تحریر؛ جاوید چودھری۔۔
محمد فاروق خالد لاہوری ہیں‘ عین جوانی میں رائیٹر بننے کا فیصلہ کیا‘ تول کر اخباری کاغذ خریدا‘ گھر میں محبوس ہوئے اور دن رات ایک کر کے زندگی کا پہلا ناول لکھ دیا‘ وہ ناول بعدازاں ’’سیاہ آئینے‘‘ کے نام سے شایع ہوا اور اس نے تہلکہ مچا دیا۔یوں یہ ایک ہی رات میں ادیب بن گئے‘ یہ اس کے بعد مختلف کام کرتے رہے اور جب ان کاموں میں کام یاب نہ ہوئے تو یہ پاکستان سے ہالینڈ چلے گئے‘ یہ اب دو تین سال بعد اپنی پرانی جیپ لیتے ہیں اور ملکوں ملکوں گھومتے ہوئے سال چھ ماہ میں پاکستان آتے ہیں اور پھر بائی روڈ ہالینڈ واپس چلے جاتے ہیں۔
فاروق صاحب نے اس جیپ سیاحت کے ذریعے آدھی سے زائد دنیا بھی دیکھ ڈالی اور اپنے ان اسفار کا ایک انتہائی دل چسپ سفرنامہ بھی تخلیق کیا‘ میں ان کا یہ سفرنامہ متعدد بار پڑھ چکا ہوں‘ یہ آج کے دور میں ابن بطوطہ کی رحلہ (تحفۃ النظار) اور مارکو پولو کی ’’دی ٹریولز آف مارکو پولو‘‘سے کہیں بہتر اور شان دار کتاب ہے۔میں محمد فاروق خالد کا فین ہوں‘ ان کی نئی تحریروں کا منتظر رہتا ہوں اور ان سے تھوڑا سا رابطے میں بھی ہوں‘ یہ مجھے خط لکھتے رہتے ہیں اور میں جواب میں انھیں فون کرتا ہوں‘ فاروق صاحب نے چند دن قبل ایمسٹرڈیم سے خط لکھا اور 8 اگست کے کالم ’’ٹھیکے داروں کا ملک‘‘ میں چھوٹی سی تصحیح کی‘ فاروق صاحب کا کہنا تھا‘ ہالینڈ کی ملکہ جولیانا نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو اپنا ایک چھوٹا سا محل گفٹ کیا تھا۔یہ بات درست ہے لیکن یہ محل ایمسٹرڈیم کے بجائے ڈن ہیگ میں تھا اور اس میں پاکستانی سفارت خانے کی عمارت نہیں بلکہ سفیر پاکستان کی رہائش ہے‘ مستنصر حسین تارڑ کے صاحب زادے سلجوق تارڑ سفیر بن کر ہالینڈ آئے ہیں اور یہ اب اس محل میں رہائش پذیر ہیں‘ میں نے فاروق صاحب کا شکریہ ادا کیا‘ یہ میری غلطی تھی لہٰذا قارئین درستی فرما لیں۔
خان لیاقت علی خان کے صاحب زادے اکبر علی خان کے کالم نے اپنی پذیرائی سے مجھے حیران کر دیا‘ ملک کا شاید ہی کوئی طبقہ‘ خاندان یا ادارہ ہو گا جس نے اکبر علی خان سے رابطہ نہ کیا ہو‘ وزیراعظم اور صدر نے بھی اکبر علی خان کے علاج اور کفالت کی ذمے داری اٹھا لی اور قرشی دواخانہ کے چیئرمین اقبال قرشی صاحب نے بھی یوں محسوس ہوتا تھا ملک کا ہر شہری خان لیاقت علی خان کے احسانات کا بدلہ اتارنا چاہتا ہے‘ یہ جذبہ دیکھ کر میرا دل ممنونیت اور آنکھیں احسان مندی سے بھر گئیں اور محسوس ہوا یہ سارا ملک ٹھیکے داروں کا نہیں ہے۔
اس میں انسان بھی بستے ہیں اور یہ انسان شرف انسانیت کے ہر معیار پر پورے اترتے ہیں‘ مبصرین کے اس ہجوم میں میرے ایک پرانے دوست بھی شامل تھے‘ یہ دوست ماضی میں انتہائی طاقتور عہدے پر فائز رہے‘ یہ میری تحریروں سے مطمئن نہیں ہیں‘ ان کا خیال ہے میں ضرورت سے زیادہ مایوس ہوں‘ مجھے امید کی بات بھی کرنی چاہیے‘ میں نے ان سے اتفاق کیا‘ مجھ میں واقعی یہ خامی موجود ہے اور میں بعض اوقات اس خامی کی آخری ٹہنی پر چڑھ کر جھولنا شروع کر دیتا ہوں۔میں اپنی خامی سے جان چھڑانا چاہتا ہوں لیکن جب یہ سوچتا ہوں اللہ تعالیٰ نے ہمیں کیا شان دار ملک دیا‘ ہمیں ہر قسم کی نعمتوں سے بھی نوازا‘ دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہیں جن کی نوے فیصد آبادی اپنے والدین سے بہتر زندگی گزار رہی ہے‘ میرے سمیت کروڑوں لوگ ایسے ہیں جن کے پاس سائیکل بھی نہیں ہوتی تھی‘ جن کی صلاحیت‘ تعلیم اور محنت دیکھی جائے تو یہ کلرک کے عہدے کے قابل بھی نہیں تھے‘ ہندوستان کی تقسیم کے وقت پوری انارکلی میں مسلمانوں کی صرف دو دکانیں تھیں جب کہ صدر کے علاقے میں تین اور یہ لوگ بھی کباڑ‘ گوشت اور پنسار کا کام کرتے تھے۔
سرگودھا کی آبادی 36 ہزار تھی‘ ان میں سے 30 ہزار سکھ تھے جب کہ مسلمان صرف چھ ہزار تھے اور یہ بھی محنت مزدوری اور کھیتی باڑی کے سوا کچھ نہیں کرتے تھے‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ سیالکوٹ‘ حیدرآباد اور کراچی میں بھی عہدے‘ کاروبار‘ مارکیٹ اور فیکٹری سمیت مسلمانوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہوتا تھا‘ ہندو‘ سکھ اور پارسی سب کچھ اپنے ساتھ بھارت لے گئے مگر آپ پھر اللہ کا کرم دیکھیں‘ اس خاک میں سے کروڑوں کام یاب لوگ نکلے اور دن اور رات کے سفرمیں ارب پتی بن گئے‘ آج ہم لوگوں کے پاس سب کچھ موجود ہے‘ ہم سب کو اس پر شکر کرنا چاہیے۔
ہم شکر کرتے بھی ہیں لیکن اس ترقی اور اس ترقی سے وابستہ شکر کے باوجود ایک کسک موجود ہے‘ یہ کسک ہمارے دلوں کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیتی اور اس کسک کا نام ہے بے برکتی‘ ہمارے اس ملک کے سر پر کسی آسیب کا سایہ ہے‘ ہم مانیں یا نہ مانیں اور یہ آسیب ہم سب کو آرام کے ساتھ زندگی نہیں گزارنے دے رہا‘ ہم یہ بھی مانیں یا نہ مانیں اور ہم لوگ اللہ کی تمام نعمتوں کے باوجود اداس‘ پریشان اور ناخوش ہیں‘ ہم یہ بھی مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حقیقت ہے پاکستان کے شہری سب کچھ پا کر بھی خوش نہیں ہیں‘ کیوں؟ کیا کبھی کسی نے سوچا!۔
ہمیں یہ ماننا ہو گا اللہ نے ہم پر بے تحاشا رحم کیا‘ اس نے ہمیں جی بھر کر نوازا لیکن جہاں سے ہماری ذمے داری شروع ہوتی تھی ہم نے وہاں سے اس ملک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ کیا پولیس سے لے کر عدالت تک اس ملک کے ادارے سیاپا نہیں کر رہے‘ کیاریڑھی بان سے لے کر صدر تک اس ملک میں کسی شخص کو انصاف ملتا ہے؟ یورپ میں دودھ‘ ادویات اور پانی میں ملاوٹ کا تصور تک ممکن نہیں‘ آپ وہاں کسی سے پوچھ لیں ’’کیا آپ کا دودھ خالص ہے‘‘ وہ حیرت سے آپ کی طرف دیکھے گا اور پوچھے گا ’’کیا دودھ میں بھی ملاوٹ ہوسکتی ہے‘‘ جب کہ پاکستان میں وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر میں بھی جعلی دودھ ملتا ہے۔
سپریم کورٹ کے ججز بھی پاکستان کی ڈسپرین استعمال نہیں کرتے‘ پورے ملک میں کوئی ایک سرکاری دفتر یا سرکاری عہدیدار نہیں جو ٹونٹی کا پانی پیتا ہو‘ سرکاری اسکول میں سب کچھ ہوتا ہے لیکن تعلیم نہیں ہوتی‘ ہم دنیا کا واحد اسلامی ملک ہیں جس میں کوئی بھی شخص کسی بھی جگہ عبادت گاہ بنا سکتا ہے اور کوئی اسے روک نہیں سکتا‘ جس میں کوئی بھی شخص کسی بھی وقت لاؤڈ اسپیکر لگا کر کسی بھی قسم کی تقریر کر سکتا ہے اور ریاست کا کوئی ادارہ اس سے پوچھ نہیں سکتا‘ آپ سڑکوں پر جائیں تو یہ غیرمحفوظ ہیں۔مسجد میں جائیں تو وہاں کفر کے فتوے جاری اور ساری ہیں‘ اسپتال جائیں تو ڈاکٹرز اور نرسیں مریضوں کو بلکتا چھوڑ کر موبائل سے کھیل رہی ہیں‘ کھانا کھانے لگیں تو مرچ اور نمک تک جعلی نکل آتے ہیں‘ لوگ دو چار سو کنال زمین خرید کر اس پر میلوں لمبی ہاؤسنگ اسکیمیں بناتے ہیں اور دس دس‘ بیس بیس ہزار فائلیں بیچ کر ملک سے فرار ہو جاتے ہیں اور حکومت کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔
آج بھی تین چار کروڑ لوگ سسٹم میں موجود نہیں ہیں‘ سڑکوں پر بھکاریوں کے ریوڑ پھر رہے ہیں اور ریاست تماشا دیکھ رہی ہے‘ بارش آئے تو ہم ڈوب کر مر جاتے ہیں‘ نہ آئے تو خشک سالی کا شکار ہو جاتے ہیں‘ گرمی ہو تو بجلی غائب ہو جاتی ہے‘ سردی ہو تو گیس گم ہو جاتی ہے‘ ہم زرعی ملک ہیں لیکن ہمارے عوام پوری دنیا میں سب سے مہنگا آٹا اور چینی خریدتے ہیں‘ ہم عید پر بکروں اور بیلوں کو جعلی دانت اور سینگ لگا کر قربانی کے قابل بنا دیتے ہیں اور ہم 74 برسوں میں رکشوں اور ریڑھیوں کو بھی ڈسپلن میں نہیں لا سکے چناں چہ ہمیں ماننا ہوگا ہم پر اللہ نے بہت کرم کیا لیکن جہاں ہمیں اپنے لیے کچھ کرنا چاہیے تھا ہم نے وہاں قدرت کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ہم یورپ‘ امریکا‘ روس اور جاپان کو چھوڑ دیتے ہیں‘ ہم مان لیتے ہیں یہ لوگ ہم سے اسپیئر ہیں لیکن دیکھتے دیکھتے ہمارے خطے میں کیا کیا تبدیلی نہیں آئی؟ آپ سری لنکا کو دیکھ لیں‘ بھارت کو دیکھ لیں‘ ایران اور ترکی کو دیکھ لیں‘ بنگلہ دیش 1971 تک ہمارا حصہ تھا‘ یہ آج کہاں ہے اور ہم کہاں ہیں؟ آپ افغانستان کو دیکھ لیں‘ طالبان نے دو ماہ میں پورے افغانستان پر قبضہ کر لیا‘ یہ کابل میں بھی داخل ہو چکے ہیں‘ تاریخ سے ان لوگوں نے بھی سیکھ لیا‘ 2021 کے طالبان 1994کے طالبان سے بالکل مختلف ہیں‘ یہ عمارتوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور نہ سڑکوں‘ مارکیٹوں اور سرکاری دفاتر پر اسلام نافذ کر رہے ہیں‘ یہ عام لوگوں اور صحافیوں کو بھی امان دے رہے ہیں اور سرکاری اہلکاروں کو بھی ڈیوٹی سے نہیں روک رہے۔
ہمارے دیکھتے دیکھتے چین سپر پاور بن گیا اور مشرقی یورپ انگڑائی لے کر مغربی یورپ کے برابر ہو گیا‘ افریقہ تک بدل گیا‘ روانڈا‘ ایتھوپیا اور برونڈی میں بھی اس وقت امن ہے اور یہ ایکسپورٹر بن چکے ہیں لہٰذا پھر سوال یہ ہے ہم دنیا سے کیوں پیچھے ہیں‘ ہم اپنے سسٹم کیوں امپروو نہیں کرپا رہے؟ ہم نے ایٹمی طاقت بننے کا فیصلہ کیا تو ہم نے صرف 300 ملین ڈالر میں دس سال میں ایٹم بم بنا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا‘ ہم نے موٹروے بھی بنا لی‘ہم نے چار سال میں اپنی ضرورت سے زیادہ بجلی بھی پیدا کر لی اور ہم نے دو سال میں دہشت گردی کو بھی شکست دے دی۔
ہم اگر یہ ناممکن کام کر سکتے ہیں تو پھر ہم وہ ممکن کام کیوں نہیں کرتے جو روانڈا جیسے ملک بھی کر لیتے ہیں‘ اس سوال کا جواب کون دے گا؟آپ قوم کو بس اس سوال کا جواب دے دیں ہم اگر ایٹم بم بنا سکتے ہیں تو ہم قوم کو اخلاقی لحاظ سے ایٹمی کیوں نہیں بناتے؟ ہم اپنی سڑکوں اور اسکولوں کو محفوظ کیو ں نہیں بناتے!کیا یہ ایٹم بم سے بڑا کام ہے؟۔(بشکریہ ایکسپریس)