو۔ اس لڑکے کو دیکھ کر مجھے یہی خیال آیا۔ میں نے اس نوجوان کو کہا: عمران خان کو ایک طرف رکھیں‘ آپ کو پتا ہے کہ جو بھی سیاسی حکمران ہیںسب سے میرے اپوزیشن کے دنوں میں اچھے تعلقات رہے ہیں۔ دوستی کا دعویٰ نہیں کرتا کیونکہ یہ حکمران یا سیاستدان کسی کے سگے نہیں ہوتے‘ انہیں ایک ہی بات سمجھائی جاتی ہے کہ ہر ملنے والا بندہ کام کا ہے اور اس کا کام یہ ہے کہ وہ آپ کے لیے استعمال ہو‘ چاہے اس چکر میں وہ مارا جائے‘ جیل جائے یا اس کے بچے رُل جائیں‘ انہیں پروا نہیں۔میں نے کہا: یہ حکمران تو چاہتے ہیں کہ ہم ان کے حق میں نعرے لگائیں‘ ان سے دوستی کریں‘ عوام کو بیوقوف بنانے میں ان کی مدد کریں‘ ہم اُن کے کاموں میں کیڑے نہ نکالیں۔ ہم ان کے لیڈر کا Larger than life امیج بنانے میں مدد کریں۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے تو اپنے اپنے پسندیدہ لکھاریوں کا گروپ بنا رکھا تھا‘ عمران خان نے بھی یہی کچھ کیا اور صحافیوں میں اپنا فین کلب بنا لیا۔ اب آپ بتائیں‘ ہم سب صحافی ان حکمرانوں کے طبلچی بن جائیں اور ان کی ہر بات پر واہ واہ کرنا شروع کر دیں‘ تو آپ کو اندازہ ہے کہ یہ لوگ آپ لوگوں کے ساتھ کیا کریں گے؟
شکر کریں‘ اب بھی صحافیوں میں کچھ لوگ نواز شریف‘ آصف زرداری یا عمران خان پر سوالات اٹھاتے ہیں جس وجہ سے وہ کچھ دباؤ میں رہتے ہیں۔ ان کے وعدوں یا قابلِ اعتراض فیصلوں پر بات کرتے ہیں ورنہ اب نیوٹرل صحافی رہنا مشکل ہوگیا ہے۔ عوام تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم کسی نہ کسی پارٹی اور اس کے لیڈر کے ہاتھ پر بیعت کر کے اسے دن رات فرشتہ ثابت کریں۔ اسے پاکستان کے لیے ناگریز بنا کر پیش کریں۔ میں نے مزید کہا: کتنی دیر لگتی ہے کہ میں آپ سے داد پائوں‘واہ واہ کرائوں‘ لیکن عرصہ ہوا واہ واہ اب اچھی نہیں لگتی کیونکہ مجھے لگتا ہے جو واہ واہ کے عادی ہو جاتے ہیں وہ ایک دن پھاہے لگتے ہیں۔
وہ نوجوان چپ چاپ سنتا رہا‘پھر کچھ سوچ کر بولا: بات تو آپ کی ٹھیک ہے لیکن پھر بھی آپ عمران خان کی حمایت کیا کریں۔
میں نے ہنس کر پوچھا: آپ کا کیا نام ہے؟
بولا: جی میرا نام بھی عمران ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)