تحریر عاجز جمالی
یہ کوئی معمولی شخص نہیں اور نا چھوٹا موٹا کردار ہے یہ سندھ کا ایک ایسا کردار ہے جسے تاریخ اصولوں کے معیار میں تولے گی تو بہت ہی قدآر شخص بشیر میمن نمودار ہوگا۔ پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل بشیر میمن اچانک پندرہ دن چھٹی پہ روانہ ہوگئے اور وفاقی وزیر داخلہ نے ایک ایڈیشنل ڈی جی کو چارج دیدیا۔ سندھ پولیس کے اس ایماندار اور بے باک افسر کو بیس بائیس سال سے جانتا ہوں میں اپنے مزاج میں پولیس والوں کی تعریف کرنے سے ہمیشہ جان بوجھ کر گریز کرتا ہوں کیونکہ میں نے اپنی صحافتی زندگی میں بڑے بڑے دیکھے جن کو لوگوں نے فرشتہ جانا مگر وہ شیطان نکلے۔ بشیر میمن جو سب کو بھائی جان بولتا ہے وہ بہت ہی مختلف ہیں۔ میں نے تب بھی لکھا تھا جب وہ ڈی جی ایف آئی مقرر ہوئے تھے میں آج محسوس کر رہا ہوں کہ بھائی جان کے اصول اور ضمیر شاید پھر آڑے آگئے۔ مجھے محسوس ہو رہا حکومت کسی کی بھی ہو بشیر میمن کسی کو بھی پسند نہیں۔ در اصل سچ اور سچائی ہمارے معاشرے کو قبول نہیں ہیں۔
یہ ۱۹۹۹ کی بات ہے جب بشیر میمن ایس ایس پی ایسٹ ہوا کرت تھے نواز شریف ملک کے وزیر اعظم تھے اور ان کے بھائی شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلی تھے یہ بھاری مینڈیٹ کا زمانہ تھا تب میں روزنامہ امت میں رپورٹنگ کرتا تھا۔ ایک شام کو پتہ چلا کہ بشیر میمن نے نمائش چورنگی کے قریب ایک طاقت ور شخص کے اڈے پر چھاپہ ڈالا یہ اپنے دور کا مشہور جوا خانہ تھا جہاں سے سب کو حصہ ملتا تھا۔ اڈہ بند ہوتے ہی بشیر میمن کے لئے عذاب خانے کا دروازہ کھُل چکا تھا۔ کراچی سے لے کر لاہور تک اور لاہور سے پنڈی و اسلام آباد تک پوری سرکار حرکت میں آ چکی تھی۔ بشیر بھائی جان کو پیچھے ہٹنے کاحکم ملا جو سندھ میں وزیر اعظم کے چیف ایڈوائیزر غوث علی شاہ نے دیا۔ بشیر بھائی جان کا کہنا تھا کہ بھلے تبادلہ کردیں لیکن جُوا خانہ کھلنے نہیں دوں گا۔ شہباز شریف بہت ہی تپا ہوا تھا کہ یہ پولیس افسر ہوتا کون ہے۔ اور تو اور اخبارات بھی بشیر میمن کے خلاف لکھ رہے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ اخبار نویس بھی مذکورہ اڈے سے مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ امت کے مدیر رفیق افغان نے کہا کہ آپ خبریں دو ہم بشیر میمن کی حمایت کریں گے انہوں نے نا صرف اداریہ لکھا بلکہ کہا کہ بشیر صاحب کو چائے پر دفتر بلا لیں اور دوسرے دن بھائی جان امت کے دفتر میں تھے۔ خیر طاقت ور سرکار نے بشیر صاحب کا تبادلہ کرنا چاہا لیکن سرکار خود بھی زیادہ دن نہیں چل سکی اور اٹھارہ اکتوبر کو فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کو چلتا کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا نواز شریف کو جیل بھیج دیا اور ان کے خلاف طیارہ سازش کیس چلنے لگا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے طیارہ سازش کیس میں ایس ایس پی بشیر میمن اہم گواہ بن گیا۔ کیونکہ الزام یہ تھا کہ ایڈوائیزر غوث علی شاہ آئی جی سندھ رانا مقبول پی آئی اے اور دیگر نے کراچی ایئر پورٹ پہنچنے پر جنرل پرویز مشرف کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ سو غوث علی شاہ اور رانا مقبول تو گرفتار ہوگئے اور ایس ایس پی بشیر میمن گواہ بن گیا۔ لیکن بشیر بھائی جان اپنے اصولوں پر قائم رہا ان کو کہا گیا کہ نواز شریف کے خلاف بیان دینا ہے لیکن بشیر صاحب نے جو دیکھا وہ ہی بولا۔ سو نواز شریف کا نا پسندیدہ بشیر میمن اب پرویز مشرف کے لئے بھی نا پسندیدہ بن گیا۔ وہ بعد ازاں مختلف عہدوں پہ رہے۔ ایف آئی اے۔ نیب۔ آئی بی۔ پولیس۔ کبھی کدھر تو کبھی کدھر ،پھر سندھ پولیس کے ڈی آئی جی بن گئے۔ جب آصف زرداری ملک کے صدر بنے تو شروع کا زمانہ تو ٹھیک تھا لیکن بشیر صاحب کے اصولوں اور ضمیر نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ اور پھر دو ہزار تیرہ کے انتخابات میں بشیر میمن نے عام انتخابات میں مخدوم امین فہیم کی حمایت سے انکار کیا تھا اور مٹیاری ضلع کے انتخابات میں انہوں نے عبدالرزاق میمن کی بلواسطہ حمایت کی تھی جس پر پیپلز پارٹی کے بڑے رئیس بشیر میمن سے ناراض ہوگئے یہ ہی وجہ ہے کہ نواز شریف کے پورے دور میں بشیر میمن کی ذمے داریاں وفاق کے پاس ہی رہیں وہ آئی جی آزاد کشمیر تو بن گئے لیکن آئی جی سندھ نہیں بن سکے۔ اس ہی زمانے میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے بن گئے کیونکہ بائیسویں گریڈ میں ترقی ہوگئی۔ وہ آج تک ڈی جی ایف آئی ہیں اور گذشتہ ایک سال کے دوران بشیر میمن نے جعلی اکائونٹس کیس پر ہی فوکس رکھا۔ ایک سندھی افسر نے ایک سندھی سیاست دان کے خلاف تحقیقات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آصف زرداری اور اور اس کی بہن فریال ٹالپر سمیت کئی بڑے لوگ اس کیس میں جیل کی چار دیواری کے پیچھے ہیں۔ سنا ہے کہ ملک کے حالیہ وزیر داخلہ برگیڈیئر ریٹائرڈ اعجاز خان تو آج بھی فوجی مزاج کے آدمی ہیں۔ آج پھر بشیر میمن نا پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل ہوگئے ہیں۔ پندرہ دن کی چھٹی پر چلے گئے یا روانہ کردیئے گئے لیکن ایسے لگتا ہے پاکستان کا اسٹبلشمنٹ حسب روایت ٹشو پیپرز والا کام لے رہا ہے اور مجھے ایک بار پھر لگ رہا ہے نواز شریف پرویز مشرف اور آصف زرداری کا نا پسندیدہ بشیر میمن عمران خان کے لئے بھی نا پسندیدہ بن گئے ہیں۔ اور بشیر بھائی جان آج بھی اپنے بیس سال پرانی بات پر قائم ہیں۔ میرا اصول اور میرا ضمیر ہی میرا سچ ہیں۔۔(عاجز جمالی)۔۔۔
(عاجز جمالی سندھ کے سینئر صحافی اور کے یوجے کے سیکرٹری بھی ہیں، ان کی یہ تحریر ان کی فیس بک ٹائم لائن سے لی گئی ہے، جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)