تحریر: رانا اشفاق احمد
جناب صدر صاحب اور دوستو میں لاہور پریس کلب کا کونسل ممبر ہوں اور تقریبا 20 سال سے اوپر ہو گئے ہیں اور شعبہ صحافت سے ہی وابستہ ہوں میں سمجھتا ہوں کہ میں ابھی بھی طالب علمی کے دور سے گزر رہا ہوں 2005 میں روز نامہ لیڈر کیطرف سے جب ایسوسی ایٹ ممبر شپ ملی تو میرے لئے یہ بڑے عزاز کی بات تھی اور پریس کلب آ کر بہت اچھا لگتا تھا دوستو میں نے مختلف اخبارات میں رپورٹر سے لیکر ایڈیٹر اور چیف ایڈیٹر کی پوسٹ پر کام کیا جس کے بعد اخبارت کو خیر آباد کہہ کر مختلف نیوز چینلز سے وابسطہ رہا ہوں میں اس وقت بھی ایک نیجی چینل پر اپنی ڈیوٹی کے فرائض سر انجام دے رہا ہوں ہوں میرے لئے سب سے فخر کی بڑی بات یہ ہے کہ مجھے کسی بھی ادارے نے نوکری سے خود فارغ نہیں کیا میں نے ہمشہ اپنی مرضی کیساتھ کام چھوڑا جہاں سے بھی چھوڑا جبکہ کام چھوڑنے کے بعد بھی اپنے ساتھ کام کرنے والے دوستوں اور ادارہ مالکان سے اچھے تعلقات رہے دوران ڈیوٹی میرے اوپر آج تک کسی بھی تھانے میں پیشہ کے حوالے سے ایف آئی آر تو دور کی بات کوئی درخواست بھی نہیں گئی یہ سب کچھ بتانا بہت ضروری تھا اب آ جاتے ہیں لاہور پریس کلب کیطرف دوستو جب بھی ممبر شپ اوپن ہوتی تو میں ہر دفعہ فارم بھی جمع کرواتا تھا مگر کونسل ممبر شپ نہیں ملتی تھی جس کے بعد کافی عرصہ پریس کلب آنا ہی چھوڑ دیا آخر کار مجھے کونسل ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے سفارش کروانی پڑی تب جا کر مجھے لاہور پریس کلب کی ممبر شپ ملی جبکہ میرے کئی ساتھی جو مختلف گروپس کے ساتھ اٹیچ ہو گئے ہوئے تھے انکی کونسل ممبر شپ مجھ سے کہیں پہلے ہی ہو چکی ہوئی تھی بتانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ سارا عمل کیسے ہوا اور کیسے ہوتا ہے یہاں اس وقت میں بھی ایک گروپ کیساتھ اٹیچ ہوں اور الیکشن 2022 میں اس گروپ کی مکمل سپورٹ کی ہے دوستو لاہور پریس کلب کی کونسل ممبر شپ ان لوگوں نے حاصل کر رکھی ہے جن کے پاس نہ تو کوئی تعلیم ہے نہ کوئی تجربہ ہے اور جن کا شعبہ صحافت سے دور دور تک کوئی تعلق ہی نہیں اور کئی وہ لوگ ہیں جن کو ایک سال ہوا فیلڈ میں دیکھتے ہوئے وہ بھی اب کونسل ممبر شپ کی سیٹ پر براجمان ہیں اور کئی وہ لوگ ہیں میرے جیسے جن کو بیس بیس سال ہو گئے فیلڈ میں دھکے کھاتے ہوئے انھیں ممبر شپ کیوں نہیں دی جاتی یہ میرا آپ سب سے سوال ہے اور دوسرا سوال یہ کہ کیا وہ لوگ فارغ نہیں ہونے چاہیئے جن کا شعبہ صحافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں دوستو ایک بہت ہی اہم بات ہے جو آپکے ساتھ شئیر کرنا ضروری تھی وہ یہ تھی کہ الیکشن 2022 میں ایک ایسی چیز میں نے دیکھی وہ یہ تھی کہ الیکشن کمپین کے دوران ایک دوسرےکی پگڑیاں اچھالی گئیں یہاں تک کہ یہ بھی کوشش کی گئی کہ گروپس ایک دوسرے کے دست و گریباں ہو جائیں یہ جو کچھ بھی ہوا دوبارہ کبھی نہیں ہونا چاہیئے جو وقت سے نہیں سیکھتے انکا انجام پھر برا ہی ہوتا ہے آپ سب دوستوں نے انکا محاصرہ کرنا ہے جو ہماری کمیونٹی کو بانٹ رہے ہیں اور جو میڈیا مالکان کے پیٹھو ہیں وہ لوگ ہمارے گھر کا ماحول خراب کر رہے ہیں وہ کون لوگ ہیں انھیں تلاش کرنا ہو گا آئیے میری کچھ تجاویز ہیں ہر کونسل ممبر کا ریکارڈ چیک کروایا جائے اسکی مکمل آئی ڈی اسکا فیملی ڈیٹا پریس کلب کے پاس مکمل موجود ہونا چاہیئے اور وہ اس وقت کس ادارے سے وابسطہ ہے ۔ کیا اسکے اوپر کسی بھی تھانے میں کوئی ایف آئی آر تو درج نہیں ۔ اور کیا یہ سچ میں جرنلسٹ ہے ۔ کیا یہ صرف شعبہ صحافت سے وابسطہ ہے ۔ کیا اسکا کوئی زاتی کاروبار بھی ہے ۔ کیا صرف اسکا اپنا زاتی کاروبار ہے ۔ کیا یہ سرکاری ملازم بھی ہے ۔ کیا یہ صحافت کیساتھ پرائیویٹ نوکری بھی کرتا ہے ۔ کیا یہ صحافت کیساتھ وکالت کے پیشہ سے بھی تعلق رکھتا ہے ۔ کیا یہ اعزازی ممبر ہے ۔ کیا یہ کسی اخبار یا چینل کا مالک تو نہیں ۔۔۔ پھر یہ دیکھا جائے کہ پریس کلب کا آئین کیا کہتا ہے میری صدر لاہور پریس کلب جناب اعظم چوہدری صاحب سے ریکوسٹ ہے کہ سب سے پہلا کام یہی ہونا چاہیئے اور میری سارے دوستوں سے درخواست ہے کہ الیکشن پر ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کی بجائے یہ نشاندہی کیا کریں کہ اس امیدوار نے کلب کی خدمت ٹھیک سے نہیں کی اسکے گروپ نے خزانے میں خورد برد کیا مگر ذاتیات پر نہ اترا کریں ایک دوسرے کی عزت کریں جو اچھا کام کرے اسکی تعریف کرو جو برا کام کرے اسے برا کہو یہاں پر میں نے دیکھا کہ پتہ نہیں الیکشن جیتنے کے لئے سینئرز پر جھوٹے الزمات لگاتے رہے آخر کیوں کوئی نہ کوئی تو غلطی ہے ہم سب میں ۔ پلیز اللہ کا واسطہ ہے لیڈروں کمیونٹی کے لئے تو ایک ہو جاو ورنہ یہ کمیونٹی تمہیں کبھی اچھے لفظوں میں یاد نہیں کرے گی ۔۔۔۔ میری اس تحریر سے اگر کسی کی دل آزاری ہوتی ہے تو وہ مجھے معاف کر دے ۔۔۔خیراندیش، (رانا اشفاق احمد، کونسل ممبر لاہور پریس کلب۔۔).