mein kiske hath mein apna lahu talash karu | Umair Ali Anjum

میں کس کے ہاتھ میں اپنالہوتلاش کروں!!!

تحریر: عمیر علی انجم۔۔

آج صبح آنکھ کھلتے ہی واٹس ایپ پیغامات اورفون کالزدیکھیں توششدر رہ گیا،ایک اور صحافی فہیم مغل نے بے روزگاری کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے اور مرگیا۔۔۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میڈیا انڈسٹری پہلے بے حسی کاشکارہوئی پھر بے غیرتی تک پہنچ گئی۔۔۔اس تمام صورت حال پرمیں نے لکھناشروع کیاتوبہت سے نام نہادخودساختہ رہنماجنھیں رہنمائی کاشوق تو ہے مگر اس بات کااندازہ نہیں کہ اس کے تقاضے کیاہیں؟؟ مجھ پر برسنے لگے لیکن میں سچ لکھتارہا،آخر  یہ ہوا کہ مجھے کہیں نوکری پرنارکھنے کے لئے مجبورکیاجاتارہا۔۔2016میں ایکسپریس میڈیا گروپ سے چھانٹیوں کا آغازہوا تو میں بھی وہاں ملازمت کررہا تھا اس ہی ادارے میں کئی نام نہاد بلکہ بیشتر وہ رہنماموجودتھے جو کسی بھی طورانتخابی سرگرمیوں کواپنافرض سمجھ کرعہدے کی دوڑ میں سب سے آگے ہوتے ہیں اور اس وقت بھی کے یوجے اورپی ایف یوجے کی سربراہی ان کے ذمے تھی مگر ان کے سامنے ورکرز کاکام لگتارہابلکہ کچھ حلقوں کادعوی ہے کہ نوکری سے نکالے جانے والے ملازمین کی لسٹیں بنانے والے کاریگروں میں ان ہی میں سے کچھ افرادشامل بھی تھے، اب یہ بات کس قدر سچ ہے یہ ان ہی کومعلوم ہوگی، شکاریوں کاایک شکار میں بھی بنا اور ایمانداری سے نوکری کرکے ادارے کواس کی دی ہوئی ذمے داریوں کے مطابق ڈیلیورکرتارہامگر ان صحافتی اداروں کوکام اور اصولوں سے زیادہ وہ لوگ عزیز تھے جو ان کے کالے دھندوں میں ان کابازو بنے رہیں اور پھر خوشامد کی وہ حدیں بھی پار کردیں جہاں عزت اور ذلت کا تصور بھی باقی نارہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے یہ دونوں ہنر ہم میں نہیں تھے، ایکسپریس میڈیا گروپ سے جب چھانٹیوں کا عمل شروع ہوا تو ہم نے نام نہاد صحافی رہنماوں کوجھنجھوڑا اور درخواست کی کہ آپ لوگ اس پراحتجاج کریں اور اگر مالکان ورکرز کونکال رہے ہیں توآپ بھی مستعفی ہوجائیں تاکہ یہ وبا دوسرے اداروں تک نا پہنچے مگر ایسا ناہوا کیونکہ ان رہنمائوں میں سے بیشتر کویہ علم تھا کہ اگروہ وہاں سے نکالے گئے توانھیں کون رکھے گا، بہرحال پھر تو یہ نارکنے والا سلسلہ یوں چلاکہ تھماہی نہیں، اور ملازمین  جوق در جوق  نکالے جاتے رہے،خیر میں شاید کچھ تلخ ہو گیا ہوں مگر میرا اپنے صحافی بھائیوں سے ایک سوال ہے جو ان پانچ برسوں سے ذہن میں ہے کہ میڈیا شدید بحران کاشکارہوا، ہزاروں ورکرز نکال دیئے گئے مگر ان صحافیوں کوجورہنمائی کے شوقین ہیں اور ہر اخبار یاچینل کے بیوروچیف یاچیف رپورٹر، ایڈیٹر ہیں کو کسی بھی اخبار یا چینل سے کیوں نہیں نکالا گیا۔ کیا مالکان ان سے ڈرتے ہیں؟؟ یا یہ افراد بھی تمام مراحل میں میڈیا مالکان کابازو بنے رہے؟ ؟؟مجھے تو آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل رہا۔۔بہرحال آج فہیم مغل ہار گیا۔۔۔اس سے قبل مزید کئی صحافی دوست چھوڑ چلے کئی آج بھی اپنی عزت ودستار سنبھالے فاقوں کے باوجود کوئی در کھٹکھٹانے سے ڈرتے ہیں،مگر رہنماء صحافی زندہ باد کے نعرے لگارہاہے اور یہ نعرے اب اس قدر کھوکھلے ہیں کہ ان پرتو اب ہنسی بھی نہیں آتی۔۔۔میں اپنے صحافی بھائیوں سے صرف اتنا کہناچاہتاہوں یاتو آپ اپنی بقا کاکوئی رستہ خودتلاش کریں ورنا اب کسی بھی فورم پر ان رہنمائوں کوووٹ کی بھیک مانگتا دیکھیں تو ان سے یہ سوال ضرور کریں کہ ہم مرے کیوں ہیں؟؟ اور خود کی بقا کے لئے اچھے اور مخلص لوگ یکجا کر کے ایک ایسا فورم تشکیل دیں جو کم از کم ہمیں بھوک و افلاس سے بچاسکے کیونکہ ہم تو شاید بھوکے رہنے کے عادی ہوچکے ہیں مگر ہمارے گھر بچے،ماں باپ اس زندگی کے مستحق نہیں۔۔۔فہیم تم چل دیئے اللہ تمھارا حامی وناصر ہو مگر یار ہمت یوں نہیں ہارتے۔(عمیرعلی انجم)۔۔!!

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں