mein to phir manuga

میں تو پھر مانوں گا۔۔

تحریر: امجدعثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب۔۔

افسوس کہ ہم “آداب میزبانی” بھی بھول گئے۔۔۔۔۔!!مہمان کا ایک ہی “پروٹوکول” ہے کہ اس کے لیے پلکیں بچھائی جائیں اور دسترخوان سجھایا جائے۔۔۔سیرت مبارکہ کا بیش قیمت درس بھی یہی ہے۔۔۔۔۔پیر کامل سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب” کشف المحجوب” میں “جودوسخا “کے باب میں تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطائوں کے چند” انمول گوشے” بڑے دلنشین پیرائے میں بیان کرکے “رہنمائوں” کی کیا خوب رہنمائی کی ہے۔۔۔۔۔شیخ ہجویر نے لکھا ہے کہ سخی سخاوت کرتے وقت اپنے پرائے کی تمیز برقرار رکھتا ہے جبکہ جواد اپنے بیگانے کی تفریق نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔یہ چیز دو پیغمبروں کے حال سے نمایاں ہے۔۔۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کھانا نہیں کھاتے تھے جب تک دسترخوان پر کوئی مہمان نہ ہو…..ایک دفعہ تین روز گذر گئے کوئی مہمان وارد نہ ہوا….آخر کار کوئی آتش پرست دروازے پر آیا…..آپ نے پوچھا کون ہو؟جواب ملا آگ کا پجاری ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔فرمایا چلے جائو تم میرے مہمان ہونے کے قابل نہیں….اللہ کی طرف سے عتاب ہوا کہ ہم نے اس شخص کی ستر برس تک پرورش کی اور آپ سے یہ بھی نہ بن پڑا کہ اسے ایک وقت کی روٹی دے دو…..اس کے برعکس جب  پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاتم کا بیٹا عدی پیش ہواتو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر اس کے لیے بچھادی اور فرمایا کہ جب کسی قوم کا کوئی صاحب کرم شخص آئے تو اس کی تکریم کرو۔۔۔۔۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیگانے کی تفریق کو پیش نظر رکھا اور ایک غیر مذہب والے کو ایک نان بھی دینے سے دریغ کیا۔۔۔۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرق نظر انداز کر دیا اوراپنی چادر کا فرش کر دیا۔۔۔۔۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام سخاوت تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم جواد ٹھہرے۔۔۔۔!!اکثر سوچتا ہوں کہ تقسیم کرنے والے رسول کریم کے جمع کرنے والے امتی؟؟۔۔۔جواد پیغمبر کے بخیل امتی؟؟کیا یہ ہماری بدقسمتی نہیں؟؟؟نفرت انگیز مودی کے ہندوستان سے “جلاوطن” اور ریاست پاکستان کے مہمان ٹھہرے عالمی شہرت یافتہ اسلامی سکالر جناب ڈاکٹر ذاکر نائیک کو “جلالی مناظروں”کے چیلنج کی گونج میں مجھے کالج زمانے کے وہ بابا جی یاد آگئے جو مجھے ہر جمعہ کے بعد پکڑ کر “مناظرے”کا چیلنج دیتے اور میں ہنس کر چل دیتا۔۔۔یہ نوے کی دہائی کے اوائل کی بات ہے۔۔۔۔۔میں ایف ایس سی پری میڈیکل کا “دینیات پسند”طالب علم تھا۔۔۔مجھے اب بھی”اسلامسٹ” کہلاتے اتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنی کسی کو “سیکولر” ہونے پر۔۔۔۔۔کیا ہی خوب زمانہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ایک طرف انگلش،فزکس،کیمسٹری اور بیالوجی کی”سٹڈی”۔۔دوسری جانب جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم  اور اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی سیرت کا من میں ڈوب کر مطالعہ۔۔۔دل کرتا ہے وہ دل نشین عہد لوٹ آئے۔۔۔۔۔ان دنوں مجھے خطابت کا شوق بھی چرایا۔۔۔۔میں اسلامی لٹریچر پڑھتا۔۔۔ ٹیپ ریکارڈر پر علمائے کرام کے خطاب سنتا اور تقریر فرمادیتا۔۔۔گائوں کی ایک مسجد میں علامہ محمد حسین کے نام کے دھیمے مزاج کے آدمی قرآن و حدیث سے مزین خطبہ دیتے۔۔۔۔وہ مجھے حافظ صاحب کے نام سے پکارتے تھے۔۔اپنے خطبے کے آخر میں پندرہ منٹ عنایت فرماتے ہوئےکہتے حافظ صاحب آجائیں۔۔۔میں مائیک سنبھالتا اور ان کے برعکس شعلہ بیان خطاب کرتا۔۔۔۔علامہ محمد حسین بھی کیا خوب آدمی تھے۔۔۔۔۔اسی کی دہائی میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے عربی کے بعد پی ایچ ڈی کرتے کرتے نا جانے کیا ہوا کہ گائوں جا بیٹھے اور پھر مرتے دم تک لاہور کا منہ نہ دیکھا۔۔۔۔۔لوگ ان کے بارے کئی کہانیاں کہتے لیکن وہ نہیں بتاتے تھے کہ کہانی کیا ہے؟؟عربی دان تھے۔۔۔۔انگریزی بھی خوب آتی تھی۔۔۔۔قرآن اور حدیث کا ترجمہ فر فر کرتے۔۔۔وہ جمعہ کا خطبہ بھی قرآن اور حدیث سامنے رکھ کر دیتے ۔۔۔مطلب ترجمہ ہی بتاتے تھے۔۔۔۔۔میں نے نہم جماعت کی انگریزی کآ پہلا باب ان سے ہڑھا اور گریجویشن میں اسلامیات اور عربی بھی۔۔۔۔۔ سفید پوش۔۔۔روکھی سوکھی کھا کر اللہ کاشکر کرتے۔۔۔سائیکل ان کی ہم سفر تھی۔۔۔۔کبھی اس پر سوار تو کبھی اس کو پکڑے پیدل چلتے۔۔۔۔ کاش گائوں کے لوگ ان سے فیض یاب ہوتے۔۔۔۔مگر اذیت پسند لوگ بد بخت ہوتے ہیں۔۔۔مستفیض کیسے ہوتے۔۔۔۔وہ انہیں دیوانہ سمجھ کر طعن و تشنیع کے نشتر سے ان کے دل و دماغ کو چھلنی کرتے۔ ۔۔ ۔چپڑاسی اور چوکیدار سطح کے سطحی لوگ بھی ان پر طنز کرکے اپنے مکروہ دل کو تسکین پہنچاتے۔۔۔۔لیکن وہ کمال صبر سے جیتے رہے۔۔۔۔علامہ صاحب کے ساتھ جب بھی چائے پینے کا موقع ملتا۔۔۔۔باتوں باتوں میں سوال پوچھتا علامہ صاحب لاہور چھوڑنے کی کہانی تو بتائیں۔۔۔۔وہ کہانی سنانے کے بجائے کہیں کھو جاتے اور کہتے حافظ صاحب” بے حدیے” بڑے ظالم ہیں۔۔۔۔ساتھ ہی” بے حدیے”کی  عجب اصطلاح کی تشریح بھی کرتے اور راز کھولتے کہ یہ ایک خوفناک مخلوق ہے جو شکل سے انسان لیکن عقل سے حیوان ہے۔۔۔۔۔۔اس مخلوق کا پورا ایک نظام ہے اور اس کے کارندے شہر سے گائوں تک پھیلے ہوئے ہیں۔۔۔۔ہم علامہ صاحب کی اس “ڈرائونی تھیوری” کو ہنسی مذاق میں اڑادیتے۔۔۔بات “مناظرے والے بزرگ”سے کہاں نکل گئی۔۔۔خلاصہ یہ کہ وہ بابا جی نماز جمعہ کے بعد میرا انتظار کر رہے ہوتے۔۔۔مجھے دیکھتے ہی جذباتی ہو جاتے اور نعرہ مستانہ لگاتے کہ آپ جتنی مرضی تقریریں کریں لیکن میں آپ کی کوئی بات تب ہی مانوں گا جب قرآن تاج کمپنی کا اور ترجمہ ہمارے حضرت صاحب کا ہوگا۔۔۔!!!پیچھے مڑکر دیکھتا ہوں تو تین دہائیاں بیت گئیں لیکن “میں نہ مانوں”والے غصیلے بابا جی لاٹھی پکڑے ادھر ہی کھڑے ہیں۔۔۔۔۔وہی اپنے اپنے “من پسند فرقوں”کی باتیں۔۔۔۔اپنے اپنے “من پسند حضرتوں”کی باتیں۔۔(امجد عثمانی، نائب صدر لاہور پریس کلب)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں