khusra qanoon | Imran Junior

میں کیوں لکھتا ہوں؟

تحریر : علی عمران جونیئر

دوستو،اکثر دوست احباب ملاقاتوں اور فون پر یہ سوال ضرور کرتے ہیں کہ آپ ’’مزاح‘‘ ہی کیوں لکھتے ہیں؟یہ سوال اب ہمارے لئے نارمل یا ایک عام سا سوال بن گیا ہے۔۔ ہمارا گزشتہ کالم’’میرے ہیرو‘‘ جو اپنے والد کے حوالے سے لکھا تھا، اور اس میں کیا لکھا تھا ،حلف اٹھوا لیں کچھ یاد نہیں۔۔ بس ذہن میں جو کچھ آتا گیا ، تحریر کرتا گیا۔۔ احباب کی اکثریت نے اپنے فیڈبیک میں اس کالم کی بے حد تعریف کی، ایک جملہ جو تمام احباب کے فیڈبیک میں مشترکہ تھا ، وہ یہ کہ۔۔ اس تحریر نے ان کی آنکھوں میں آنسو بھردیئے۔۔ کچھ لوگوں نے پھر وہی سوال دہرا دیا کہ آپ جب سنجیدہ اتنا اچھا لکھ سکتے ہیں تو پھر ’’مزاح‘‘ میں اپنا سر کیوں پھوڑ رہے ہیں۔۔ یعنی سوال کرنے والے خود بتارہے ہیں کہ ہماری یہ اوٹ پٹانگ باتیں انہیں کتنا ’’چبھتی‘‘ ہیں۔۔

خیر پھر سے موضوع پر آجائیں،مزاح کیوں لکھتا ہوں؟سوال بظاہر تو عام سا ہے،جس کا جواب لیکن کچھ خاص ہے، پہلی بات تو یہ ہے کہ مزاح لکھنا ہرکسی کے بس کی بات نہیں، قارئین کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کیلئے ہر تحریر لکھنے کے دوران دانتوں تلے پسینہ آجاتا ہے۔ماہرین نے مزاح کرنے کے تین بڑے اسباب بیان کئے ہیں۔ پہلا سبب برتری کا احساس ہے چنانچہ اس احساس کے تحت ہم جسے کم تر ، بے ڈھنگا، بد صورت ، غلط، احمق یا کسی اور پہلو سے کمتر سمجھتے ہیں تو اس پر ہنستے اور اس کا مذاق اڑاتے ہیں۔ ایک اور سبب غیر مطابقت ہے یعنی جب نتائج مروجہ توقعات کے مطابق نہیں ہوتے تو ہم ہنس پڑتے ہیں جیسے ایک غیر اہل زبان اردو کا کوئی لفظ ادا نہ کرپائے تو لوگ ہنستے ہیں۔ اسی طرح ایک اور سبب دباؤکی تخفیف ہے یعنی لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کے لئے یا ہلکا پھلکا ہونے کے لئے بھی مزاح کرتے ہیں۔اب سوال یہ ہوتا ہے کہ مذاق کرنے اور مذاق اڑانے میں کیا بنیادی فرق ہوتا ہے؟

مذا ق اڑانے کی حدود تو ہم نے یہ طے کی ہیں کہ اگر مذاق کا مقصد متعین شخص کی تحقیر و تذلیل ہو یا یہ مذاق متعلقہ شخص کو برا لگے تو یہ مذاق اڑانے کا عمل ہے۔لیکن اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہیں ہورہی تو یہ مذاق اڑانے کا عمل نہیں ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس کے بعد ہر قسم کا مذاق جائز ہے۔ کسی مذاق یا مزاح کے جائز ہونے کے لئے مزید کچھ پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ چنانچہ جائز مذاق ’’ وہ بات ، اشارہ یا عمل جو تفنن طبع اور تفریح کے لئے کیا جائے اور جس میں کسی مخصوص فردیا قوم کی تحقیر و تذلیل کی نیت نہ ہو اور نہ ہی اس میں جھوٹ، ایذارسانی، فحاشی، بدگوئی یا کسی غیر اخلاقی و غیر شرعی عنصر کی آمیزش ہو‘‘۔

ہمارے پیارے دوست نے یہ بھی بتایا کہ صوبہ سرحد میں اگر شادی بیاہ میں کوئی ہنسنے ہنسانے والا آ بھی جاتا ہے تو وہ ادھر ادھر کا مذاق تو کرتا ہے محفل میں بیٹھے خانوں پر کوئی جگت نہیں لگاتا۔کیا ہنسنا اتنی بری چیز ہے۔ کیا مولوی یا خان پر جگت لگانے سے ان کی بے عزتی ہو جاتی ہے۔ کیا وہ خود پر ہنس بھی نہیں سکتے۔ اگر خود پر ہنسیں گے نہیں یا ہنسی برداشت نہیں کریں گے تو اپنی گھٹن کیسے کم ہو گی۔

چلیں جی کافی سنجیدہ باتیں کرکے آپ کا وقت ضائع کرڈالا۔۔ اب کچھ ہنسنے ہنسانے کی بات ہوجائے۔۔ابھی ہم نے مولوی کا ذکر کیا تھا۔۔مولویوں کے لاتعداد واقعات مشہور ہیں۔۔ایک بار ایک مولوی صاحب نے جماعت سے پہلے ہدایت کی کہ۔۔ تمام نمازی اگلی صفوں پر آجائیں۔۔تو پیچھے سے میرے جیسے ایک نمازی نے کہا۔۔کیوں مولوی صاحب پیچھے کیا جھٹکے لگتے ہیں؟اسی طرح ایک بار مولوی صاحب نے کہا کہ ۔۔صفیں سیدھی رکھنے کیلئے لائن سے باہر پیر نے جائے۔۔پیچھے سے کسی نے جگت لگائی۔۔کیوں مولوی صاحب کیا ’’نوبال‘‘ ہوجائے گی۔۔ہمارا دوست پپو تو اتنا سادہ ہے کہ جب جمعہ کے خطاب کے بعد مولوی صاحب نے کہا کہ ۔۔اپنے اپنے موبائل بند کردیں۔۔تو پپو بیچارہ موبائل آف کرنے کیلئے مسجد سے باہر آیا اور سیدھا گھر چلاگیاکیونکہ اس کا موبائل گھر پر چارجنگ کیلئے لگا ہوا تھا۔۔۔اسی طرح ہمارے محلے کی جامع مسجد میں امام صاحب کی جماعت کے دوران باآواز بلند ہوا خارج ہوگئی۔۔لیکن امام صاحب نے نماز نہیں توڑی۔۔ سلام پھیرنے کے بعدکسی نمازی نے آواز لگائی۔۔ واہ امام صاحب۔۔ پہلا ڈرائیور دیکھا ہے جو ’’پنکچر ‘‘ کے باوجود گاڑی کو کھینچ کر منزل کی طرف لے گیا۔

کسی نے پوچھا کہ جج صاحبان کسی کو پھانسی کی سزا دینے کے بعد پین کی نب کیوں توڑ دیتے ہیں توہماری طرح کا ہی کوئی عقل سے پیدل لیکن اندر سے پکا کوئی ’’فیصل آبادی‘‘ برجستہ بولا۔۔ کیوں کہ لاسٹ ٹائم جب ایک جج نے بھٹو کی پھانسی کی سزا دی تھی تو پین کی نب نہیں توڑی تھی اس لئے بھٹو آج بھی ’’زندہ‘‘ ہے۔۔ ویسے آپ لوگ یقین کریں نہ کریں، ہم بھٹو کو ایک بڑا لیڈر تسلیم کرتے ہیں، نوجوان نسل اچھی طرح ذہن میں بات بٹھا لے کہ لیڈر اور سیاست دان میں فرق ہوتا ہے۔۔ہر سیاست دان لیڈر نہیں ہوتا، لیڈر ہونا خداداد صلاحیت کا نام ہے۔۔بھٹو نے ایک بات کہا تھا،ہم گھاس کھالیں گے ایٹم بم بنائیں گے، نوازشریف نے کہا تھا، بھوکے رہ لیں گے ایٹمی دھماکے ضرور کریں گے اور ہمارا کپتان کہتا ہے، تو کیا حملہ کردوں؟؟؟ہمارے پیارے دوست نے بڑا معصومانہ سوال پوچھا ہے۔۔پوچھتے ہیں کہ۔۔بھارت ایک شخص (کلبھوشن یادیو) کو پھانسی سے بچانے کے لئے عالمی عدالت چلاگیا،ہم لاکھوں کشمیری مسلمانوں کے قتل و غارت پر خاموش کیوں ہیں؟؟۔۔ ایک پٹواری نے تو سوشل میڈیا پر مودی کو للکارتے ہوئے لکھا ہے کہ، اوئے مودی ہمارے فوجی مارنا تو دور کی بات تم ہمارے یوتھیوں کا تبدیلی والا کیڑا بھی نہیں مارسکتے۔۔ایک اور دل جلے نے مشورہ دیا ہے کہ ۔۔نوازشریف کی موٹروے اگر جنگی طیاروں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے تو پشاور میٹرو کے کھڈے بھی بطور مورچہ استعمال کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔ایک لاہوری نے بڑی دلچسپ بات لکھی ،کہتا ہے۔۔مودی سن لے اگر اس بار ہم نے جنگ شروع کی تو پشاور میٹرو کی طرح شروع تو کردیں گے پھر ختم کب ہوگی کوئی نہیں بتاسکے گا۔۔ پی ٹی آئی کے ایک سرگرم کارکن نے بھی لب کشائی فرمائی، کہتے ہیں کہ۔۔عمران خان انڈیا پر ایٹم بم بھی گرادے تو پٹواری کہیں گے میاں صاحب چلاتے تو آواز زیادہ آنی تھی۔۔

اوراب چلتے چلتے آخری بات۔۔کہتے ہیں کہ قہقہہ دو انسانوں کے درمیان سب سے کم فاصلہ ہوتا ہے۔ اگر ایک دوسرے پر اور ان کے ساتھ، ہنسیں گے نہیں تو فاصلہ کیسے کم ہو گا۔ اور اگر فاصلہ نہیں کم ہو گا تو قربتیں کیسے بڑھیں گی۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ اگر ہنسنے کے لیئے کچھ بھی نہیں ہے تو کریڈٹ پر ہنس لیں۔ اس کی بات مان لیں، یقین کیجیئے کچھ نقصان نہیں بلکہ الٹا افاقہ ہو گا۔ تنے رہنے سے دماغی مسائل ہی بڑھتے ہیں۔ہماری بات پر یقین نہیں تو ان کی طرف دیکھیئے جو تنے رہتے ہیں۔ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ’ ’وہ میرے خواب پر ہنستی رہتی ہے اور میں اس کی ہنسی کے خواب دیکھتا رہتا ہوں‘‘۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں