تحریر: آفاق سمیع۔۔
کل شب گیارہ بجے کے قریب میں سہراب گوٹھ اسٹاپ پر رکشے کا منتظر تھا۔ مقررہ پوائنٹ کباب جی کے باہر پہنچنے کیلیے اپنے صاحبزادے کو فون کرکے جیسے ہی موبائل آف کیا اچانک ایک بائیک میرے قریب سے گزری اور پیچھے بیٹھا کرمنل موبائل پر جھپٹا ۔ لیکن چھیننے میں ناکام رہا۔ البتہ اس کی اس کھینچا تانی میں میری قمیص کا بٹن ٹوٹ گیا ۔۔اور بائیک تیزی سے آگے نکل گئی ۔۔ لوگوں نے خیر خیریت لی۔ رکشا آیا تو میں اس میں سوار ہوگیا۔ کچھ ہی دور چلا تھا کے میری نظر اپنے برابر بیٹھے شخص کے ہاتھ پر گئی اور میں چونک اٹھا اس کے ہاتھ میں ایک پرانا سا پستول لہرا رہا تھا۔ اس کی انگلی ٹریگر پر تھی اور اس کا رخ سڑک کی طرف تھا۔۔ اس کی دیدہ دلیری پر میں حیرت زدہ تھا۔ کیا وہ کوئی ٹارگٹ کلر ہے یا حلیے کے مطابق سادہ لباس اہلکار۔۔رکشا الآصف اسکوائر کے اسٹاپ پر پہنچا۔ ایک لڑکا پچھلی نشست پر سوارہوا تو مجھے کھسک کر مشکوک شخص کے بالکل برابر میں جانا پڑا ۔۔ پستول پر اس کی نظر پڑی تو وہ اترنا چاہتا تھا کے رکشا آگے بڑھ گیا جس کی اگلی نشست پر ایک فیملی بیٹھی تھی۔۔ کالے بڑے سے رومال کو پیٹھ پر ڈالے وہ مسلسل آگے کی طرف جھکا مستعد اور بے فکر بیٹھا تھا۔ اس دوران کبھی کبھی وہ پستول کو رکشےسے باہر کی طرف لے جاتا۔۔ میں نے سوچا ۔ اگر یہ کسی پر گولی چلانے کی کوشش کرے گا تو میں اسے دھکا دے دوں گا تاکہ کسی بےگناہ کی جان بچائی جاسکے ۔ اس شخص کو درجنوں بائیک والوں۔ کار والوں نے دیکھا ہوگا۔۔ قریب سے گزرنے والے رکشے میں سے ایک نوجوان نے انگوٹھا دکھا کر اسے داد دی ۔ تو وہ ہماری سوالیہ نگاہوں پر گھورتے ہوئے بولا۔ ہمارا بہت دشمن ہے اپنی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ راستے میں چوکی پر رینجرز کی گاڑی بھی نظر آئی مگر رکشا دوسرے ٹریک سے گزر رہا تھا۔ وہ شخص ایک گوٹھ کے پاس اسٹاپ پر اتر گیا۔۔ غنیمت تھا اس نے ہمیں نہیں لوٹا۔۔ ہم اپنے اسٹاپ پر اترے تو رینجرز اہلکار عام بائیک والوں اور گاڑیوں کو روک کر چیکنگ کررہے تھے۔۔ بیٹے کے ساتھ اپنے گھر کی طرف چلے تو کچھ دورسڑک پر رینجرز اہلکار مزید کاریں روکے کھڑے تھے ان میں فیملیاں بھی تھیں ۔۔ تاہم دیگر کی طرح ہماری گاڑی بھی گزر گئی اور بحفاظت گھر پہنچ کر ہم نے سکھ کا سانس لیا۔۔اور شہادت کیلیے یہ سیلفی لی ۔(آفاق سمیع)